انتخابی قانون میں سقم کی نشاندہی؟
قومی اسمبلی میں قائد حزبِ اختلاف سید خورشید شاہ نے کہا ہے کہ الیکشن قانون میں ایک بڑا سُقم موجود ہے،جس کی وجہ سے الیکشن میں تاخیر ہو سکتی ہے، اِس لئے ضرورت ہے کہ اِس قانونی سُقم کو جلد از جلد دور کیا جائے، اُن کا کہنا تھا کہ الیکشن ایکٹ کی دفعہ22بالکل واضح ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ حلقہ بندیوں کے بعد انتخابات کے انعقاد کے لئے120دن چاہئیں،اِس سیکشن کو دیکھا جائے تو چار ستمبر سے پہلے الیکشن نہیں ہو سکتے۔اُن کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن کو قانون کی دفعہ22 اور دوسرے قوانین کے تضاد کا فوری طور پر جائزہ لینا چاہئے،حلقہ بندیوں کا حتمی نوٹیفکیشن چار مئی کو ہوا تو 120 دن 4 ستمبر کو پورے ہوں گے۔
قومی اسمبلی کی مدت31 مئی کو پوری ہو رہی ہے،اِس لحاظ سے آئینی تقاضے کے تحت60 دن کے اندر نئے انتخابات کا انعقاد ضروری ہے،عمومی طور پر خیال یہی ہے کہ15جولائی کے لگ بھگ انتخابات ہو جائیں گے تاکہ نتائج کے نوٹیفکیشن اور دوسرے مراحل 30جولائی سے پہلے پہلے مکمل ہو جائیں اور نئی حکومتیں اگست کے آغاز میں کام شروع کر دیں،وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کئی بار کہہ چکے ہیں کہ وہ اسمبلی کی مدت پوری ہونے سے ایک دن پہلے بھی اسمبلی نہیں توڑیں گے، ایسی صورت میں الیکشن کے لئے مزید30دن مل سکتے تھے،کیونکہ اگر اسمبلی کو مدت پوری ہونے سے پہلے تحلیل کیا جائے تو الیکشن90دن کے اندر کرانا ضروری ہوتا ہے،جبکہ مدت پوری ہونے کی صورت میں ان کا انعقاد 60دن میں کرنا پڑتا ہے، ویسے اگر دیکھا جائے تو آئین کے اندر یہ بھی ایک طرح سے سقم ہی ہے جسے کسی وقت اگر ضرورت محسوس ہو تو دور کیا جا سکتا ہے۔ فی الحال تو انتخابی ضابطے کی دفعہ22میں جس سُقم کی طرف خورشید شاہ نے توجہ دلائی ہے اس کا جائزہ لینا ضروری ہے۔ اگر واقعتا یہ سُقم ہے تو پھر جلد سے جلد اسے دور کرنے کی طرف توجہ دینی چاہئے تاکہ انتخابات بروقت ہو سکیں اور اُن لوگوں کی توقعات پوری نہ ہو سکیں،جو کسی نہ کسی بہانے سے انتخابات کا التوا چاہتے ہیں،بلکہ شب و روز اس کے لئے کوشاں بھی ہیں کہ کسی طور اُن کی یہ خواہش بر آئے۔
جس قانونی سُقم کی طرف قائد حزبِ اختلاف نے توجہ دائی ہے یہ فوری طور پر دور کر کے قومی اسمبلی اور سینیٹ سے منظور کرایا جا سکتا ہے،اِس وقت جن جماعتوں کی پارلیمینٹ میں نمائندگی ہے یا جو اگلا انتخاب لڑنے کی تیاری کر رہی ہیں اُن میں سے کوئی بھی یہ نہیں چاہے گی کہ اس کی وجہ سے انتخابات میں تاخیر ہو،خاص طور پر وہ جماعتیں جن میں دوسری جماعتوں سے ٹوٹ ٹوٹ کر سیاست دان جوق در جوق شامل ہو رہے ہیں، اِس لئے وہ تو چاہیں گی کہ جتنی جلد ممکن ہو سکے انتخابات انعقاد پذیر ہو جائیں،کیونکہ اِس وقت وہ مقبولیت کی جس لہر پر سوار ہیں عین ممکن ہے تاخیر کی صورت میں اس کا رُخ بدل جائے یا جو لوگ اِس وقت انتخاب جیتنے کی امید لگائے بیٹھے ہیں انتخابی فضا اُن کے خلاف تبدیل ہو جائے، اِس لئے وہ بھی یہ چاہیں گے کہ کسی بھی وجہ سے انتخابات کے انعقاد میں تاخیر نہ ہو، اِس لئے یہ قانونی سُقم دور کرنے میں اُن کا تعاون بھی میسر ہو سکتا ہے ویسے بھی قومی مفاد اس میں ہے کہ حکومت سمیت تمام سیاسی جماعتیں اِس ایک نکتے پر اتفاق کر سکتی ہیں کہ کچھ بھی ہو جائے الیکشن ملتوی نہیں ہونے دینا،کیونکہ کسی بھی وجہ سے چاہے وہ کتنی بھی جائز ہو اگر ایسا ہوتا ہے تو سیاسی منظر پر اس کے منفی اثرات ہی مرتب ہوں گے۔
ہمارے ہاں ایک روایت یہ بھی رہی ہے کہ جن جماعتوں کو انتخابات میں اپنی ناکامی صاف نظر آ رہی ہوتی ہے وہ کسی نہ کسی بہانے انتخابات ملتوی کرانے کے لئے کوشاں نظر آتی ہیں،کیونکہ اُن کی بقا ہی اس فضا میں ممکن ہوتی ہے، جب منتخب کی بجائے غیر منتخب لوگ حکمران ہوں اِس لئے وہ اِس بات کے لئے کوشاں رہتے ہیں۔جنرل(ر) پرویز مشرف جیسے لوگ تو باقاعدہ یہ مہم چلاتے رہے ہیں کہ ایک ٹیکنو کریٹ حکومت طویل مدت کے لئے بننی چاہئے، جو پہلے احتساب کرے اور پھر انتخاب کرائے،حالانکہ یہ نہ تو کوئی نیا تصور ہے اور نہ ہی یہ کوئی ایسی بات ہے جو اُن سے پہلے کسی دوسرے کے ذہن میں نہ آئی ہو، انتخابات کے مخالفین ہمیشہ اِس نہج پر سوچتے رہے ہیں اور کسی نہ کسی بہانے سے انتخابات کا التوا چاہتے رہے ہیں، یہاں تک کہ ماضی میں بعض لوگ اپنا مقدمہ لے کر عدالت بھی گئے،لیکن وہاں سے بھی اُنہیں کوئی ریلیف نہیں ملا۔
ٹیکنو کریٹس کی حکومت تو سرے سے غیر آئینی ہے یہ تھوڑی مدت کے لئے ہو یا زیادہ مدت کے لئے۔ابھی تو نگران وزیراعظم کے نام پر بھی اتفاق نہیں ہو پایا،جو آئینی طور پر وزیراعظم اور قائد حزبِ اختلاف کے درمیان ہونا چاہئے۔ قائد حزبِ اختلاف چاہیں تو دوسری اپوزیشن جماعتوں سے مشاورت کر سکتے ہیں،لیکن یہاں اُلٹی گنگا یہ بہائی جا رہی ہے کہ اپوزیشن جماعتوں نے درجنوں کے حساب سے اپنے نام ’’فلوٹ‘‘ کر رکھے ہیں اور وہ چاہتی ہیں کہ اُنہی کی پسندیدہ شخصیت نگران وزیراعظم بنے، دو چار نشستوں والی جماعتوں کا ارمان بھی یہی ہے، وہ یہ تک کہہ چکی ہیں کہ وزیراعظم اور قائد حزبِ اختلاف کا فیصلہ اُنہیں قبول نہیں ہو گا، حالانکہ آئین کا منشا یہی ہے اور یہ آئینی ضرورت کے عین مطابق بھی ہے، قائد حزبِ اختلاف باقی اپوزیشن جماعتوں سے اگر مشورہ کر رہے ہیں تو یہ اُن کی عالی ظرفی ہے جسے غلط مفہوم پہنایا جا رہا ہے۔
سید خورشید شاہ پرانے پارلیمنٹیرین ہیں اگر الیکشن ایکٹ 2017ء میں یہ قانونی سُقم پہلے سے اُن کے علم میں تھا تو اُنہیں اِس جانب توجہ دِلا دینی چاہئے تھی،لیکن اب بھی کافی وقت ہے اگر اِس کام کو تیزی سے نپٹایا جائے تو یہ وقت پر مکمل کیا جا سکتا ہے، متعلقہ شق میں ترمیم کا مسودہ تیار کر کے ایوان میں پیش کر دیا جائے،جس پر قائمہ کمیٹی غور کر لے اور پھر اس کی منظوری دے دی جائے،بظاہر تو یہ کوئی ایسا ناممکن کام نہیں ہے تاہم اِس سے پہلے اِس پر اچھی طرح غور کرنا ضروری ہے۔ متعلقہ حکام اِس ضمن میں اطمینان بخش کارکردگی دکھائیں۔ وزارتِ قانون کو فوری طور پر اِس کا جائزہ لے کر ماہرین سے رائے لے لینی چاہئے، تاکہ اِس سلسلے میں تیزی سے پیش رفت ممکن ہو۔