کابینہ کا پہلا اجلاس
وزیراعظم شہباز شریف کی صدارت میں وفاقی کابینہ کا پہلا اجلاس ہوا،37رکنی کابینہ کی تشکیل سے مرکزی حکومت نے اپنے کام کا آغاز کر دیا ہے۔یہ ایک اتحادی حکومت ہے تاہم حکومتی اتحاد میں شامل بی این پی مینگل،اے این پی اور پی ٹی ایم ابھی تک کابینہ کا حصہ نہیں بنی۔ وزیراعظم شہباز شریف نے کابینہ کے پہلے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے پالیسی اور اہداف کے بارے میں ارکان کو آگاہ کیا۔پاکستان میں وسیع البنیاد حکومت کا یہ تجربہ کس حد تک کامیاب رہتا ہے،اس کا اندازہ تو وقت کے ساتھ ساتھ ہو گا،تاہم اس حکومت کے سامنے چیلنجز بہت بڑے ہیں۔سیاسی استحکام اور معاشی بہتری کے لیے بہت کام کرنے کی ضرورت ہے،چونکہ موجودہ حکومت اتحادیوں کی بدولت سادہ اکثریت پر کھڑی ہے اس لیے سب سے بڑا چیلنج تو یہی ہے کہ تمام اتحادی حکومت کے ساتھ رہیں،جو جماعتیں کابینہ میں شامل نہیں ہوئیں اُن کے تحفظات دور کر کے حکومت میں لانا بھی ازحد ضروری ہے تاکہ ایک مستحکم حکومت قائم ہو سکے اور خطرے کی تلوار نہ لٹکتی رہے۔پاکستان میں ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ ایک وزیراعظم کو تحریک عدم اعتماد کے ذریعے ہٹا کر حکومت بنائی گئی ہے۔ ایک طرف اس کے خلاف سابق برسر اقتدار جماعت سڑکوں پر ہے اور دوسری طرف عوام حکومت کی طرف دیکھ رہے ہیں۔37رکنی کابینہ کے ہر وزیر کو یہ سمجھنا چاہیے کہ اس کے پاس وقت کم ہے اور مقابلہ سخت ہے۔اگر عوام کو اس حکومت کے آنے سے تبدیلی کا احساس نہیں ہوتا تو انہیں پچھلی حکومت کا گھر بھیجنا زیادہ تکلیف دے گا۔وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے وہ پنجاب سپیڈ کی طرح پاکستان سپیڈ متعارف کرائیں گے،تاہم اصل سوال یہ ہے انہوں نے جو کابینہ بنائی ہے کیا وہ بھی اُن کا اسی طرح ساتھ دے سکے گی۔خراب معاشی حالات کیسے ٹھیک ہوں گے؟عوام کو کیسے ریلیف ملے گا؟ سیاسی استحکام کیسے آئے گا؟ خارجہ پالیسی کے خدوخال کیا ہوں گے؟ دہشت گردی کا جو عفریت سر ابھار رہا ہے اور آئے روز ہمارے فوجی جوانوں کو اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر کے اُسے ناکام بنانا پڑتا ہے،اُس کا سدباب کیسے ہو گا؟بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی طرف سے وزیراعظم کو تہنیت کا خط تو آ گیا ہے کیا اس حوالے سے دوطرفہ مذاکرات کی کوشش بھی کی جائے گی؟ افغانستان کے ساتھ بارڈر مینجمنٹ میں کیسے بہتری لائی جائے گی؟ آئی ایم ایف کے ساتھ کن شرائط پر معاملات طے ہوں گے؟صوبوں کے درمیان اور صوبوں اور مرکز کے تعلقات میں کن خطوط پر کام کیا جائے گا؟ غرض بہت سے معاملات ہیں جن پر اتحادی حکومت کو کام کرنا ہے۔سب سے اہم بات یہ ہے کہ ملک میں داخلی استحکام لانا ہے۔
اِس وقت تو یہ صورتِ حال ہے کہ تحریک انصاف نئے انتخابات کے لیے سڑکوں پر ہے،،قومی اسمبلی سے اُس کے ارکان نے استعفے دے دیئے ہیں،وہ اس نظام میں دوبارہ واپس آنے کو تیار نہیں،اتحادی حکومت کی اندروی حالت یہ ہے کہ بعض آئینی عہدوں کے حوالے سے اتفاق رائے پیدا نہیں ہو رہا، ابھی تک خالی ہونے والے گورنروں کے عہدے پُر نہیں کئے جا سکے۔ڈالر ایک بار پھر اوپر جا رہا ہے۔تحریک انصاف کی سب سے بڑی ناکامی یہ تھی کہ وہ مہنگائی پر قابو نہیں پا سکی تھی، اس کی وجہ سے اُس کی مقبولیت میں کمی کا رجحان تھا۔اگر سازشی خط کی تھیوری نہ ہوتی تو شاید حکومت کے جانے پر لوگ سُکھ کا سانس لیتے،تاہم موجودہ حکومت کے لیے سب سے بڑا چیلنج یہ ہے وہ مہنگائی کے گراف کو نیچے لائے۔ وزیراعظم شہباز شریف نے ماہ رمضان کے باقی ماندہ دِنوں کے لئے آٹے اور چینی کی خریداری میں ایک ریلیف پیکیج متعارف کرایا ہے،اس سے پہلے انہوں نے مزدور کو کم ازکم اجرت25ہزار اور پنشن میں 10فیصد اضافہ کر کے اچھے فیصلے کیے۔ اس شعبے میں کرنے کا اصل کام یہ ہے کہ حکومت صوبائی حکومتوں کے ساتھ مل کر ناجائز منافع خوری کو روکے۔ تحریک انصاف حکومت کی سب سے بڑی ناکامی یہ تھی کہ وہ ذخیرہ اندوزوں،مافیاز اور ناجائز منافع خوروں پر ہاتھ نہیں ڈال سکی تھی، جس کے باعث مہنگائی کا گراف اوپر ہی جاتا رہا،پچھلے دِنوں وزیراعظم شہباز شریف دیامر بھاشا ڈیم کے کام کا جائزہ لینے موقع پر گئے تو انہوں نے وہاں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جس منصوبے کا بھی جائزہ لیتے ہیں،خرابی دیکھ کر دِل کڑھتا ہے۔اب اُن کے پاس اچھا موقع ہے کہ اپنی کابینہ کے ارکان کو اپنے اپنے محکمے کے تحت جاری منصوبوں کا جائزہ لینے کی ذمہ داری سونپیں،جہاں کہیں خرابی یا کوتاہی ہے اُسے ٹھیک کریں۔ماضی کو کوستے رہنے سے بات نہیں بنے گی،موجودہ حکومت کو کارکردگی دکھانی ہو گی۔گورننس، معیشت اور سیاست، تین ایسے شعبے ہیں جن میں حکومت بہتری لا کر ملک کو آگے لے جا سکتی ہے۔کوئی معیشت اُس وقت تک بہتر نہیں ہو سکتی،جب تک ملک میں سیاسی استحکام نہ ہو۔سیاسی استحکام کے لیے ضروری ہے کہ جہاں حکومت میں شامل اتحادی باہم شیر و شکر رہیں، وہاں اپوزیشن سے بھی تعلقات کار میں بہتری لائی جائے۔ سابق وزیراعظم نے اپوزیشن کے ساتھ تعلقات کو اہمیت نہیں دی،جس کا نتیجہ انہیں بھگتنا پڑا۔ وزیراعظم شہباز شریف کو یہ راستہ نہیں اپنانا چاہیے۔انتخابی اصلاحات، الیکشن کے انعقاد، نیب اور الیکشن کمشن کے حوالے سے وسیع تر مشاورت کی ضرورت ہے۔دعا کرنی چاہیے کہ وسیع النیاد اتحادی حکومت لوگوں کے اعتماد پر پورا اترے،اور بہتر روایات قائم کر سکے۔