”مَیں ڈرتا ورتا کسی سے نہیں ہوں“

”مَیں ڈرتا ورتا کسی سے نہیں ہوں“

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

 

یہ ہیں ماضی کے ایک مطلق العنان حکمران کے وہ مشہور عام کلمات، جن پر قائم نہ رہنے کی بنا پر جنرل (ر) پرویز مشرف آج بے رحم وقت کے ہاتھوں ایک مذاق بن کر رہ گیا ہے۔ رہی سہی کسر آج اس ”نڈر اور بے خوف“ سابق جرنیل کے اسلام آباد ہائی کورٹ عدالت سے مبینہ طور پر فرار ہونے کی خبر نے پوری کر دی.... ”شرم تم کو، مگر نہیں آتی“۔
راوی کے خیال میں سابق صدر کے لئے تیزی سے بدلتے ہوئے وقت، بلکہ بُرے وقت کا تقاضا یہ ہے کہ اس تکیہ کلام میں فوری ترمیم کی جائے۔ ہمارا مشورہ ہے کہ جنرل (ر) پرویز مشرف کا نیا تکیہ کلام اب یوں ہونا چاہئے.... ”مَیں ڈرتا ورتا کسی سے نہیں ہوں.... بس بُرے وقت سے اور عدلیہ سے ڈرتا ہوں“۔ بعد ازاں موصوف کے مزید تر خوف کا باعث بننے والے تمام تر محرکات کو آنے والے مزید بُرے وقت کی نزاکت کے مطابق اُن کے تکیہ ہائے کلام کا جزو بنایا جا سکتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ:
یہ وقت کس کی رعونت پہ خاک ڈال گیا؟
یہ کون بول رہا تھا خدا کے لہجے میں!!
جنرل(ر) پرویز مشرف جب اپنے ذاتی محافظوں کے جلو میں کمرہ¿ عدالت سے فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے تو احاطہ ¿ عدالت میں موجود پولیس کی بے بسی دیدنی تھی۔ تمام پولیس اہلکار دھیمے سروں میں یہی گنگنانے پر اکتفا کر رہے تھے کہ:
”جانے والے تیرے قدموں کے نشاں باقی ہیں“
وقوعہ پر موجود تمام پولیس اہلکار جنرل(ر) پرویز مشرف کو حسرت بھری نظروں سے تکتے رہ گئے۔ بقول شاعر.... ”جانے والے کو کہاں روک سکا ہے کوئی۔ تم چلے ہو تو کوئی روکنے والا بھی نہیں“.... اور ایک دوسرے کو بار بار یہی تسلی دیتے رہے کہ ”جانے والے تیرے قدموں کے نشاں باقی ہیں“.... کوئی بات نہیں ہم بعد میں ”کھرا“ نپ لیں گے۔
کہتے ہیں کہ گیدڑ کی جب موت آئی ہے توہ شہر کا رُخ کرتا ہے اور ڈکٹیٹر عدالتوں کا.... اب دیکھنا یہ ہے کہ فتح کس کی ہوتی ہے؟ ایک بے رحم سابق جرنیل کی یا بے رحم وقت کی؟ کبھی وہ وقت تھا کہ اس ملک کی تقدیر پرویز مشرف کے ہاتھوں میں تھی، آج محترم سابق صدر کی تقدیر بے رحم وقت کے ہاتھوں میں ہے۔ ” کل“ کے اس ”شاہ“ اور ”آج“ کے ”پیادے“ کی اس حالت زار پر کوئی اس کے سوا اور کیا کہہ سکتا ہے کہ:
اس سے کہنا ہے جو بڑا ”شاہ“ بنا پھرتا ہے
مات بھی دیتا ہے یہ وقت پیادہ کر کے
سنا ہے کہ جب سے یہ محترم سید جنرل(ر) پرویز مشرف صاحب عدالت سے فرار ہونے کے بعد اپنے ہی گھر میں نظر بند کر دیئے گئے ہیں، وہ اپنی رہائش گاہ کے دالان میں کافی اور سگار سے لطف اندوز ہوتے ہوئے بس یہی گنگنا رہے ہیں کہ:
پھرتے ہیں میر خوار، کوئی پوچھتا نہیں
اِس ”عاشقی“ میں عزت سادات بھی گئی
یہ بھی سنا گیا ہے کہ جب سے سابق صدر کے چک شہزاد میں واقع فارم ہاﺅس کو ”سب“ جیل قرار دیا گیا ہے، موصوف پہلے جیسی”فارم“ میں نہیں رہے اور اب اُن کو سب جگہ جیل ہی جیل نظر آ رہی ہے۔ ان کی اطلاع کے لئے عرض ہے کہ یہ انگریزی زبان کا سب ہے، اُردو کا نہیں۔ بعد ازاں پتہ چلا ہے کہ موصوف کو پولیس سول لائن ہیڈ کوارٹر، اسلام آباد منتقل کر دیا گیا ہے.... ”پائے گدا لنگ نیست، جیل ہذا تنگ نیست“۔
اُدھر آل پاکستان مسلم لیگ کے رہنما جناب ڈاکٹر امجد صاحب کے بقول جنرل(ر) پرویز مشرف کو گرفتار نہیں کیا گیا، بلکہ انہوں نے یہ گرفتاری خود دی ہے، یعنی ”خود آپ اپنے دام میں صیاد آ گیا“۔ اگر ڈاکٹر امجد کی اس بات کو درست مان لیا جائے ، تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جنرل (ر) پرویز مشرف صاحب نے یہ ”کارِ خیر“ بروقت، یعنی جب وہ عدالت میں موجود تھے، کیوں انجام نہیں دیا۔ بقول منیر نیازی.... ”ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں“۔
محترم جنرل (ر) پرویز مشرف نے ایک ویڈیو پیغام کے ذریعے اس بات پر بڑے دُکھ کا اظہار کیا ہے کہ انہوں نے پاکستان کی جتنی خدمت کی ہے اور ملک کو بین الاقوامی سطح پر جس اعلیٰ مقام پر پہنچایا ہے، ان کی سمجھ میں نہیں آ رہا کہ اس تمام اعلیٰ کارکردگی کے باوجود انہیں سیاست میں حصہ لینے سے کیوں روکا جا رہا ہے.... حالانکہ جنرل (ر) پرویز مشرف کا ہمیشہ یہی اصرار رہا ہے کہ وہ حکومت میں خود نہیں آئے تھے، بلکہ انہیں زبردستی حکومت میں لایا گیا تھا۔ آپ ہی بتائیں کہ اس زبردستی کی خدمت کا انہیں اب اور کیا صلہ دیا جائے۔ ”آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا!!!“
سننے میں آیا ہے کہ عدالت نے پرویز مشرف کے کمرہ¿ عدالت سے بآسانی فرار ہونے پر پولیس کے چُپ چاپ تماشہ دیکھتے رہنے کی پاداش میں آئی جی اسلام آباد سمیت تمام دیگر ذمہ دار پولیس افسران کے خلاف تادیبی کارروائی کا حکم دے دیا ہے۔ گویا پرویز مشرف .... بے اختیار ہو کر بھی اتنے بے اختیار نہیں ہوئے، یعنی وہ جاتے جاتے اپنے ساتھ پولیس والوں کو بھی ” شامل تفتیش“ کروا گئے ہیں....” ہم تو ڈوبے ہیں صنم، تم کو بھی لے ڈوبیں گے“۔
خدا کی قدرت کے کرشمے دیکھئے اور مکافات ِ عمل کی حالیہ مثال کے قربان جانئے کہ جنرل (ر) پرویز مشرف کل تک جن عدالتوں کو اپنے ”بوٹ“ کی نوک پر رکھتے تھے، بدلتے وقت کی انگڑائی نے آج موصوف کو انہی عدالتوں کے رحم و کرم پرڈال دیا ہے۔ وہ کہتے ہیں نا کہ کبھی کے دن لمبے کبھی کی راتیں۔ آنے والا وقت اپنے دامن میں جنرل (ر) پرویز مشرف کے لئے کیا ”امکانات“ رکھتا ہے، اس کا فیصلہ تو آنے والا وقت ہی کر سکتا ہے، مگر یہ بات اب عین عیاں ہے کہ یا تو جنرل (ر) پرویز مشرف جیل جانے کے بعد ایک حقیقی لیڈر کے طور پر اُبھریں گے یا پھر ماضی کے دیگر ڈکٹیٹروں کی طرح ہمیشہ ہمیشہ کے لئے قصہ ¿ پارینہ بن جائیں گے.... ہمارا تو موصوف کو یہی مشورہ ہے کہ ”چڑھ جا ”بیٹا“ سُولی، رام بھلی کرے گا“۔   ٭

مزید :

کالم -