اکیلا رہ جانے اور اپنے محبوب افراد سے جدا ہو جانے کے خیال سے دل پر بہت اثر ہوا، اس نے کامیابی پر مبنی استدلال کو اپنا مقصد مقرر کیا

Sep 20, 2024 | 11:29 PM

مصنف:ڈاکٹر ڈیوڈ جوزف شیوارڈز
ترجمہ:ریاض محمود انجم
 قسط:216
جان نے اپنی شراب نوشی کی عادت پر قابو پانے کے لیے غیر متزلزل صبر و تحمل سے کیسے کام لیا:
کیمیائی اجزاء اور سامان تیار کرنے والے ایک ادارے میں جان ڈبلیو، ایک منیجر کی حیثیت سے ملازم تھا۔ گذشتہ 10برسوں سے وہ کثرت شراب نوشی میں مبتلا تھا۔ جب اس کی شراب نوشی میں حد سے زیادہ اضافہ ہوگیا، تو اس کے دونوں بچے، جو ابھی بھی اس کی محبت کا دم بھرتے تھے، اس سے نفرت کرنے لگے۔ اور صرف بیوی ہی تھی جو اپنے خاوند کو برداشت کر رہی تھی۔ جان جب گھر پر ہوتا، وہ اکثر شراب کے نشے میں دھت رہتا۔چونکہ کثرت نوشی کے باعث اسے اپنے آپ کو بحال کرنے میں کافی وقت صرف ہو جاتا ہے، لہٰذا وہ اپنے کام کے دوران بھی نیم نشے کے عالم میں ہوتا۔
جان کے افسروں نے کئی مرتبہ اسے صاف صاف بتا دیا تھا کہ شراب نوشی اس کی کارکردگی متاثر کر رہی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ وہ اپنے بدن کے ہر خلیے کو تباہ کر رہا ہے، اس کا ذہن بھی شراب نوشی سے محفوظ نہیں رہا اور اسی مسئلے کے باعث اسے اپنی ملازمت میں ترقی بھی نہیں دی گئی۔ اس کے افسروں نے اسے بحالی صحت کے مرکز میں بھیجنے کی پیشکش کی اور ساتھ ہی مکمل تنخواہ بھی دینے کا وعدہ کیا لیکن جان کے ان کی یہ پیشکش قبول نہیں کی۔
جب اس قسم کے شراب نوشوں کو شراب نوشی سے منع کیا جائے تو وہ کہتے ہیں:”صرف تمہیں ہی معلوم ہوتا ہے کہ میں کثرت سے شراب نوشی کرتا ہوں، لیکن ایسا تو نہیں ہے۔“
اور پھر بالآخر ایک دن شام کو جان کی بیوی اور اس کے 2 بچوں نے بتا دیا کہ وہ ابھی بھی اس سے محبت کرتے ہیں لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ اگر اس نے شراب نوشی ترک نہ کی تو وہ اسے چھوڑ کر چلے جائیں گے۔
اکیلا رہ جانے اور اپنے محبوب افراد سے جدا ہو جانے کے خیال سے جان کے دل پر بہت اثر ہوا۔ اس نے اسی وقت فیصلہ کر لیا کہ آئندہ وہ ایک چھوٹا چمچ بھی شراب نہیں پییئے گا۔ اس نے کامیابی پر مبنی استدلال کو اپنا مقصد مقرر کیا۔ میرا مقصد بہت اہم اور عظیم ہے۔ شراب نوشی ترک کر دینے سے میرا نظریہ اور میں صحت مندرہیں گے۔ مجھے اپنی قوت ارادی استعمال کرنا چاہیے اور اس کے لیے میں اس غیر متزلزل اور مستحکم کوشش سے کام لوں گا۔
بعد میں جان نے مجھے بتایا کہ اس نے اپنے فیصلے کے ذریعے شراب نوشی ترک کر دی۔
”شراب نوشی کے بغیر پہلے دو ہفتوں میں ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے میں جہنم میں رہ رہا ہوں۔ اول تو مجھے نیند ہی کم آتی اور جب میں سو جاتا تو ڈراؤنے خواب میرا گھیرا ؤ کر لیتے۔ لیکن حیران کن امر یہ ہے کہ روز بروز میری حالت بہتر ہوتی گئی۔ میں روز بروز کامیابی حاصل کرتا جا رہا تھا۔ جنگ بہت سخت تھی لیکن پھر بھی مجھے فتح نصیب ہو رہی تھی۔ اور اب 3 سال گزر چکے ہیں جب میں نے شراب نوشی ترک کرنے کا سخت اور پرعزم وعدہ و ارادہ کیا تھا۔ اور اب ایمانداری کی بات یہ ہے کہ مجھے اب شراب نوشی کی قطعاً کوئی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔دفتر میں جہاں میں کام کرتا ہوں، بے شمار لوگ شراب نوشی کرتے ہیں۔ میں اب بھی بہت زیادہ دفتر ی و سماجی تقریبات میں شامل ہوتا ہوں جہاں روایتی طور پر کسی نہ کسی قسم کی شراب موجود ہوتی ہے اور تقریب کے قواعد کے اعتبار سے شراب نوشی لازمی ہوتی ہے لیکن میں اپنے میزبانوں اور دوستوں سے معذرت کرکے جوس میں برف ڈال کر پی لیتا ہوں۔
اپنے مقصد کے حصول کے لیے غیر متزلزل، مستحکم اور مکمل صبر و تحمل اور ثابت قدمی کے علاوہ کوئی دیگر عنصر مفید نہیں ہے۔(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوط ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزیدخبریں