”گرداب“

جاپانی پہلوان انوکی اور جھاراپہلوان کی کشُتی پاکستان ٹیلی وژن براہ راست دِکھا رہا تھا۔سندھ کے ایک گاﺅں کے سارے لوگ ایک ڈیرہ میں بیٹھ کریہ کشُتی دیکھ رہے تھے۔سندھی نوجوان بہت جذباتی ہو کر جھارا پہلوان کی فتح کے نعرے لگا رہے تھے۔لیکن ایک بوڑھا سندھی دُور بیٹھا دُعائیں مانگ رہا تھاکہ یا اللہ انوکی جیت جائے۔بوڑھے سندھی کی یہ دُعا نوجوان سندھیوں کونشتر کیطرح چبھ رہی تھی۔خیر کُشتی تو برابر پہ چُھٹ گئی اور کوئی پہلوان جیت نہ سکا۔لیکن تمام نوجوان سندھی بوڑھے پر چڑھ دوڑے کہ یہ بڈھا سٹھیا گیا ہے۔اُلٹی دُعائیں مانگ رہا تھا۔بوڑھاسندھی،نوجوان سندھیوں کو اپنا دفاع پیش کرتے ہوئے کہنے لگا۔ بیوقوفو! میں نے بال دُھوپ میں سفید نہیں کیئے۔میں انوکی کی جیت کےلئے اِسلیئے دُعائیں مانگ رہا تھاکیونکہ مجھے خوف لاحق ہو رہا تھاکہ اگر جھارا پہلوان جیت گیاتو ہمارے گاﺅں کے ساتھ والی سرکاری زمین حکومت اُسے الاٹ کر دےگی۔ہم کُشتی دیکھتے دیکھتے اِس زمین سے محروم ہوجائیں گے۔
جب بھی کوئی حکمران مسندِاقتدار پر بیٹھ کر اپنے مخالف حکمران کے خلاف کیسوں کی بھرمارشروع کرتا ہے۔مجھے بھی بوڑھے سندھی کی طرح خوف لگ جاتا ہے کہ اب غریب عوام کے پیسوں کی لوٹ مار شروع ہو گئی۔ کروڑوںروپے کیسوں کی تیاری میں اور وکیلوں کی فیسوں میںاُڑتے رہیں گے اور نتیجہ صفر ہو گا۔سردار کے کمبل کی طرح اِس میلہ میں عوام کا پیسہ گُم ہو جائے گا۔اِس ملک میں قائدِاعظم کے بعدذوالفقار علی بھٹو جیسا ہر دلعزیز سیاستدان شاہد ہی پیدا ہو،لیکن ہم نے دیکھا کہ اُسے پکڑ کر جیل میں بند کر دیا گیا۔پتہ چلا وہ ایک آمر تھا۔اُس نے بہت مظالم ڈھائے۔اُس نے لوگوں پر تشدد کےلئے عقوبت خانے بنا رکھے تھے۔ کیسوں کی تیاری شروع ہو گئی۔اور وکیلوں کی موجیں شروع ہو گئیں۔وقت کے حکمران نے اعلان کیاکہ فیصلے عدالتوں میں ہونگے اورعدالتیں قانون اور انصاف کے مطابق فیصلے کریں گی۔پھر فیصلے ہوئے۔بھٹو کو پھانسی دیکر قبر میں لاوارثوں کیطرح دفن کر دیا گیا۔کئی دہائیوں کے بعدپتہ چلا کہ وہ عدالتی قتل تھا۔وہ نہ صرف اسلامک دُنیا بلکہ ایشیا کا بہت بڑا لیڈر تھا۔اور پوری قوم اُسے بہت بڑے لیڈر کے طور پر یاد کرتی ہے۔
ضیاءالحق اِس دُنیا سے چلے گئے۔ بے نظیربھٹو کی حکومت آگئی۔ پھر وہ حکومت ختم ہو گئی۔پتہ چلا کہ اُنہوں نے ملک کے خزانے لوٹ لئے۔ملک کو کنگال کر کے دولت سویٹزرلینڈ کے بینکوں میں جمع کرا دی۔پھر کیس بنے۔وکیل دِن رات محنت میں جُت گئے۔اُن کے خاوند کو جیل میں ڈال دیا گیا۔وہ جلاوطنی کی زندگی گزارنے لگی۔لیکن کیسوں کو بہت زورشور سے چلایا گیا۔پوری دُنیا سے ثبوت اکٹھے ہوتے رہے۔عوام کے پیسے رات دن اُڑتے رہے۔پھر اچانک اُن لوگوں کے ساتھ این آر او(NRO)ہوگیا۔تمام کیس ختم اور عوام کا پیسہ ہضم۔
میاں نواز شریف نے فوج کے چیف آف سٹاف کو تبدیل کیا۔ اُنہیںگرفتار کر کے جیل میں ڈال دیا گیا۔ پھر کیسوں کی تیاریاں ،وکیلوں کی مہنگی فیسیں اور پھر عدلیہ نے انصاف کا ع©َلم بلند کر دیا۔ قانون کے مطابق فیصلے ہوئے اور اُنہیں عمر قید کی سزا ہوگئی۔وہ تو عدلیہ کے انصاف سے ایسے ڈرے کہ اُنہوں نے اپیل بھی نہ کی اور اپنا ملک چھوڑ کرسعودی عرب جا بسے۔اِس جُرم کی سزا میں اُن کے سارے خاندان کو بھی ملک بدر کر دیا گیا،حتیٰ کہ اُنہیں اپنے والد کی تدفین کے لئے بھی نہ آنے دیا گیا۔
پھروہی گول دائرے کی دوڑ۔مشرف صاحب ایک لمبا عرصہ حکمرانی کر کے چلے گئے۔اُنھیں گارڈ آف آنر کے ساتھ رخصت کیا گیا۔ لیکن وقت تبدیل ہو گیا۔میاں نواز شریف کی حکومت آگئی۔مشرف صاحب اپنے فارم ہاﺅس میں بند ہو گئے۔پھر کیسوں کی بھرمار۔پھر وہی کیسوں کی تیاریاں، وکیلوں کی فیسیں اور عدالتوں کا انصاف کے رستے پر مستقل مزاجی سے چلنا۔
مشرف کی عُمرستر(70)سال سے زیادہ ہے۔وہ کیسوں کا سامنا کرنے کے لئے آیا تھا۔ تمام ذی فہم لوگوں نے اُسے یہ کام کرنے سے منع کیا تھا۔اُس نے تو حکومت میں رہ کر انصاف کا سامنا کیا تھا۔اُسے نہیں معلوم تھا کہ حکومت سے باہر رہ کر انصاف کا مزہ چکھنا کچھ اور ہوتا ہے۔اُس پر جتنے کیس بن گئے ہیں۔اُن سے نمٹنے کے لئے تو ستر(70) سال کی ایک اور زندگی چاہیے۔ہماری عدالتیں انشاءاللہ حسبِ روایت انصاف ہی کا بول بالا کریں گی۔بینڈباجا بجانے والے اِس مُلک میںبہ افراط موجودہیںاور سچ یہ ہے کہ اُن کی تعداد روزافزوں اضافہ ہے۔یہ لوگ ہمہ وقت قانون اور آئین کی سر بلندی کے لئے حکومت ِوقت کے ساتھ مستقل مزاجی سے کھڑے رہتے ہیں تاآنکہ حکو مت تبدیل نہ ہو جائے۔
خداکے لئے اِس گرداب سے نکلنے کی راہ اختیار کریں۔مشرف جس نے ایک لمبا عرصہ بلِا شرکت غیرے اِس ملک میں حکمرانی کی۔اور اب و ہ جن حالات کا سامنا کر رہا ہے۔جو اُس کی دُرگت بنی اور بن رہی ہے۔ غداری کی فردجرم عائد ہو چکی ہے۔وہ اب ملک سے باہربھی چلا جائے اورعدالت کے مفرور کے طور پر باہر بیٹھے۔تو کیا یہ اُس کی زندگی ہو گی۔ اُسے یہ سزا کاٹنے دیں۔یہ جیل سے بڑی سزا ہو گی۔کیا ہم اُس کی بوڑھی ماں کے مرنے کا انتظار کر رہے ہیں۔ پھر پوری قوم اُسی کو مظلوم گردانے گی اور کہے گی کہ اُس کے ساتھ ظلم ہوااور بے انصافی ہوئی۔ ہمیں مثبت رویے اختیار کرنے چاہیں۔ کیا آئین کی سر بلندی اِسی میں رہ گئی ہے کہ یہ گول دائرے کی دوڑ جاری رہے۔
ایک اور بڑی عجیب سی منطق ہے کہ جب تک کسی قانون شکن جرنیل کو سزا نہیں ہو گی۔مارشل لاﺅں کا رستہ نہیں رُکے گا۔بھئی خدا کا نام لیں۔مارشل لاءکیا کسی آئین یا قانون قاعدے کے تحت آتے ہیں ۔اب عوام کو معاف کر دیں۔وہ بھوکوں مر رہے ہیں۔وکیلوں کی بھا ری فیسوںاور مہنگے مہنگے کیسوں کی تیاریوں کے متحمل نہیں ہو سکتے۔اب اِس گرداب سے نکلنے کا نعرہ لگائیںاور یہ نعرہ موجودہ حکومت کو ہی لگانا پڑے گا، کیونکہ عوام نے تیسری مرتبہ اپنے مقدر سنوارنےکے لئے انہیں واضح اکثریت کے ساتھ حکومت دی۔خدارا غریب عوام کو معاف کر دیں۔