روس کے نائب وزیراعظم کا دورہئ پاکستان

روس کے نائب وزیراعظم کا دورہئ پاکستان

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

روس کے نائب وزیراعظم الیکسی اوورچک نے بدھ کو اپنے ہم منصب اسحاق ڈار کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان نے ”برِکس“ کی رکنیت کے لیے اپلائی کیا ہے جس کی روس حمایت کرتا ہے،پاکستان سے اچھے تعلقات ہیں،اتفاقِ رائے سے پاکستان برِکس کا رکن بن سکتا ہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ پاکستان کے ساتھ تجارتی، معاشی اور ثقافتی تعلقات مضبوط کریں گے۔ مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ روس کے نائب وزیراعظم کے ساتھ تجارت اور معیشت پر تفصیلی گفتگو ہوئی ہے، دونوں ممالک کے تعلقات درست سمت میں آگے بڑھ رہے ہیں، توانائی کے شعبے میں مل کر کام کریں گے ساتھ ہی ساتھ افغانستان کے معاملے میں بھی پاکستان اور روس کا تعاون جاری رہے گا۔ دونوں ممالک کے درمیان وزارتِ خارجہ میں وفود کی سطح پر تفصیلی بات چیت کی گئی جس کے بعد ایک تقریب میں معیشت اور تجارت کے شعبوں میں دوطرفہ تعاون کی ایک مفاہمتی یادداشت پر دستخط بھی ہوئے۔ ترجمان دفتر خارجہ کے مطابق فریقین نے پاکستان اور روس کے درمیان دوطرفہ تعاون کے تمام پہلوؤں کا جائزہ لیا جس کے بعد تجارت، صنعت، توانائی، کنیکٹیوٹی، سائنس اور ٹیکنالوجی کے علاوہ تعلیم کے شعبوں میں بات چیت کو آگے بڑھانے پر اتفاق کیا گیا۔ترجمان نے مزید کہا کہ دونوں ممالک نے اقوام متحدہ اور شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او)سمیت دیگر کثیرالجہتی فورمز پر بھی ایک دوسرے کا ساتھ دینے پر اتفاق کیا۔انہوں نے آرمی چیف جنرل سیدعاصم منیر سے بھی ملاقات کی جس میں فریقین نے متعدد شعبوں میں سکیورٹی اور دفاعی تعاون کو مضبوط بنانے کے عزم کا اعادہ کیا۔ واضح رہے کہ آئندہ ماہ (15 اور 16 اکتوبر) کو اسلام آباد میں ہونے والے والے ایس سی او کے سربراہی اجلاس میں روس کے وزیراعظم کی شرکت متوقع ہے۔ 

روس نے برِکس کی رکنیت کے لیے پاکستان کی حمایت کی بات ہے، برِکس دراصل برازیل، روس، انڈیا، چین اور جنوبی افریقہ کا ایک گروپ ہے جو کہ 2009ء میں بنا تھا، ابتداء میں یہ تنظیم برازیل، روس، انڈیا اور چین پر مشتمل تھی اِسی لیے اِس کا نام برِک تھا تاہم ایک برس بعد جنوبی افریقہ اس میں شامل ہو گیا اور 2010ء میں یہ برِکس بن گیا۔ اِسے بنانے کا مقصد تیزی سے ترقی کرنے والی ایسی معیشتوں کو سامنے لانا تھا جن کے بارے میں گمان تھا کہ 2050ء تک وہ مل کر عالمی معیشت پر غلبہ پا لیں گی۔ برِکس کے رکن ممالک نے آپس میں مالیاتی استحکام کے لیے دو مالیاتی ادارے، نیو ڈویلپمنٹ بینک (جسے عرف عام میں برِکس بینک بھی کہا جاتا ہے) اور کانٹی جینٹ ریزرو ایگریمنٹ قائم کر رکھے ہیں۔ رواں سال اگست میں جنوبی افریقہ کے شہر جوہانسبرگ میں برِکس کا اجلاس ہوا جس میں مزید چھ ممالک ایران، ایتھوپیا، سعودی عرب، مصر، متحدہ عرب امارات اور ارجنٹائن کو شامل کرنے پر اتفاقِ رائے ہوا۔ واضح رہے کہ پاکستان نے گزشتہ سال برِکس میں شمولیت کی باضابطہ درخواست دی تھی،اِس کا رکن بننے کے لئے تمام اراکین کا متفق ہونا ضروری ہے اِسی لیے متعلقہ ماہرین کا خیال ہے کہ بھارت پاکستان کی رکنیت کی مخالفت کر سکتا ہے۔اِس کی ایک وجہ تو پاک بھارت تعلقات ہیں اور دوسری اہم اور بڑی وجہ یہ ہے کہ بھارت کو یہ خطرہ لاحق ہے کہ اس طرح چین برِکس پر قبضہ کر سکتا ہے،صورتحال یہ ہے کہ یوکرین جنگ کے بعد روس چین کے زیر اثر ہے، خلیجی ممالک میں بھی چین قدم جما رہا ہے، ایران،ایتھوپیا، سعودی عرب، مصر، متحدہ عرب امارات اور ارجنٹائن کی برِکس میں شمولیت کے بعد وہ اب پاکستان کو بھی اِس میں شامل کرانا چاہتا ہے۔ چین نے حال ہی میں ایران اور سعودی عرب کے درمیان ثالثی کرا کے خلیجی ممالک میں اپنی اہمیت ثابت کر دی ہے اور پاکستان سمیت مزید اہم ممالک برِکس کے ممبر بن جاتے ہیں تو بھارت اِس عالمی فورم پر تنہا ہو سکتا ہے۔

کسی بھی ملک کے لئے علاقائی تنظیموں کی رکنیت بہت اہم اور ضروری ہوتی ہیں،یہ پلیٹ فارم اقتصادی اور سیاسی مواقع فراہم کرتے ہیں۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ برِکس میں شمولیت سے پاکستان کے لئے اقتصادی مواقع کھل سکتے ہیں،وہ مالی تعاون حاصل کر سکتا ہے جبکہ سرمایہ کاری کے امکانات بھی بڑھ سکتے ہیں۔ایک عام خیال یہ بھی  ہے کہ چین اِس پلیٹ فارم کو دنیا کی سات بڑی ترقی یافتہ معیشتوں کے گروپ (جی سیون) کے حریف کے طور پر آگے لانا چاہتا ہے اور اگر آنے والے وقت میں یہ فارم جی سیون طرز کی کوئی تنظیم بن جائے تو اِسے سیاسی طور پر بھی خاصی اہمیت حاصل ہو جائے گی۔اِس کے ساتھ ساتھ مغربی دنیاکو لگتا ہے کہ چین برِکس کو نیٹو مخالف بلاک کے طور پر استعمال کرنے کی خواہش رکھتا ہے۔ بعض ماہرین کے مطابق سرد جنگ کے خاتمے کے بعد عالمی سیاست میں پہلے امریکہ بمقابلہ سویت یونین اور اب امریکہ بمقابلہ چین کے نظریے نے تقویت پکڑ لی ہے، یہ بات اپنی جگہ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ سوویت یونین کے برعکس چین دوسرے ممالک کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنے،اپنی ترقی کے اثرات اُن تک پہنچانے کی پوری کوشش کرتا ہے، اِسی اقتصادی تعاون اور لائحہ عمل کی وجہ سے وہ آج امریکہ کے مقابل کھڑا ہے۔دوسری طرف امریکی ماڈل ابھی بھی سرد جنگ سے زیادہ متاثر ہے جیو پالیٹکس پر زور دیتا ہے،اِسی وجہ سے وہ اسرائیل کی مکمل حمایت اور فلسطین پر اُس کا تسلط قائم کرنے میں مدد کر رہا ہے۔اگر دونوں ممالک کی حکمت عملی کا جائزہ لیں تو موجودہ حالات میں چین اِس معاملے میں زیادہ کامیاب نظر آتا ہے،اِس کے ماڈل کے تحت کسی بھی ملک کے داخلی معاملات سے بالا تر ہو کر ایسا اتحاد قائم کیا جاتا ہے جس کا مرکز معاشی تعاون  ہوتاہے، یہی وجہ ہے کہ چین کا بلیٹ اینڈ روڈ انیشیٹو(بی آر آئی) دنیا کے 154 ممالک تک پھیل چکا ہے۔ چین امریکہ کے برعکس جیو پالیکٹس کی بجائے جیو اکنامکس کی ترویج کر رہا ہے۔یہ بات بھارت کو بھی سمجھنے کی ضرورت ہے،اسے بھی جیو پالیٹکس کی بجائے جیو اکنامکس پر غور کرنا چاہئے۔ کسی بھی خطے کی ترقی کے لیے وہاں اَمن قائم ہونا ضروری ہے، ملکوں کے ہمسائے بدلے نہیں جا سکتے،اُن ہی کے ساتھ تعاون کر کے آگے بڑھنے میں ہی بھلائی ہے۔کسی بھی ہمسایہ ملک کی جڑیں کمزور کرنے کی کوشش سے صرف نقصان ہی ہوتا ہے۔بھارت اسرائیل کی تقلید کی بجائے مذاکرات کا راستہ اپنائے۔پاکستان نے اِسے شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس میں شرکت کا بلاوا بھیجا تو اُن کے وزیر داخلہ نے بیان داغ دیا کہ آرٹیکل 370 ماضی کا قصہ بن چکا ہے، کشمیر سے متعلق معاملات طے ہو گئے ہیں، اب وہ اِس بارے میں کوئی بات چیت نہیں کرنا چاہتے،یہ تو سرا سر ہٹ دھرمی ہے اور آمرانہ سوچ ہے۔اہل ِ کشمیر کی مرضی کے بغیر اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کے برعکس مسئلہ کشمیربھلا کیسے حل ہو سکتا ہے۔ بہتر یہی ہے کہ اب بھارت پاکستان کا وجود تسلیم کر لے، کشمیر کا معاملہ میز پر بیٹھ کر حل کرے،خطے میں اپنی برتری ثابت کرنے کی خواہش سے باہر نکل آئے۔ سعودی عرب اور ایران تمام تر اختلافات بالائے طاق رکھ کر سفارتی تعلقات بحال کر سکتے ہیں، امریکہ اور ویتنام کے درمیان معاہدہ ہو سکتا ہے، جاپان اور چین کے درمیان تمام تر اختلافات کے باوجود تجارتی اور اقتصادی تعاون ہو سکتا ہے تو پاکستان اور بھارت آپس کے تعلقات بہتر کیوں نہیں بنا سکتے۔بھارت کو پاکستان کی برِکس کی رکنیت پر اعتراض اور اُس سے اختلاف نہیں کرنا چاہئے۔ خطے کا اہم ملک ہونے کی وجہ سے پاکستان کو شاید بہت پہلے اِس تنظیم کا رکن بن جانا چاہیے تھا لیکن ایسا ہو نہیں سکا،اب پاکستان نے درخواست دی ہے تو اُمید یہی ہے کہ وہ اِس کا رکن بھی بن جائے گا،اِس سے اقتصادی مسائل حل کرنے میں مدد ملنے کے امکانات ہیں۔اربابِ اختیار کو اِس طرف خصوصی توجہ دینی چاہیے اور سفارتی محاذ پر جو بھی پیش رفت کی جا سکے،اُسے کر گزرنا چاہئے۔

مزید :

رائے -اداریہ -