کپتان، ٹیم کی فتح و شکست دونوں کا حصّے دار
وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ جو وزیر ملک کے لئے ٹھیک نہیں ہو گا اُسے تبدیل کر دوں گا، کپتان کا مقصد ہر حال میں میچ جیتنا ہوتا ہے اور اِس مقصد کے لئے وہ ضرورت پڑنے پر اپنی ٹیم کے کھلاڑیوں کو بھی تبدیل کرتا اور اُن کا بیٹنگ آرڈر بھی بدلتا ہے، اس وزیر کو لاؤں گا جو ملک کے لئے فائدہ مند ہو گا۔ وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار اور وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا محمود خان سمیت سب وزیر سُن لیں جو کام نہیں کرے گا وہ نہیں رہے گا، دونوں وزرائے اعلیٰ اپنی صوبائی ٹیموں پر نظر رکھیں جو وزیر پرفارمنس نہیں دے رہا اُسے تبدیل کرنے میں کسی ہچکچاہٹ کا مظاہرہ نہیں ہونا چاہئے۔ وزیراعظم نے کہا کہ ہمارے اوپر قرض اِس لئے چڑھے کہ پرویز مشرف نے آصف علی زرداری کو بھی این آر او دے دیا اور سارے کیسز معاف کر دیئے۔ انہوں نے اِن خیالات کا اظہار اورکزئی میں جلس�ۂ عام سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔
وزیراعظم نے اپنے خطاب میں نہ صرف کابینہ میں حالیہ تبدیلیوں کا جلسۂ عام میں دفاع کیا، بلکہ آئندہ کے لئے بھی خبردار کر دیا کہ جو وزیر کام نہیں کرے گا وہ گھر جائے گا، بلاشبہ یہ کپتان کا حق ہوتا ہے کہ وہ میچ جیتنے کے لئے بیٹنگ آرڈر تبدیل کر دے،لیکن کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ تمام تر تبدیلیوں اور ہر قسم کے جتن کرنے کے باوجود کوئی کپتان اور اس کی ٹیم بُری طرح ہار جاتی ہے اور جب کبھی ایسا ہوتا ہے تو ناقدین اکیلی ٹیم کو ہی ذمہ دار نہیں گردانتے، کپتان پر بھی اس کے حصے کی ذمے داری ڈالتے ہیں، چیف سلیکٹر کے کھاتے میں بھی اس کا حصہ درج کرتے ہیں اور کوچ سے بھی استفسار کرتے ہیں کہ انہوں نے کھلاڑیوں کو ایسے داؤ پیچ کیوں نہیں سکھائے کہ ٹیم میچ جیت جاتی، گویا اگر کوئی ٹیم ہار جائے(اور ٹیمیں ہارتی جیتتی رہتی ہیں) تو کھلاڑیوں کو ان کی غلطیوں پر ہدفِ تنقید بنایا جاتا ہے۔ اگر وہ بیٹسمین ہے تو اس کی بیٹنگ سکلز کا جائزہ لیا جاتا ہے، اگر باؤلر ہے تو دیکھا جاتا ہے اس کی باؤلنگ میں کہاں کہاں خرابی ہے اگر وہ فیلڈر ہے تو دیکھا جاتا ہے کہ اس نے کہاں کہاں کیچ چھوڑے، اگر وہ وکٹ کیپر ہے تو اس کی کوتاہیوں کو سامنے لایا جاتا ہے، اگر وہ کپتان ہے تو دیکھا جاتا ہے کہ کپتان نے فیصلہ کرتے ہوئے کہاں کہاں ٹھوکر کھائی، کہاں کہاں بیٹنگ آرڈر غلط بدلا جو فائدے کی بجائے نقصان دہ ثابت ہوا،کہاں کسی باؤلر سے زیادہ اوور کرائے اور کسی ایسے کھلاڑی کو موقع نہ دیا، جو زیادہ بہتر پرفارمنس دے سکتا تھا۔ یہ تو ٹیم اور کپتان کے کھیل کی بات ہے، اگر ٹیم ہار جائے تو دیکھا جاتا ہے کہ اس کی سلیکشن میں تو کوئی خرابی نہیں تھی، سارے کھلاڑی میرٹ پر ٹیم پر لئے گئے تھے یا کوئی ’’پرچی‘‘ لے کر اس کے زور پر ٹیم کا حصہ بن گیا تھا، پھر سلیکٹ کرنے والوں کے فیصلوں کا بھی جائزہ لیا جاتا ہے کہ انہوں نے کہاں کہاں غلط فیصلے کئے،غرض ٹیم کے اوپر سے نیچے تک سارے ہی کھلاڑی درجہ بدرجہ ذمے دار گردانے جاتے ہیں اور جائزہ لینے والے اگر ڈنڈی نہ ماریں تو درست نتیجے پر پہنچ جاتے ہیں کہ میچ کس نے جتوایا اور کس نے ہروایا۔
سیاست اور کرکٹ میں تھوڑا بہت موازنہ تو ٹھیک ہے،لیکن دونوں میں بہت زیادہ مماثلتیں نہیں ہوتیں، سیاست میں سارے فیصلے کرکٹ کی طرح نہیں لئے جاتے، چونکہ وزیراعظم نے ایک جلسۂ عام میں کابینہ میں ردو بدل کے حوالے سے کرکٹ کی ٹرمینالوجی کو اظہارِ خیال کا ذریعہ بنایا اِس لئے ہم بھی اسی کھیل کی اصطلاحات میں بات کرتے ہیں۔ وزیراعظم نے اپنی ٹیم خود سلیکٹ کی تھی اور یہ مدنظر رکھ کر کی تھی کہ کون سا کھلاڑی کس پوزیشن میں بہتر کھیل سکتا ہے۔انہوں نے برسر اقتدار آنے سے بھی بہت پہلے بار بار اعلان کیا تھا کہ اُن کے پاس اسد عمر کی شکل میں ایک ایسا ہیرا ، بلکہ پارس ہے جو ملک کے اقتصادی مسائل کا حل جانتا ہے، اِس لئے جب انہوں نے اسد عمر کو وزیر خزانہ بنایا تو اُن کے مداحوں نے امیدیں وابستہ کر لیں کہ کپتان کے چُنے ہوئے اوپنر اب اپنی ٹیم کے لئے ایک ایسا ٹرینڈ سیٹ کر دیں گے کہ وہ میچ جیت جائے گی،لیکن انہوں نے بیٹنگ کا آغاز ہی کیا تھا کہ اندازہ ہونا شروع ہو گیا کہ وہ لوز بالوں پر تو چوکے چھکے لگاتے ہیں،لیکن بعض خطرناک بال بھی کھیل دیتے ہیں،بار بار کی نشاندہی کے باوجود انہوں نے ایسا ہی کھیل جاری رکھا انہیں نہ تو کپتان نے روکا اور نہ ہی ساتھی کھلاڑیوں نے توجہ دلائی کہ اگر وہ اسی طرح کھیلتے رہے تو وہ نہ صرف خود آؤٹ ہوں گے،بلکہ ٹیم کی شکست کا بھی موجب بن جائیں گے۔
کپتان کو یقین تھا کہ اُن کا اوپنر بالآخر کامیابی دِلائے گا،چنانچہ وہ اُن کے چوکے چھکوں پر نہ صرف تالیاں بجاتے رہے،بلکہ جس کسی نے ڈرتے ڈرتے کسی خامی کی جانب توجہ دلائی اُسے بھی کہا کہ یہی اوپنر کامیاب ہو گا اس فیصلے سے اسد عمر کا اعتماد بڑھتا گیا اور وہ اپنی ہی دھن میں مست کھیلتے چلے گئے،اُن کے فیصلوں کے منفی نتائج مہنگائی کے سونامی کی شکل میں آنا شروع ہو گئے اور لوگوں کی چیخیں سنائی دینے لگیں تو انہوں نے کہا ابھی تو چیخوں کی آواز بلند ہو گی جب وہ طویل عرصے تک کریز پر رہنے کے باوجود کوئی ایسا کھیل نہ دِکھا سکے جو بہتری کی امید دلاتا تو ان کی پوزیشن تبدیل کرنے کا فیصلہ ہوا،لیکن اُن کا کہنا تھا کہ وہ کھیلیں گے تو اسی پوزیشن پر کھیلیں گے ورنہ کھیل چھوڑ جائیں گے، چنانچہ اب وہ ٹیم سے باہر جا چکے ہیں۔ کپتان نے پنجاب کے وزیراعلیٰ عثمان بزدار کو ہمیشہ وسیم اکرم سے تشبیہ دی اور کہا کہ وہ ضرور کامیاب ہوں گے۔ اب اگر کل کلاں عثمان بزدار ناکام ہو جاتے ہیں تو وزیراعظم کو ان کی ناکامیوں کا حصہ دار کیسے نہیں مانا جائے گا؟
کپتان نے اپنی ٹیم کا نہ صرف اوپنر تبدیل کر دیا ہے، بلکہ بہت سے دوسرے کھلاڑیوں کی پوزیشنیں بھی تبدیل کر دی ہیں اور یہ اعلان بھی کر دیا ہے کہ آئندہ بھی نہ صرف پوزیشن تبدیل کی جاتی رہے گی،بلکہ پرفارم نہ کرنے والوں کو ٹیم سے نکال بھی دیا جائے گا۔ کپتان نے تمام فیصلے اپنی آزاد مرضی سے کئے ہیں،پہلے بھی انہوں نے اپنی ٹیم خود ہی منتخب کی تھی، اِس لئے اُنہیں اس انتخاب کی ذمے داری قبول کرنی چاہئے اور آئندہ اگر کوئی کھلاڑی درست طور پر نہیں کھیلتا تو انہیں ماننا پڑے گا کہ ان کا انتخاب غلط تھا، وزیراعظم نے جنرل پرویز مشرف کے این آر او کا ذکر صرف آصف علی زرداری تک محدود رکھا ہے، جبکہ اس این آر او سے سب سے زیادہ فائدہ اٹھانے والی جماعت اُن کے ساتھ اقتدار میں بیٹھی مزے کر رہی ہے۔ ان کے گناہ معاف کر دیئے گئے ہیں تو اس پس منظر میں سنگل آؤٹ کر کے آصف علی زرداری کا نام لینا قرینِ انصاف نہیں ہے؟