عمران خان ایک بار پھر مشکل میں
الیکشن کے پہلے دو تین ماہ میرے محبوب لیڈر عمران خان کے لئے خاصے خطرناک ہوتے ہیں، 2013ء میں بھی ایسا ہی ہوا تھا اب2018ء میں بھی وہی کچھ ہوتا نظر آ رہا ہے۔ گزشتہ الیکشن سے دو ماہ پہلے بھی ان کے گیٹ پر رش بڑھ گیا تھا اور وہ پریشان ہو گئے تھے کہ یہ ’’یاجوج ماجوج‘‘ کی قوم میرے گیٹ پر لشکر کشی کر چکی ہے اب اس کا کیا کِیا جائے؟ مگر ان کے ساتھ یہ ’’ہاتھ‘‘ اتنے اہتمام کے ساتھ کیا جاتا ہے کہ یہ سادہ مزاج پٹھان اس مذاق کو سچ سمجھ لیتا ہے، مگر الیکشن والے دن شام کو سر پکڑ کے بیٹھا ہوتا ہے کہ آخر اس کے ساتھ ہوا کیا، اتنے مقبول لوگوں کے ساتھ الیکشن لڑنے کے باوجود ان کی پارٹی ہار کیسے گئی؟ مگر ہاتھ کرنے والے ایک بار پھر اس کے سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے اسے اس ’’یقینِ کامل ‘‘کے ساتھ آگے بڑھنے کو کہتے ہوئے مشورہ دیتے ہیں کہ قوم تمہارے ساتھ ووٹ تمہارے نام پر پڑے ہیں، مگر الیکشن میں دھاندلی ہوئی ہے، لہٰذا اگر تم ’’دھرنا‘‘ دے دو تو قوم سڑکوں پر نکل آئے گی۔ سو ہمارے محبوب رہنما سڑکوں پر نکل کھڑے ہوتے ہیں، لاکھوں کے مجمعے کی بات کرتے ہیں، مگر سینکڑوں کے ساتھ سڑکوں پر ’’خوار‘‘ ہوتے ہیں اور پھر چار پانچ سال سڑکوں پر ہی رہتے ہیں،گو عمران خان کے ’’خیر خواہ‘‘ ان کا حوصلہ بڑھانے کے لئے کبھی کبھی ڈاکٹر طاہر القادری کو بھی بطور امداد ان کے ساتھ شامل کر لیتے ہیں،مگر ڈاکٹر طاہر القادری کی آمد سے بھی معاملہ وہی کا وہی رہتا ہے، شیخ رشید تو ’’خیر خواہوں‘‘ کے حکم پر مستقل طور پر عمران خان کے ساتھ ہیں، جن کی ڈیوٹی صرف اتنی ہے کہ تم نے ہر تین ماہ بعد عمران خان کو یہی دلاسہ دینا ہے کہ ’’حکومت اب گئی کہ تب گئی‘‘؟
اب تو عمران خان کے پرستاروں نے لوک فنکار کے گائے ترانے ’’جب آئے گا‘‘ عمران پر اعتراض کر دیا ہے اور مطالبہ کیا ہے کہ لفظ ’’جب‘‘ کو ختم کیا جائے، کیونکہ اب ہر شخص سوال کرتا ہے کہ یہ ’’کب‘‘ آئے گا یہ ترانہ سن سن کے کان پک گئے ہیں، ہمارے دوست ’’طرم خان‘‘ نے یہ ترانہ سننا بند کر دیا ہے، کیونکہ اُس کا خیال ہے کہ اِس ترانے میں لفظ ’’جب‘‘ نے ہی ساری مصیبت ڈال رکھی ہے، مَیں نے اُسے کئی بار سمجھایا ہے کہ یہ ترانہ ہمارے دوست مظہر نیازی نے بہت محنت سے لکھا ہے۔ البتہ گانے کی دھن ایک پرانے گانے کی نقل کی گئی ہے۔ یہ ترانہ مقبول بھی بہت ہوا، اور پھر یہ ترانے گانے والے کو بھی اچانک ممبر قومی اسمبلی بننے کے خواب آنے لگے اور انہوں نے اپنے آبائی ضلع میں اچھی خاصی افراتفری پھیلا دی۔یہ تو عمران خان نے انہیں منع کر دیا کہ ’’میاں‘‘ الٹے سیدھے خواب نہ دیکھو ترانے تک رہو تو اچھا ہے۔
جیسا کہ شروع میں عرض کیا ہے کہ مجھے لگتا ہے کہ2018ء کے الیکشن کے لئے بھی عمران خان کے لئے پریشانیوں کے سامان ابھی سے شروع کر دیئے گئے ہیں، مسلم لیگ(ن) اور پی پی پی کے پرندے اُڑ اُڑ کے بنی گالہ کی دیواروں پر بیٹھنا شروع ہو چکے ہیں تادم تحریر ندیم افضل چن ایک ایسا شخص تحریک انصاف کو پیارا ہوا ہے،جس کی سیاسی شخصیت کا احترام ہر جگہ موجود ہے، اپنی پارٹی کے ساتھ ان کے اختلاف نظریاتی تھے، وہ سمجھتے تھے ان کی جماعت بھٹو اور بے نظیر کے نظریہ سیاست سے دور ہو چکی ہے اور اپنی ان حرکتوں کی وجہ سے پارٹی غیر مقبول ہو چکی ہے۔
ندیم افضل چن نے تحریک انصاف میں شامل ہو کے دراصل خود کو مطمئن کرنے کی کوشش کی ہے،مگر تھوڑے دِنوں کے بعد انہیں معلوم ہو جائے گا۔۔۔ کہ انہیں ایک نئے ’’امتحان‘‘ کا سامنا ہے، مگر تحریک
انصاف کی قیادت مبارک باد کی مستحق ہے کہ اُس نے پہلی بار ایک نظریاتی سیاسی کارکن کو اپنی صفوں میں جگہ دی ہے، مگر اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ عمران خان کے ’’گیٹ‘‘ پر جو رش لگا ہوا ہے وہ ندیم افضل چن جیسے نظریاتی اور سیاسی کارکن ہیں۔ یہ سب لوگ وہی ہیں یا اُن جیسے ہیں،جو 2013ء کے الیکشن سے تین ماہ قبل عمران خان کے گیٹ پر کھڑے تھے اور یہ وہی لوگ ہیں جو نسل در نسل پاکستان کو لوٹ رہے ہیں، سو اگر عمران خان ایک بار پھر2013ء کے تجربے کو دھرانے کی کوشش کریں گے تو نتائج2013ء سے مختلف نہیں آئیں گے۔ مَیں جب اپنا یہ ’’تجزیہ‘‘ اپنے دوست ’’طرم خان‘‘ کے سامنے پیش کرتا ہوں کہ عمران خان ایک بار پھر کرپٹ لوگوں کو اپنی صفوں میں جگہ دے رہا ہے تو وہ بگڑ جاتا ہے اور کہتا ہے کہ کوئی کتنا بھی بگڑا ہوا کیوں نہ ہو، عمران خان کی قیادت کے نیچے کوئی شخص کرپشن نہیں کر سکتا،کیونکہ عمران خان خود کرپٹ نہیں ہے، مگر جواباً جب مَیں ’’طرم خان‘‘ سے سوال کرتا ہوں کہ خیبرپختونخوا میں تحریک انصاف کے جن ایم پی ایز نے خود کو بیچا ہے کیا، ان کا قائد نواز شریف تھا؟کیا وہ سب تحریک انصاف کے ٹکٹ پر نہیں جیتے تھے، کیا انہوں نے عمران خان کی قیادت کے باوجود بقول عمران خان سینیٹ کے الیکشن میں کروڑوں روپے نہیں لئے۔۔۔میرے اس سوال پر ’’طرم خان‘‘ سوال و جواب کے بہانے منہ میں نسوار رکھ کے خاموش ہو جاتا ہے۔