علامہ اقبال سے ایک ملاقات
سید نذیر نیازی نے کہا ”علامہ اقبال آپ کو بہت یاد کرتے ہیں“
علامہ اقبال نے اس نوجوان کو بلانے کی فرمائش کی جس نے انہیں نظمیں سنائی تھیں
خواجہ غلام فرید کی شاعری محدود ہو کر رہ گئی ہے حالانکہ ان کا کلام گہرے مطالعے کا محتاج ہے
لوگ کہتے ہیں میں تندرست ہو رہا ہوں لیکن مجھے تو یہ خواب ختم ہوتا نظر آرہاہے
میری قسمت میں علامہ سے اگلی ملاقات کی بجائے ان کی میت کو کاندھا دینا تھا
صوفی غلام مصطفی تبسم مرحوم کی یاد گار تحریر
ریڈیو سٹیشن پر سید نذیر نیازی مجھ سے ملے۔ کہنے لگے ڈاکٹر صاحب دو دن سے آپ کو بہت یاد کر رہے ہیں۔ انہوں نے پیغام بھیجا تھا آپ گھر پر نہیں تھے۔ چند دنوں سے ان کی طبیعت زیادہ علیل ہے۔ بھائی تاثیر مرحوم اتفاق سے وہاں موجود تھے۔ علالت کا سنتے ہی ہم فی الفور کوٹھی پرپہنچے۔
ڈاکٹر صاحب چھوٹے کمرے میں حسب معمول چارپائی پر لیٹے حقہ پی رہے تھے لیکن ان کے چہرے پر وہ شگفتگی نہ تھی جو اکثر آشنا صورتوں کے دیکھنے سے پیدا ہو جایا کرتی تھی۔ اس دن وہ کسی گہری سوچ میں ڈوبے ہوئے تھے۔ ہمیں دیکھتے ہی یوں محسوس ہوا کہ جیسے اچانک چونک پڑے ہوں۔
مزاج پرسی کے بعد میں نے عرض کیا۔ قبلہ آپ نے مجھے یاد فرمایا تھا۔ کیا ارشاد ہے؟ کچھ دیر تامل کے بعد بولے ہاں یاد آیا۔ وہ نوجوان کہاں ہے؟ میں نے پوچھا کون نوجوان؟ وہ جس نے مجھے نظمیں سنائی تھیں وہ پھر آ سکتا ہے؟میں نے کہا کیوں نہیں۔ جب بھی آپ فرمائیں حاضر ہو جائے گا۔ فرمایا اسے ضرور بلائیے اور جلدی بلائیے۔ مجھے اس کا گانا بہت پسند ہے۔ تاثیر صاحب جو نوجوان کا اشارہ سمجھ گئے تھے، بولے کم بخت کی آواز میں کتنا سوز ہے اور پھر وہ پڑھا لکھا آدمی بھی ہے۔ فرمانے لگے پڑھے لکھے تو خیر اور بھی ہیں۔ وہ اس طرح شعر پڑھتا ہے جیسے خود بھی محسوس کر رہا ہو۔ اس کی آواز دل سے نکلتی ہوئی معلوم ہوتی ہے۔ پھر اسے فارسی، اردو، پنجابی سبھی نظمیں یاد ہیں۔ اس روز عرشی کی جو پنجابی نظم اس نے سنائی تھی بہت خوب تھی۔ میں عرشی کو محض مولوی سمجھتا رہا۔ یہ پتہ نہ تھا کہ اس کے سینے میں بھی ایک درد مند دل ہے۔ اچھی نظم لکھی۔ اب و ہ آہستہ آہستہ یہ مصرعے گنگنانے لگے۔
اساں ہنجواں ہار پرونا، دکھ تینوں نئیں دسنا
تیرے سامنے بیٹھ کے رونا، دکھ تینوں نئیں دسنا
(ہم آنسوؤں کا ہار پروئیں گے لیکن تمہیں اپنا دکھ نہیں بتائیں گے۔ ہم تیرے سامنے بیٹھ کر روئیں گے لیکن یہ نہیں بتائیں گے کہ ہمیں کیا دکھ ہے)۔ اس پر پنجابی شاعری کی گفتگو کا سلسلہ چلا۔ فرمانے لگے۔ پنجابی ہماری مادری زبان ہے۔ اس میں جو بات پیدا ہو سکتی ہے وہ کسی اجنبی زبان میں ممکن نہیں۔ اس زبان کو جب کبھی بڑا شاعر ملا تو اس نے شاہکار پید اکیا۔ وارث کی ”ہیر“، فضل شاہ کی ”سوہنی مہینوال“ اور ہاشم شاہ کے دوہڑوں سے چل کر بات خواجہ غلام فرید چاچڑاں والے کی شاعری تک پہنچی۔
ڈاکٹر صاحب بولے افسوس کہ خواجہ صاحب کی شاعری ایک علاقے تک محدود ہو کر رہ گئی۔ ان کا کلام ایک گہرے مطالعہ کا محتاج ہے۔ مجھے تو اس میں بین الاقوامی حیثیت و اہمیت کے عناصر نظر آتے ہیں۔ کچھ دیر رک کر فرمایا:۔ ”ہاں تو مجھے یاد آیا کہ کوڑا کرکٹ کے ڈھیر کے لیے فارسی میں کون سا لفظ ہے۔ سوچتا تھا تم آؤ تو پوچھوں؟ میں نے عرض کیا قبلہ آپ کیا فرما رہے ہیں؟ کہنے لگے آپ فارسی پڑھاتے ہیں نا۔ خیال تھا کوئی موزوں لفظ مل جائے گا۔ میں نے دو تین لفظ پیش کئے۔ فرمایا کہ یہ پہلے سے میرے ذہن میں ہیں۔میں زیادہ موزوں لفظ چاہتا ہوں۔ ایک ایسے دماغ کے لیے تشبیہ کی ضرورت ہے جس کا ظاہر خضرالدمن کی طرح عارضی طور پر شگفتہ نظر آتا ہے لیکن اس کے اندر گندگی بھری ہوتی ہے۔ ایک رباعی لکھنا چاہتا ہوں۔ اسی لفظ کی تلاش ہے۔ پیشتر اس کے کہ ہم پوچھتے کہ وہ دماغ کون ہے، وہ خود ہی بول اٹھے۔ ہماری قوم کے اکثر اصحاب فکر کے دماغوں کی یہی کیفیت ہے۔ وہ کچھ اورکہنا چاہتے تھے کہ ڈاکٹر یوسف صاحب تشریف لے آئے اور ابھی وہ معائنے میں مصروف ہی تھے کہ شفاء الملک حکیم قرشی بھی آپہنچے۔ دونوں نے باہم مشورہ کیا۔ ڈاکٹر صاحب سے استمزاج بھی کیا گیا۔ کچھ ہنسی مذاق کی باتیں بھی ہوئیں۔ چارہ گروں نے تسلیاں دیں اور کہا حالت پہلے سے بہتر ہے اور رخصت ہوئے۔
ڈاکٹر صاحب یونانی علاج کا تذکرہ کرنے لگے اور کہا کہ جس قدر ان لوگوں کا طریق علاج افسردہ کر دیتا ہے اسی قدر ان کی بعض دوائیاں شگفتگی اور انبساط پیدا کرتی ہیں۔ میں ہمیشہ سے ان کا قائل ہوں لیکن اب کے تو یقین ہو گیا ہے کہ ان دوائیوں میں ایسے عناصر موجود ہیں کہ انسان تندرست ہو نہ ہو، ذہنی طور پر صحت یاب ضرور ہو جاتا ہے۔ یہ کم بخت مرض کی تلخی کو بھی خوشگوار بنا دیتی ہے۔ شاید اتنے شدید مرض کے باوجود میرے زندہ رہنے کی یہی وجہ ہے۔
اس کے بعد و ہ یک لخت خاموش ہو گئے۔ لمحے بھر کے بعد اٹھ بیٹھے اور فرمانے لگے یہ لوگ توکہتے ہیں میں تندرست ہو رہا ہوں لیکن یہ خواب اب ختم ہوتا نظر آتا ہے۔
یہ بات کچھ ایسے غمناک لہجے میں کی گئی کہ ہم سب دم بخودہو کررہ گئے۔ ان کا دیرینہ خادم علی بخش دروازے میں کھڑا یہ سب کچھ دیکھ رہا تھا۔ اس کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔ کسی نے کہا کیوں روتا ہے؟ کوئی فکر کی بات نہیں۔
ڈاکٹر صاحب لیٹ گئے۔ آنکھیں بند کر لیں اور فرمایا، اسے مت روکو۔ آخر 35سال کا ساتھ ہے۔ جدا ہوتے تکلیف ہوتی ہے۔
ہم واپس آگئے۔ اس کے بعد میری قسمت میں ان کی ملاقات کی بجائے ان کو کندھا دینا تھا۔ گھر پہنچتے ہی میں نے اس نوجوان کو ڈاکٹر صاحب کا پیغام پہنچا دیا لیکن بعض مجبوریوں کے باعث وہ حاضر خدمت نہ ہو سکا۔
ان کے جنازے کے ساتھ ہزاروں کا مجمع تھا۔ دوست، عزیز، عقیدت مند سبھی شامل تھے۔ سب جنازے کو کندھا دینے کے لیے آگے بڑھتے لیکن ہجوم سے بہت پیچھے ایک شخص تنہا سر جھکائے آہستہ آہستہ قدم اٹھائے چلا جا رہا تھا۔ آہوں کے ساتھ کبھی کبھی اس کے منہ سے بے ساختہ چیخ بھی نکل جاتی تھی۔
یہ وہی وعدہ شکن نوجوان تھا!