ذہن جاگ رہا ہو تو دکھ بڑھتے جاتے ہیں۔۔۔پل کے پل میں آسمان پہ کالی گھٹا چھا گئی اور ہلکی ہلکی پھوار پڑنے لگی

 ذہن جاگ رہا ہو تو دکھ بڑھتے جاتے ہیں۔۔۔پل کے پل میں آسمان پہ کالی گھٹا چھا ...
 ذہن جاگ رہا ہو تو دکھ بڑھتے جاتے ہیں۔۔۔پل کے پل میں آسمان پہ کالی گھٹا چھا گئی اور ہلکی ہلکی پھوار پڑنے لگی

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

مصنف:یاسمین پرویز

قسط:11

پل کے پل میں آسمان پہ کالی گھٹا چھا گئی اور ہلکی ہلکی پھوار پڑنے لگی۔ لان میں کھلے رنگ رنگ کے خوشنما پھول شوخ ہواؤں کے سنگ جھومنے لگے۔ فضا ء ان کی مسحور کن خوشبو سے مہک اٹھی۔ شام کا حسن پھیلنے لگا۔ جمال نے سگریٹ سلگایا اور ثمینہ کی طرف دیکھا۔ وہ مشین پہ جھکی ننھی افشاں کا فراک سلائی کرنے میں محو تھی۔ اس نے سگریٹ کا کش لیا اور بڑے جذباتی لہجے میں گویا ہوا ”ثمینہ ڈارلنگ! دیکھو تو موسم کتنا سہانا ہو گیا ہے۔“ اس نے جھک کر مشین کی ہتھی پہ اپنا ہاتھ رکھ دیا۔ ثمینہ نے ایک لمحے کے لیے نظریں اٹھائیں، اس کا چہرہ جذبات سے عاری تھا۔ جمال کا ہاتھ مشین کی ہتھی سے ہٹا کر دوبارہ مشین پہ جھکتے ہوئے بڑی عجلت میں گویا ہوئی ”موسم تبدیل ہو رہا ہے اور افشاں کے کپڑے ابھی تک سل نہیں پائے۔“ اس نے بات بڑھائی ”مجھے یہ فراک آج ہی مکمل کرنا ہے۔“ پھوار تھم گئی۔ جمال نے سگریٹ ختم کیے بغیر اسے ایش ٹرے میں مسلا اور دروازے کی طرف بڑھا۔ اسے یوں محسوس ہوا جیسے شام کا حسن پل بھر میں چھن گیا ہو اور وہ اس کے دل کی طرح تنہا اور ویران ہو گئی ہو۔ ”سنیے…… بے بی کی Leggings لیتے آئیے گا۔“ ثمینہ کی آواز نے اس کا تعاقب کیا اور وہ سوچنے لگا کہ ثمینہ تو ہمسفر کے روپ میں ملنے والا وہ رہزن ہے جس نے اس سے اس کا سب کچھ چھین لیا اور اسے اپنے آپ سے بھی جدا کر دیا مگر وہ کس قدر بے بس ہو کر رہ گیا تھا کہ رہزن کو رہزن بھی نہ کہہ سکا۔ ”ڈیڈی آپ کہاں جا رہے ہیں؟“ افشاں نے اسے پورچ میں کھڑی کار کی طرف بڑھتے ہوئے دیکھ کر پوچھا۔ ”پتہ نہیں۔“ وہ اسے نظرانداز کرتے ہوئے بولا۔ ”میں بھی آپ کے ساتھ چلوں کی ڈیڈی۔“ افشاں نے ضد کی۔ ”نہیں بیٹی، آپ کی ممی آپ کے بغیر اداس ہو جائیں گی۔“ ”ممی کو بھی ساتھ لے چلتے ہیں نا۔“ اس نے چہکتے ہوئے کہا۔ یوں جیسے اس نے اس مسئلے کا حل تلاش کر لیا ہو۔ ”آپ کی ممی ہمارا ساتھ نہیں دے سکتیں …… آپ اندر چلیئے۔“ جمال نے درشت لہجے میں افشاں کو حکم دیا اور وہ سہم کر اندر بھاگ گئی۔ جمال نے لٹے لٹے سے احساسات کے ساتھ کار سٹارٹ کی اور شہر کی ویران سڑکوں پہ دل کی ہنگامہ خیز دنیا میں کھویا، کار دوڑاتا چلا گیا۔ تنی ہوئی نسوں اور کھنچے ہوئے اعصاب کو آسودگی بہم پہنچانے کے لیے اس نے تسکین آور گولیوں کی شیشی جیب سے نکالی اور 2 گولیاں نگل لیں۔ جب بھی سوچ کے دہکتے الاؤ میں اس کا تن من جلنے لگتا تو وہ تسکین آور گولیوں کا ہی سہارا لیتا اور یوں تھوڑی دیر کے لیے اسے آسودگی میسر آ جاتی۔ اب تو اس نے اپنے جاگتے ہوئے ذہن کو سلانے کی خاطر خواب آور گولیوں کا مسلسل استعمال شروع کر دیا تھا۔ اس لیے کہ وہ اس حقیقت سے آگاہ تھا کہ ذہن جاگ رہا ہو تو دکھ بڑھتے جاتے ہیں۔(جاری ہے)

نوٹ: یہ کتاب ”بُک ہوم“ نے شائع کی ہے۔ ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔(جملہ حقوق محفوظ ہیں)

مزید :

ادب وثقافت -