مجرم ختم تو جرم بھی ختم
بعض وکلاء کے خیال میں ان سوالوں کا اعلیٰ عدلیہ سے ہی جواب ملنا چاہئے کہ کیا آئین کے بنیادی ڈھانچے میں کسی متوازی نظامِ انصاف کی گنجائش ہے؟پاکستانی عدلیہ اتفاق کرے نہ کرے، لیکن پارلیمنٹ ، حکومت ، پولیس ، نیم فوجی دستے ، فوج اور انٹیلی جینس ایجنسیاں اس نکتے پر متحد و متفق ہیں کہ ہم تو ٹھیک ہیں مگر سویلین عدالتی ڈھانچہ ناقابلِ اصلاح حد تک فرسودہ ہوچکا ہے، لہٰذا محض سویلین عدالتوں سے سزائے موت یافتہ آٹھ ہزار قیدیوں کو لٹکانے سے کام نہیں چلے گا۔اس لیے فرسودہ روایتی آئینی عدالتی نظام کی مدد کے لئے ’نہ رہے بانس نہ بجے بانسری‘ کے اصول پر ماورائے آئین اقدامات ضروری ہیں یعنی مجرم ختم کردو تو جرم بھی ختم ہوجائے گا۔چنانچہ ملزموں کو عدالتی تکلفات میں پھنسانے کے بجائے پولیس مقابلوں ، جبری گمشدگی اور ٹارگٹڈ کلنگ کے ذریعے گھٹ کرنے کی روایت مستحکم ہونے کے بعد عوام کی منتخب آئینی پارلیمنٹ نے بذریعہ اکیسویں ترمیم فوجی عدالتیں بھی متعارف کروا دیں۔
جب ان سلیمانی فوجی عدالتوں نے انصاف کی پہلی قسط چھ نامعلوم ملزموں کو سزائے موت کی شکل میں تھما دی تو بہت سے وکلا نے سپریم کورٹ کے سامنے ایسے سوالات اٹھا دیئے، جن کا مقصد اس انصاف کو بریک لگانا ہے جو تیز رفتاری میں خود سے بھی آگے نکل گیا۔اس قدر تیز کہ عدالتی تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا کہ فیصلہ جج کی زبان سے آنے کے بجائے فوج کے محکمہ تعلقاتِ عامہ کے سربراہ کے ٹوئٹر کے منہ سے جاری ہوا۔چنانچہ بعضے بعضے ٹیڑھے وکلا کے خیال میں ان سوالوں کا اعلی عدلیہ سے ہی جواب ملنا چاہیے کہ کیا آئین کے بنیادی ڈھانچے میں کسی متوازی نظامِ انصاف کی گنجائش ہے؟ کیا کوئی بھی پارلیمنٹ بنیادی آزادیوں کے ضامن آئینی ڈھانچے میں تبدیلی کر سکتی ہے ؟ فوجی عدالتیں ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ کی نگرانی سے آزاد کیوں ہیں؟ جب ٹھوس ثبوت موجود ہیں تو پھر فوجی عدالتیں خفیہ سماعت کیوں کر رہی ہیں؟ ان عدالتوں کے ججوں کا اپنا قانونی تجربہ کیا ہے ؟
اور جن ٹھوس ثبوتوں پر کوئی فوجی عدالت سزائے موت سنا سکتی ہے انھی ثبوتوں کی بنیاد پر کوئی عام یا خصوصی سویلین عدالت کیوں سزائے موت نہیں دے سکتی؟ فوجی عدالتوں کا سماعتی طریقہ منصفانہ مقدمے کے بنیادی آئینی حق کی ضمانت دینے والے آرٹیکلز دس تا چودہ کی روح سے متصادم تو نہیں؟ جسے انتہائی سزا سنائی گئی کیا اسے فردِ جرم کی نقل بھی فراہم کی گئی یا اپنی پسند کا وکیل کرنے کی اجازت ملی؟ اور یہ کہ جس فوجی عدالت نے سزا سنائی وہی عدالت ملزم کی جانب سے نظرثانی کی اپیل غیر جانبداری سے کیسے سنے گی؟
اگرچہ سپریم کورٹ نے ان سوالوں کا فیصلہ ہونے تک فوجی عدالتوں کی سزاؤں پر عمل روک دیا ہے تاہم فوجی عدالتوں کے حمایتیوں کی اس دلیل کا کیا کریں کہ یہ کڑوی گولی غیر معمولی حالات میں عارضی طور پر نگلنا پڑ رہی ہے۔گویا حمایتیوں کو بھی پورا یقین نہیں کہ فوجی عدالتوں کے فیصلے منصفانہ ہوں گے حالانکہ آفاقی نظامِ انصاف کھڑا ہی اس بنیاد پر ہے کہ کسی ملزم کو مجرم قرار دینے میں ایک فیصد بھی شبہ ہو جائے تو سزا نہیں دی جا سکتی۔ویسے پاکستان میں ایسی کون سی کڑوی گولیاں ہیں جو عارضی کہہ کر نہیں بیچی گئیں۔ نظریہ ضرورت کی گولی 1954ء میں یہی بتا کے نگلوائی گئی تھی، مگر ایک چیف جسٹس کے چیمبر سے نکلی اس گولی کو قانون کی کھوپڑی سے نکالنے میں دوسرے چیف جسٹس کو 53 سال لگے۔
1965ء کی جنگ میں نافذ ہونے والی عارضی ایوب خانی ایمرجنسی وہ مرض ہو گئی جس سے پنڈ چھڑانے میں 20 سال لگے۔ ہر مارشل لا خود کو عارضی بتا کے ہی آتا ہے، مگر یہ عارضہ پاکستان کے 68 سال میں سے 33 سال تو سامنے سامنے ہی نگل گیا۔چند سال پہلے تک ایسے عارضی نما مستقل کاموں کے لیے سیاسی طبقے کو پھوٹ ڈال کے توڑنا پڑتا تھا، مگر نئی ٹیکنالوجی نے سارا عمل بہت آسان کر دیا ہے۔اب پارلیمنٹ پر کالے جادو کا سپرے کیا جاتا ہے، جس کے بعد وہ طوطا بن جاتی ہے اور اپنی خود مختاری ، وقار اور قانون سازی کی صلاحیت ایک چھری کے ساتھ پلیٹ میں رکھ کے ’جو حکم ہو میرے آقا‘ کہتے ہوئے گردن جھکا دیتی ہے۔
ایسی میسمرائزڈ پارلیمنٹ کو کون عامل قتل کرنا چاہے گا؟مگر نئے سائبر کرمنل لا کی رسی سے باندھ کر سرسری انصاف کی میڈ ان پارلیمنٹ چھری سے تجھے مجھے تو ڈرایا جا سکتا ہے، لیکن انہیں کون ڈرائے گا جو سزائے موت کو بھی جنت میں فاسٹ ٹریک داخلے کا پاس سمجھتے ہیں۔وہی نہ ڈریں جنہیں ڈرانا مقصود ہے تو پھر اس ماورائے آئین بکھیڑے کا فائدہ؟اور جاتے جاتے ایک فضول سا سوال۔متنازع کشمیر میں برسوں سے جاری شورش کے خاتمے کے لئے کسی بھی بھارتی حکومت کو تیر بہدف فوجی عدالتوں کی اب تک کیوں نہیں سوجھی؟