یہ کہانی پانامہ کی نہیں
آئیں آج آپ کو ایک کہانی سناتے ہیں۔۔۔
ایک دفعہ کا ذکر ہے، کسی گاوؑں میں ایک بہت بڑی ڈکیتی کی واردات ہوئی۔ واردات کرنے والوں نے کام بہت ہوشیاری اور صفائی سے کیا۔ سارے ثبوت مٹانے کی کوشش کی، اور کسی کو کانوں کان خبر نا ہونے دی۔ خدا کا کرنا یہ ہوا کہ کسی اندر کے بھیدی نے لنکا ڈھا دی۔ گاوؑں والوں کو خبر ملی کہ یہ واردات کے بعد گاوؑں کے سب سے بڑے چودھری اور نمبردار اور ان کی اولادوں نے شہر میں خوب بڑی بڑی جائدادیں بنا رکھی ہیں۔ اس پر گاوؑں والوں کا ماتھا ٹھنکا۔ کچھ لے دے اگر مگر ہوئی، لیکن نمبردار صاحب نے صاف انکار کر دیا۔ کہا یہ جائداد میرے بیٹے نے بھینسیں بیچ کر بنائی ہے۔ بیٹے نے کہا بھینسیں انہوں نے باڑہ گروہ رکھ کر خریدی تھیں۔ باڑہ کی مالک بہن تھی۔ بہن کو باڑہ جہیز میں ملا۔ جو دوسرے بھائی نے زمین پر قرض کر لیا۔ زمین انہوں نے گفٹ میں لی۔ گفٹ سڑکوں کے ٹھیکیدار نے دیا۔ ٹھیکیدار کو دادا جی نے قرض دیا اور داد جی فوت ہو گئے۔ شوہر بیوی کا مقروض ہے۔ بیوی بیٹے کی۔ بیٹا باپ سے الگ ہے، لیکن بیٹے کی مالی مدد بہن کر رہی۔ بہن کے زیر کفالت ہے۔ غرض یہ کہ باقی لوگ لگے آئیں بائیں شائیں مارنے۔ معاملہ مزید مشکوک ہو گیا۔ بات بڑھ گئی اور سوالات احتجاج میں بدل گئے۔ متاثرین نے کہا وارداتیوں کا کھرا نمبردار کے گھر تک جاتا ہے۔ ان کا خیال تھا کہ اس وقوعے میں چودھری صاحب کا پورا خاندان کسی نہ کسی طرح ملوث ہے۔ گاوؑں والوں کی نماندگی کرنے ایک دوسرا بڑا زمیندار آگے بڑھا۔ نبمردار کے گماشتے ڈنڈے سوٹے لے کر آ گئے۔ بات آگے تو تکرار تک بڑھی۔ گاوؑں کا امن خطرے میں پڑ گیا۔
اب گاوؑں کے کچھ سیانے اکٹھے ہوئے، انہوں نے پنچائت کا اعلان کر دیا۔ فریقین کی مرضی سے پانچ دانا لوگ مقرر کر دئے گئے۔ دن ہفتے مہینے پنچائت ہوئی۔ سب کو ثبوت لانے کا کہا، فریقین کے بیانات سنے گئے۔ آخر پنچائت نے فیصلے دینے کا اعلان کر دیا۔ خوب شوروغوغا ہوا۔ چھوٹے بڑے اپنے اندازے لگانے لگے۔ ہر گلی، محلے تھڑے، اور دکان پر بحث شروع ہو گئی۔ خیر فیصلے کا دن آ گیا۔ مقررہ تاریخ پر سارا گاوؑں اکٹھا ہوا۔ دونوں فریقین اپنے حامیوں کے ساتھ اکٹھے ہوئے۔ پانچ میں سے پہلے بڑے نے کہا، واردات میں کہ نمبردار اور ساتھی ملوث ہیں، خود چور ہیں یا ان کے اہل و عیال۔ اوپر سے جھوٹ اور غلط بیانی کے مرتکب سو نمبرداری کے نا اہل۔ دوسرے پڑے نے بھی اس بات سے اتفاق کیا۔
باقی تین بڑوں نے نمبردار اور اس کے خاندان کو بالکل بھی بری الذمہ اور بے قصور نہیں کہا، نہ معاملے کو خارج کیا، بلکہ سیدھی سزا سنانے کی بجائے کیا کہ اتنی بڑی واردات اور خود نمبردار کے ملوث ہونے کی وجہ سے مزید تحقیق کر لی جائے۔ نمبردار نے جو نئی جائداد ظاہر کی ہے، شہر میں جو کوٹھیاں بنگلے اور فیکٹریاں لگائیں ہیں ان کا حساب کتاب اور خریداری کو دیکھ لیا جائے۔ پنچائت نے یہ ذمہ داری کچھ سمجھدارلوگوں کے ذمہ لگائی اور کہا کہ ایک نئی پنچائت بنے گی جس کو دو ماہ میں مزید تحقیق کر کے بتائیں تاکہ حتمی فیصلہ کیا جا سکے، کہ اگر نمبردار اور ان کا گھرانہ ملوث ہے تو ان کوسزا سنائی جا سکے۔
فیصلے کا سننا تھا کہ نمبردار کے حامی جلوس کی صورت میں ڈھول پیٹنے اور جشن منانے لگے۔ موقع پر جان بخشی ہونے، نا اہلی سے بچنے اور قانون کے حوالے نہ کرنے کو فتح سے تعبیر کرنے لگے۔ نمبردار کے چمچوں اور کڑچھوں نے تانگے اور لاوؑڈ سپیکر کے ساتھ سارے گاوؑں میں گشت کرنا شروع کردیا۔
پھر کیا ہوا؟
تحقیق کرنے والوں نے کیا نتیجہ نکالا؟
کیا نمبردار اور اس کا گھرانہ چوری کی سزا پا سکا؟
کیا گاوؑں والوں کا چوری شدہ مال مل سکا؟
نئی پنچائت آخری فیصلہ کیا دے گی؟
اس سنسنی خیز داستان کا دوسرا حصہ۔۔۔ دو ماہ بعد
نوٹ: یہ کہانی مکمل غیر سیاسی ہے
۔
نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں۔ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔