تعلیم اور ہائرایجوکیشن کمیشن
تعلیم پاکستان میں کبھی حکومتوں کی ترجیح نہیں رہی۔پاکستان معرض وجود میں آیا تو ہمارا معاشرہ زیادہ تر دیہاتی تھا اور جاگیرداری کا تسلط تھا اِس لئے دیہات میں تعلیم کی روشنی بڑی دیر سے پہنچی۔ میرا اپنا پس منظر بھی دیہات اور زمینداری سے متعلق ہے۔ زمینداری میں عزت کی روٹی تو ملتی ہے اور ایک ظاہری شان و شوکت بھی، لیکن حقیقت یہ ہے کہ انسانی ذہن پسماندہ رہتا ہے، کیونکہ یہاں کے ماحول میں مکمل یکسانیت ہے نئے خیالات اور دنیا کے بدلتے ہوئے تقاضوں کے ادراک سے انسان محروم رہتا ہے۔ اگرچہ اب کچھ عرصے سے ماحول میں تبدیلی آ رہی ہے۔چند دہائیاں پہلے تک سیاست میں بھی زمیندار اور جاگیردار طبقہ کافی مضبوط حیثیت رکھتا تھا اُن کی ذہنی پسماندگی کے بارے میں بڑی باتیں مشہور ہیں۔ قدرت اللہ شہاب نے اپنی کتاب ”شہاب نامہ“ میں ایک واقعہ لکھا ہے کہ جب وہ کسی ضلع میں ڈپٹی کمشنر تھے تو ایک زمیندار اُن کے پاس آئے اور انہوں نے فرمائش کی کہ اُن کے سیاسی مخالف کے گاؤں میں سکول کھولا جائے،جس کا خرچہ بھی وہ دینے کے لئے تیار تھے مطلب یہ کہ تعلیم عام ہو گی تو اُس کے مخالف کی چوہدراہٹ کو یقینا زک پہنچے گی۔پیر محل کے قریب میرے آبائی علاقے میں پاکستان بننے سے پہلے سے سیاست پر مسلط ایک مخدوم اور ایک پیر صاحب کے خاندان کی تیسری نسل ہم بھگت رہے ہیں۔ ظاہر ہے تعلیم کی ترقی سے اُن کا کوئی واسطہ نہیں رہا،بلکہ اُن میں سے ایک کے کچھ واقعات تو خود میرے ساتھ گزرے خیربات کہیں اور نکل گئی۔
پاکستان بنا تو ہمارے وزیرتعلیم کا تعلق مشرقی پاکستان سے تھا عموماً تعلیم کی وزارت میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتا،لیکن بھارت کی خوش قسمتی دیکھیں کہ اُن کے پہلے وزیر تعلیم مولانا ابوالکلام آزاد تھے۔ بنگلہ دیش میں بیگم خالدہ ضیاء جب وزیراعظم بنیں تو انہوں نے تعلیم کا قلمدان اپنے پاس رکھا اور چند دن بعد ایک اہم اور بنیادی فیصلہ کیا کہ آئندہ پرائمری ایجویکشن میں کوئی مرد ٹیچر نہیں ہو گا اس کے نتیجے میں سکول ڈراپ آؤٹ ریٹ تقریباً ختم ہو گیا ورک فورس میں خواتین کی تعداد بڑھ گئی اور آبادی میں اضافے کی رفتار بھی کم ہو گئی آج بنگلہ دیش میں اس ایک فیصلے کے مثبت اثرات دیکھے جا سکتے ہیں۔ کاش ہم بھی تعلیم جیسے اہم شعبے کے بارے میں بعض بنیادی فیصلے پہلے کر لیتے۔
کتنے افسوس کی بات ہے کہ ہمارے ہاں کتنی حکومتیں آئیں سویلین اور فوجی لیکن کسی میں اتنا وژن نہیں تھا کہ وہ ملک کو آگے لے جانے کے لئے تعلیم کی اہمیت کو سمجھیں۔ آج ہمارا خواندگی کا تناسب تقریباً 58 فیصد ہے جو خطے میں سب سے کم ہے۔بھارت کا خواندگی کا تناسب 77.7 فیصد بنگلہ دیش کا 74.70 فیصد اور ایران کا 94 فیصد ہے۔ کیا اس شعبے میں ہماری پسماندگی مجموعی پسماندگی کی ایک وجہ نہیں؟ ہر حکومت وعدہ تو کرتی رہی کہ وہ تعلیم کا بجٹ بڑھائیں گے، لیکن کوئی وعدہ وفا نہ ہوا موجودہ حکومت تو بڑے بڑے دعوؤں کے ساتھ آئی تھی، لیکن 2019-20ء میں تعلیم کا بجٹ 2.3 فیصد ہے جو خطے میں سب سے کم ہے۔ اقوام متحدہ کی طرف سے طے شدہ Sustainable Goals کے حصول کے لئے یہ شرح 4 فیصد ہونی چاہئے تھی۔ ملک میں لٹریسی ریٹ، گراس انرولمنٹ کی شرح اور تعلیم کے بجٹ میں مناسب اضافہ دیکھنے میں نہیں آیا۔ پرائمری سکول میں ڈراپ آؤٹ ریٹ 22.7 ہے اب بھی تقریباً اڑھائی کروڑ بچے سکول نہیں جا رہے۔یہی وجہ ہے کہ 2019ء کی ہیومن ڈویلپمنٹ کی رپورٹ کے مطابق پاکستان 189 ممالک میں 152 نمبر پر ہے۔
اب تعلیم کا ذکر چھڑا ہے تو ہائر ایجوکیشن کمیشن کے بحران پر بھی بات ہو جائے جنرل پرویز مشرف کے دور میں ڈاکٹر عطاء الرحمن ہائر ایجوکیشن کمیشن کے چیئرمین رہے اُس زمانے میں کمیشن کا نام بدل کر یونیورسٹی گرانٹس کمیشن کی بجائے ہائر ایجوکیشن کمیشن رکھ دیا گیا اور خطیر فنڈز دیئے گئے۔ ڈاکٹر صاحب نے اِس پر زور دیا کہ زیادہ سے زیادہ لوگ پی ایچ ڈی کریں اور بہت سکالر شپ دیئے یہ الگ بات کہ سکالر شپ پر باہر جانے والوں میں کتنے واپس آئے۔ اُس زمانے میں بہرحال پی ایچ ڈی کی تعداد توکافی بڑھ گئی، لیکن معیار کچھ گِر گیا۔ اب ہائر ایجوکیشن کمیشن ایک بحران کا شکار ہو گیا ہے۔ اس کے چیئرمین ڈاکٹرطارق بنوری کو ہٹانے کے لئے کمیشن میں بہت سی تبدیلیاں کر دی گئی ہیں۔ چیئرمین کے عہدے کی مدت چار سال سے دو سال کر دی گئی ہے اور کمیشن کی خودمختاری ختم کرکے پہلے کی طرح وزارت تعلیم کا ایک ذیلی محکمہ بنا دیا گیا ہے۔ کیا یہ ترقی معکوس نہیں۔ایک طرف ہم اداروں کو مضبوط بنانے کی بات کرتے ہیں، لیکن عملی طور پر اسے برداشت نہیں کرتے۔
ایمبیسیڈر جاوید حفیظ نے ایک کالم میں ڈاکٹر طارق بنوری کے بارے میں جو کچھ بتایا ہے اس قسم کے اعلیٰ تعلیمی ریکارڈ رکھنے والے شخص کے ساتھ توہین آمیز سلوک بہت افسوسناک ہے۔ ممتاز کالم نگار ایاز امیر نے اِس پر ایک کالم لکھا ہے جس میں اس ساری صورت حال کے لئے ڈاکٹر عطاء الرحمن کو ذمہ دار ٹھہرایا ہے اُن کے پاس مصّدقہ معلومات ہوں گی۔ ڈاکٹر عطاء الرحمن نے ایک کالم کے ذریعے اپنا مؤقف بیان کیا ہے۔ ڈاکٹر صاحب بہت پڑھے لکھے آدمی ہیں، لیکن وہ اِس کے ساتھ ساتھ کافی ambitous آدمی ہیں۔ وہ اپنے شعبے تک محدود نہیں،بلکہ انہوں نے ماضی میں کئی کالم لکھے ہیں، جن میں انہوں نے ملک میں صدارتی نظام نافذ کرنے کی پُرزور وکالت کی ہے کیونکہ اِس میں ٹیکنو کریٹس کی خدمات حاصل کی جا سکتی ہیں حالانکہ موجودہ حکومت میں اُن سمیت ٹیکنوکریٹس کی خاصی تعداد موجود ہے، لیکن قومی زندگی میں اِس کے مثبت اثرات نظر نہیں آ رہے۔