مضبوط جمہوریت اور قومی دفاع
وزیراعظم نواز شریف نے کہا ہے کہ ملک کے قابل اعتماد اور موثر دفاع کا انحصار مضبوط جمہوریت ، جمہوری اداروں اور قانون کی حکمرانی پر ہے۔ دہشت گردی کا خاتمہ کئے بغیر ملک کا دفاع مضبوط نہیں بنایا جا سکتا۔ مضبوط ملکی دفاع کے لئے مضبو ط معیشت بھی ضروری ہے۔ قومی مقاصد کے حصول کے لئے ہمیں مل کر کام کرنا ہو گا۔ ملکی دفاع کے لئے پوری قوم مسلح افواج کی پشت پر متحد کھڑی ہو گی۔ حکومت ملک کے ناقابل تسخیر دفاع کے لئے فوج کو تمام ممکنہ وسائل مہیا کرے گی۔ وہ پاکستان ملٹری اکیڈمی کاکول میں کیڈٹس کی پاسنگ آﺅٹ پریڈ سے خطاب کر رہے تھے۔انہوں نے نئے کمشنڈ افسروں سے کہا کہ آپ کی قوم آپ کی معترف ہے، آپ پر بھرپور اعتماد رکھتی ہے۔آپ کو ان کی توقعات پر ہر صورت پورا اترنا ہو گا۔
وزیراعظم نے فوجی افسروں کی تربیت کے ادارے میںنئے کمشنڈ افسروں سے خطاب کے دوران ”قابل اعتماد اور موثر دفاع“ کے لئے درکار فوجی افسروں کی فنی اور پیشہ وارانہ تربیت اور اخلاقی معیاروں کے علاوہ مضبوط جمہوریت، جمہوری اداروں اور قانون کی حکمرانی پر خصوصی زور دیا ہے۔ مضبو ط جمہوریت سے مراد ایک مستقل اور مضبوط نظام کا تسلسل ہے۔ جمہوری اداروں کی مضبوطی سے مراد ایسی جمہوریت ہے جو حقیقی معنوں میں غیر جانبدارانہ، آزادانہ ، شفاف اور منصفانہ انتخابات کے ذریعے سے عوام کو اپنے حقیقی نمائندے منتخب کرنے کے مواقع فراہم کریں۔ جن میں سیاسی جماعتوں کی جڑیں عوام کے اندر ہوں۔ ان کی جماعتوں نے عوام کی نچلی سطح تک رسائی حاصل کر کے پورے ملک میں عوام کی حقیقی تائید و حمایت حاصل کی ہو۔ منتخب حکومتوں کو اپنے اختیارات اور حکومتی وسائل کے ناجائز استعمال کے ذریعے سے اپنا اقتدار قائم رکھنے کی ضرورت محسوس نہ ہو، حکومتیں مختلف اداروں کو اپنی سیاسی اغراض کے لئے استعمال کرنے پر انحصار کرنے کے بجائے ملک بھر میں پھیلے ہوئے اپنے سیاسی شعور سے بہرہ مند اور عوامی خدمت میں مصروف اپنے ارکان کے تحرک اور وابستگی کو اپنی طاقت تصور کریں۔یہ تصورات وزیراعظم کے ذہن میں ہوں گے ،لیکن ابھی تک ہمارے ہاں کماحقہ ُایسا نہیں ہوسکا، اس ضمن میں ہمیں بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے تاہم امید ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جمہوریت بھی مضبوط ہوگی اور جمہوری روئے بھی ترقی کریں گے۔
جہاں تک قانون کی حکمرانی کا تعلق ہے، ملک بھر کے کروڑوں عوام کی یہی خواہش ہے کہ ملک میں امن اور قانون کی حکمرانی ہو تاکہ انہیں بھی انصاف مل سکے اور وہ بھی عزت کی روٹی کما کر اپنی عزت نفس محفوظ رکھ سکیں،لیکن عدالتیں اور قانون نافذ کرنے کے ذمہ دار ادارے عوام کو ظلم سے نجات دلانے اور انصاف مہیا کرنے میں ناکام ہیں۔ اس کے مقابلے میں سٹیٹس کو قائم رکھنے کے خواہشمند حکمران محض زبانی کلامی طور پر آئین اور قانون کی حکمرانی کا راگ الاپنے میں مصروف رہتے ہیں۔ دہشت گردی کے خاتمے کے بغیر ملکی دفاع کو مضبوط نہ بناسکے والی بات اپنی جگہ اہم ہے، اس کے لئے حکومت نے اب تک مخلصانہ کوششیں کی ہیں۔ مسلح افواج کی مشاورت ہی سے اس سلسلے میں آگے بڑھنا اور امن مذاکرات کو تیزی سے آگے بڑھانا چاہئے۔ ملکی امن و انصاف کی صورت حال سے معیشت کی ترقی کا گہرا تعلق ہے۔ مضبوط معیشت کے بغیر کوئی ملک مضبوط دفاع کا تصور نہیں کر سکتا۔ کسی بھی ملک کے عوام کا جذبہ حریت اور حب الوطنی ہی انہیں اپنی مسلح افواج کے پیچھے کھڑا کرتا ہے۔ پاکستانی قوم کی بھاری اکثریت اپنے مصائب و آلام کے باوجود قومی دفاع کے لئے ہر ممکن قربانیاں دینے کے لئے تیار ہے، لیکن جس ملک میں انصاف کے دروازے ایک عام آدمی پر بند کر دیئے جائیں، ہر کہیں مایوسی ڈیرے لگا لے وہاں عوام کی ایک قوم کی حیثیت سے زندہ رہنے کی آرزو بھی دھندلا جاتی ہے۔ نئے نئے فتنے اور تعصبات اور نفرتیں سر اُٹھانے لگتی ہیں۔ ایسے معاملات سے بہت اعلیٰ فکر و تدبر کی حامل سیاسی قیادت ہی نمٹ سکتی ہے۔ عوامی اعتماد اخلاص کے ساتھ قوم وملک کی خدمت اور عوام کو حقیقی انصاف فراہم کرنے ہی سے حاصل ہوتا ہے۔ عسکری قیادت سیاسی قیادت کے تحت ہی کام کرتی ہے۔ اگر سیاسی قیادت اپنی دفاعی مشینری سے بلند تر توقعات رکھتی ہے تو مسلح افواج کی طرف سے بھی اپنی سیاسی قیادت سے انتہائی اخلاص ، تدبر اور قابلیت کی امید کی جاتی ہے۔