یہ جینا بھی کوئی جینا ہے
میں صدر بازارملتان کینٹ اپنے ڈاکٹر کے پاس گیا۔ بیٹی کو چیک کرانا تھا، میں نے گاڑی کھڑی کی تو ساتھ ہی ایک چپل کباب بنانے والے کی دکان تھی، میں نے کوشش کی اس کی طرف جانے والا راستہ نہ رکے اور گاڑی تھوڑا ہٹ کے پارک کی، اس کے باوجود اندر سے دو تین آدمی باہر آئے اور مجھے گاڑی ہٹانے کا کہنے لگے، یاد رہے کہ وہ ایک معروف سڑک تھی اور بہت سی دوسری گاڑیاں بھی پارک کی گئی تھیں۔ میں نے کہا یہ سڑک ہے اور پھر دکان کی طرف جانے کا راستہ بھی کھلا ہے، گاڑی ہٹانے کا کیوں کہہ رہے ہیں، میری اس بات پر وہ یوں آگ بگولہ ہوئے جیسے میں نے ان کی شان میں گستاخی کر دی ہو، دیکھا دیکھی اردگرد کے دکاندار بھی آ گئے اور حیرت انگیز طور پر ان کی حمایت کرنے لگے حالانکہ وہ سراسر زیادتی کررہے تھے۔ جب حالات ذرا خراب ہونے لگے تو میں نے گاڑی وہاں سے ہٹا کر دور جا کے کھڑی کر دی۔ میں وہاں سے دوبارہ ڈاکٹر کے کلینک تک واپس آیا تو میں نے دیکھا ہر دکاندار نے اپنی دکان کی حدود سے باہر تجاوزات کر رکھی ہیں، پھٹے، کاؤنٹر اور کرسیاں تک باہر سڑک پر موجود تھیں۔ میں سوچنے لگا یہ معاشرہ بھی اب اپنی انتہاؤں کی آخری حد کو چھو رہا ہے۔ یہ لوگ اپنی حد سے تجاوز کرتے ہیں تو اسے اپنا حق سمجھتے ہیں لیکن اگر کوئی دوچار منٹ کے لئے سڑک پر ان کی دکان سے دور گاڑی پارک کرے تو انہیں مرچیں لگ جاتی ہیں، جی تو چاہ رہا تھا 15پر کال کرکے پولیس کو بلواؤں، لیکن پھر بیٹی نے روک دیا کہ چھوڑیں ان کے منہ لگنا اچھا نہیں۔ میں جب کلینک سے نکل رہا تھا تو میں نے دیکھا کہ ایک گاری اسی چپل کباب والے کی دکان کے بالکل آگے اور اس کے دروازے تک گئی ہوئی تھی، اتنی کہ گزرنا بھی آسان نہیں تھا۔ میں سوچنے لگا کہ یہ آدمی یقینا اس دکان کے اندر گیا ہے اور دوچار سو روپے کے چپل کباب خرید رہا ہوگا۔ اس دوچار سو کے لئے ان لوگوں نے اپنے سارے اصول بھلا دیئے اور تھوڑی دیر پہلے مجھے جو بھاشن دے رہے تھے وہ بھول گئے۔ شاید اس قسم کی صورت حال بلکہ بدمعاشی کا سامنا آپ کو کبھی نہ کبھی ہوا ہو، ہمارے بازار اب مافیا کے قبضے میں ہیں ان لوگوں کو اتنی عقل نہیں کہ لوگوں کو گاڑیاں پارک کرنے کی جگہ نہیں ملے گی تو وہ اس بازار میں کیا کرنے آئیں گے۔ دنیا بھر میں دکاندار اپنی حدود کے مالک ہوتے ہیں یہاں ہر دکان اپنے سامنے کی سڑک پر بھی اپنا راج نافذ کر دیتا ہے، کنٹونمنٹ بورڈ یا کارپوریشن کا عملہ تہہ بازاری اول تو آتا نہیں اگر آ بھی جائے تو پھٹے اور بنچ اٹھانے کا چھوٹا موٹا آپریشن کرکے اپنی راہ لیتا ہے کیونکہ ان تجاوزات میں بھی ان کی روزی روٹی کا اہتمام موجود ہوتا ہے۔
یہ میں نے ایک بتائی ہے، وگرنہ آپ اپنے اردگرد دیکھیں تو ان گنت مثالیں ایسی نظر آئیں گی، جن میں صاف لگے گا کہ ہم ایک جنگل جیسے معاشرے میں جی رہے ہیں ابھی چند دن پہلے میں نے دیکھا کہ سڑک بند ہے اور ٹریفک رکی ہوئی ہے، گاڑی سائیڈ پر لگا کر پتہ کیا تو معلوم ہوا ایک دکاندار کے ساتھ ڈکیتی ہوئی ہے، ڈاکولوٹ کر فرار ہو گئے ہیں اور اس واردات کے خلاف تاجروں نے سڑک بلاک کر دی ہے اب آپ غور فرمائیں، ڈاکو آئے لوٹ کر چلے گئے، ون فائیو پر کال کی پولیس آگئی، معاملہ یہاں ختم ہونا چاہیے تھا مگر ڈاکوؤں کی بجائے نزلہ ان معصوم شہریوں پر گرا جو اپنے کاموں اور ضروری مصروفیات کے سلسلے میں جا رہے تھے۔ ”کیا سڑک بند کرنے سے ڈاکو گرفتار ہو جانے ہیں“۔ ایک شخص وہاں چیخ رہا تھا مگر اس کی آواز سننے والا کوئی نہیں تھا، اسی دوران ایک ایمبولینس بھی آ گئی، مجھے تو ایمبولینس کا ہارن سنائی دے تو میں کانپ کر اپنی گاڑی سائیڈ پر کرلیتا ہوں، اس کی ایک خاص وجہ ہے کہ میں ایمبولینس رکنے کی وجہ سے اپنی زندگی کا ایک بڑا صدمہ اور اپنے ایک بہت پیارے کو کھونا برداشت کر چکا ہوں۔ اُدھر ایمبولینس کا ہارن بج رہا تھا اور اِدھر میرے دل کی دھڑکن یہ سوچ کر تیز ہو رہی تھی نجانے اس میں موجود مریض کس حال میں ہے۔ اس کے لئے تو ایک ایک لمحہ قیمتی ہے، شاید اس کی یہ قیمتیں سانسیں اسی سڑک پر پوری ہو جائیں، یہ احتجاج، یہ ڈکیتیاں، یہ ڈاکو، یہ پولیس تو زندگی کے ساتھ ہیں جو زندگی و موت کی کشمکش میں ہے اسے تو یوں بے بسی سے نہ مرنے دو، میں نے دیکھا ایک جاننے والا تاجر رہنما موجود ہے، میں اس کے پاس گیا، ایسے مواقع پر لوگ نہیں پہنچانتے لیکن اس نے مجھے پہچان کر سلام کیا۔ میں نے کہا اس ایمبولینس کو تو نکالو، اس نے کہا کوشش کرتا ہوں، وہ میرے سامنے احتجاجی نعرے لگانے والے افراد کے پاس گیا، جب اس نے یہی بات ان سے کہی تو ایک ظالمانہ جملے نے میرا دل چیر دیا۔ ایک پرجوش تاجر نے کہا اچھا ہے اس ایمبولینس میں مریض مر جائے، تب انتظامیہ پر اثر ہوگا، تب پولیس ہماری سیکیورٹی کا سوچے گی، کیا واقعی جنگلوں کا بھی یہی دستور ہوتا ہے کہ زیادتی کوئی کرے اور سزا کسی بے قصور کو دی جائے۔
مجھے تو ابھی تک اس سوال کا بھی جواب نہیں مل سکا کہ ہماری اخلاقیات کا جنازہ پہلے نکلا ہے یا ہمارے قانون کا۔ سماجیات کے بعض ماہر کہتے ہیں کسی معاشرے میں پہلے جنازہ قانون کا نکلتا ہے اس کے بعد اس کی اخلاقیات تباہ ہوتی ہیں جبکہ میرا نظریہ اور ہے۔ اخلایقات کا جنازہ نکل جائے تو قانون بھی بے توقیر ہوجاتا ہے کیونکہ قانون بھی انسانوں کے ذریعے نافذ ہوتا ہے اگر ان میں اخلاقیات ہی ختم ہو چکی ہیں تو وہ قانون کو کیا سمجھیں گے، آج ہر شخص یہ سمجھتا ہے جس کے پاس پیسہ ہے قانون اس کا بال بھی بیکا نہیں کر سکتا۔ بولو جی تم کیا کیا خریدو گے، کے مصداق یہاں ہر چیز برائے فروخت ہے۔ قانون کتنا بے بس ہے، اس کا اندازہ آئے روز ہوتا ہے۔ پروفیسر اعجاز رسول چشتی ایک بہت سینئر ماہر تعلیم ہیں، چند روز پہلے وہ مانچسٹر برطانیہ میں ڈیڑھ ماہ گزار کے پاکستان آئے تو مجھے بھی شرف ملاقات بخشا۔ انہوں نے کہا کسی حساس آدمی کو بیرون ملک نہیں جانا چاہیے، جائے تو پھر لوٹ کے نہ آئے، کیونکہ یہاں آکر اسے یہ خیال کچوکے لگاتا ہے کہ ہم ایک جنگل میں جی رہے ہیں، جہاں ہر شخص اپنی ذات میں مولا جٹ ہے۔ نظم و ضبط کا دور دور تک کوئی شائبہ نظر نہیں آتا۔ تحمل، برداشت، رواداری، قانون پسندی سب کچھ ناپید ہے۔ انہوں نے کہا میں جب سے واپس آیا ہوں، یوں لگتا ہے مجھے ہر طرف سے دھکے مل رہے ہیں۔ ایک ہڑبونگ ہے جس میں ہم جی رہے ہیں، پھر اپنے مخصوص انداز میں کہنے لگے ”یہ جینا بھی کوئی جینا ہے“۔