کرونا وائرس، قوت معدافت اور سوشل میڈیا……
پوری دینا کی زبان پر بار بار ایک ہی لفظ گھوم رہا ہے۔ سوشل میڈیا کرونا پر اتنا متحرک ہو گیا ہے کہ اس نے پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا کو پیچھے چھوڑدیا ہے۔لوگ سوشل میڈیا پر بہت سی ویڈیو، پیغامات، احادیث اور قرآنی آیات کے علاوہ واقعات کو تحقیق اور سچائی کی تصدیق کے بغیر اپ لوڈ کر رہے ہیں اور دنیا دیکھ رہی ہے۔ اس سے اگرچہ آگاہی و شعور بیدار ہوتا ہے۔ اور لمحہ بہ لمحہ انسان احتیاطی تدابیر اور حفا ظتی اقدامات کو ہر وقت کرنے میں آسانیاں محسوس کرتا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ ایسے پیغا مات ویڈیو، واقعات اور مذہبی و غیر مذہبی حوالہ جات نے انسان بلکہ پوری دنیا کو پریشان کر دیا ہے۔ اور وہ ذہنی و نفسیاتی مشکلات میں متبلا ہوتا جا رہا ہے۔ اس قسم کی بے جا ویڈیو اور انفارمیشن کے پھیلاؤ کے سبب انسان کی بین الاقوامی سطح پر قوت مدافعت کم ہوتی جارہی ہے۔ جو کہ ایک نارمل قوت مدافعت میں کمی کے سبب کرونا کو حملہ کر نے میں آسانی پیدا کرتی ہیں۔ کرونا جیسی خطرناک مرض سے مقابلہ کرنے کا صرف ایک طریقہ ہے کہ اپنی قوت مدافعت کو مقررہ معیار سے کم نہ ہونے دیا جائے۔ لہذا سوشل میڈیا پر بھی کچھ ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں کہ گھر میں فارغ بیٹھے حضرات ہزاروں بلکہ لاکھوں لوگوں کو بعض غلط انفارمیشن ڈلیور کرنے میں مصروف ہیں۔ ان کے پاس تحقیق اور درست معلومات کی بہم رسانی کا کوئی معتبر پیمانہ نہیں اور وہ تمام کے تمام سکالرز تو نہیں ہیں۔
سوشل میڈیا کے ایسے رویہ سے کرونا کے متعلق غلط قسم کی معلو مات مسلسل گردش میں ہیں۔ اس کا نقصان 40 سال سے زائد عورتوں اور مردوں کو ہورہا ہے۔کیونکہ ان کی قوت مدافعت پہلے ہی کم ہے۔اگر سوشل میڈیا کی بار بار تجویز کے سبب ایسے افراد جو چالیس سال سے زائد ہیں ان کی قوت مدافعت ایک دفعہ کم ہوگئی تو پھر ان کو سنبھلنا مشکل ہوجاتا ہے۔سوشل میڈیا کرونا سے بھی خطرناک وائرس کا مظاہر ہ کرنے میں مصروف ہے۔ لہذا دوسری کرونا احتیاطی تدابیر اور اقدامات کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا کو بھی غیر ذمہ دارانہ رویہ سے روکنے کے لیے حکومتی اقدامات کرونا کے اس خوف کے سد باب کے لیے ہونا چاہئیں۔ کیونکہ سوشل میڈیا کے ساتھ ساتھ الیکڑانک میڈیا اور پرنٹ میڈیا کو بھی غیر ذمہ داری کامظاہرہ اس مشکل وقت میں نہیں کرنا چاہیے۔خبروں اور سٹوریوں میں سنسنی خیز ی کی بجائے صحافتی اخلاقی اقدار کا دامن بھی ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہیے۔ اس مشکل وقت میں میڈیا گھروں میں قید خاندانوں کے لیے بہت مثبت کردار ادا کررہا ہے اور مزید کرسکتا ہے۔ اب لوگوں کے پاس اور کرونا سے بچاؤ اور اپنے آپ کو محفوظ رکھنے کا وسیلہ میڈیا ہی تو ہے۔
جو پوری دنیا کے حالات واقعات سے با خبر رکھے ہوئے ہے۔ لیکن کرونا کی احتیاطی تدابیر کے ساتھ ساتھ میڈیا کو بھی خبریں نشر کرنے سے پہلے حفاظتی تدابیر اور اس کے فیڈ بیک پر ضرور توجہ دینی چاہیے۔ کیونکہ دنیا بھر سے کرونا کی اموات اور مریضوں کی خبریں آن ائیر کرنے سے پہلے پاکستانی معاشرے اور افراد کی نفسیاتی اور ذہنی کیفیات کو بھی مدنظر رکھنا ضروری ہے۔ قوت ارادی انسان کی حیات اور طاقت کا ذریعہ ہے۔ لہذا آپ نے ایسے حالات میں قوت ارادی کو مضبو ط رکھنا ہے، اور کرونا کے لفظ کو اپنے اوپر سوار ہونے سے بچانا ہے۔ جہاں اس موذی مرض کرونا کا مقابلہ صحت کے حوالہ سے کرنا ضروری ہے۔ وہاں معاشی مسائل بھی انسان کی قوت ارادی کو کمزور کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ جس سے اعصابی نظام کمزور ہوجاتا ہے اور انسان اس خطرناک موذی مرض کرونا میں آسانی سے مبتلا ہو سکتا ہے۔ حکومت پاکستان سارے گھروں یا ضرورت مندوں کو براہ راست راشن تو مہیا نہیں کر سکتی اور معاشی مسائل آہستہ آہستہ شدت اختیار کرتے جائیں گے۔ ایسے حالات میں اخوت کے چیئرمین ڈاکٹر امجد ثاقب نے معاشی اور بھائی چارے کا اسلامی اور مدلل فارمولا پیش کیا ہے۔
کہ ہر محلہ کی مساجد کمیٹیاں ضرورت مندوں کی نشاندہی کریں اور ہمسائے دوسرے ہمسائے کے کھانے پینے کا خیال رکھیں اور ان کوبھوکا نہ ہونے دیں۔اور راشن مساجد میں اکٹھا کرکے تحقیق کے بعد مساجد کی کمیٹیاں ان کو تقسیم کریں۔ ایسے ہی کمیونٹی ٹو کمیونٹی علاقہ ٹو علاقہ یعنی جو کمیونٹی امیر ہے۔ وہ غریب کمیونٹی کو اپنالے اور وہاں کی مساجد میں کھانے پینے کا سامان روزانہ کی بنیاد پر جاری رکھے۔ اسطرح پاکستان میں گراس روٹ لیول پر کوئی بھی ہمسایہ بھوکا نہیں ہوگا۔ اور حکومت کیلئے بھی آسانیاں پیدا ہوجاتی ہیں۔ اسکا مقصد ہے کہ صاحب حیثیت اور امیر لوگوں نے اپنے وسائل کو اپنے بھائیوں کیلئے استعمال کرکے بنیادی ضروریات کو پورا کرنا ہے۔ ڈاکٹر امجد ثاقب کا یہ معاشی منصوبہ قابل عمل اور حکومت کیلئے معاشی طور پر ایک مکمل حل ہے۔ دنیا بھر میں لاکھوں کرونا اموات ہو چکی ہیں اور لاکھوں ہی کرونا کے مریض ہیں۔جن کی تعداد دن بدن بڑھتی جارہی ہے۔ نفسیاتی جنگ خطرناک بیماریوں سے زیادہ خطرناک ہوتی ہے۔ جس کے اثرات دیر پار ہتے ہیں۔ دنیا بھر میں ذہنی و نفسیاتی مسائل پیدا ہونے جارہے ہیں۔ معاشرہ اور معاشرتی پہلوؤں کو قائم رکھنے کیلئے خوف وہراس نہ پھیلا یا جائے اور میڈیا کرونا کی خبروں کو بار بار نشر نہ کرے۔ اس سے ذہنی تناؤ اور ڈپریشن میں اضافہ ہوتا ہے۔ اور خاص کر بلڈپریشر اور شوگر کے مریضوں کیلئے خیال رکھنا بہت ضروری ہے۔ اعصابی جنگ ایسی صورت حال میں جنم لیتی ہے۔ جو انسانی خلیوں کو کمزور کر دیتی ہے۔ لہذا کرونا کی دہشت کو روکنے کیلئے سوشل میڈیا کو بے لگا م نہیں چلنا چاہیے۔ پوری دنیا سے ویڈیو وائرل ہو رہی ہیں۔ اور گھر میں بیٹھے افراد اسکو سنے اور تحقیق کے بغیر آگے فاروڈ کر دتیے ہیں۔