کیا آئینی اور کیا غیر آئینی؟ یہ بھی عدالت بتا دے گی!

 کیا آئینی اور کیا غیر آئینی؟ یہ بھی عدالت بتا دے گی!
 کیا آئینی اور کیا غیر آئینی؟ یہ بھی عدالت بتا دے گی!

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


 پنجاب میں حمزہ شہباز شریف کی حلف برداری کا معاملہ لٹک گیا اور اب فیصلہ عدالت عالیہ سے لینے کے لئے رجوع کیا گیا، وہاں ان کو رجسٹرار کی طرف سے اعتراضات کی مشکل پیش آ رہی ہے اور اب ان کو اپنی درخواست تیسری دفعہ دائر کرنا ہوگی یا پھر عدالت عالیہ سے ہی رجوع کرکے یہ اعتراضات ختم کرانا ہوں گے۔ گزشتہ روز دائر کی گئی درخواست پر جو اعتراض لگایا گیا، وہ یہ تھا کہ گورنر کو پارٹی کیوں بنایا گیا؟ میرے اور میرے قانون دان دوستوں کو بھی اس پر حیرت ہوئی کہ اگر درخواست میں گورنر فریق نہ ہوں گے تو فیصلہ کیا اور کسے فریق بنانا ہوگا کہ شکائت تو گورنر ہی سے ہے۔ ممکن ہے کہ خبر میں کوئی "Error" ہو اور اعتراض اور بھی ہو، بہرحال یہ تنازعہ بھی عدالت عالیہ ہی کو نمٹانا ہے کہ وزیر اعلیٰ کا انتخاب اسی عدالت کے حکم ہی کے تحت ہوا تھا۔


جہاں تک حالات حاضرہ کا تعلق ہے تو افسوس ہوتا ہے کہ جن حضرات کے ہاتھ میں عوام کی تقدیر دے دی گئی ان کا حال یہ ہے کہ وہ آئین و قانون کی پرواہ کئے بغیر من مرضی کے فیصلے اور کام کرتے چلے جا رہے ہیں، اس حوالے سے حیرت ہوتی ہے کہ آئین کی منشاء کے خلاف صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی بااختیار (چودھری فضل الٰہی نہیں) ہو گئے اور انہوں نے ایک طرف تو پہلے وزیراعظم اور پھر کابینہ سے حلف نہ لیا اور وزیراعظم کی یہ ”ایڈوائس“ بھی التوا میں ڈال دی کہ پنجاب کے گورنر عمر سرفراز چیمہ کو ہٹا دیا جائے کہ انہوں نے وزیراعلیٰ کے حلف سے انکار کر کے آئینی بحران پیدا کیا اور مزید کر رہے ہیں۔ آئین کے مطابق صدر اب وزیراعظم کی ”سفارش“ کے پابند ہیں اور ماضی کے پونے چار سال گواہ ہیں کہ انہوں نے کبھی کسی ایسے آرڈیننس پر دستخط کرنے سے بھی انکار نہیں کیا جو ایوان میں پیش ہونا چاہیے تھا، حتیٰ کہ صدر محترم ہی کی ہدایت پر ان کے دفتر سے مسٹر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس بھیجا گیا اور صدارتی ایوان ہی سے آرٹیکل 63-A کی تشریح کا ریفرنس عدالت عظمیٰ کے فل بنچ کے روبرو ہے جس کی سماعت ہو رہی ہے اور فاضل جج حضرات کی طرف سے عدالتی فیصلوں پر بے ہودہ تنقید کا بھی نوٹس لیا گیا ہے، اس کے باوجود یہ سلسلہ جاری ہے، حتیٰ کہ تحریک انصاف کے سابق وزراء بھی محتاط طریقے سے کہتے ہیں کہ عدلیہ کو سیاسی معاملات سے الگ رہنا چاہیے۔ وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ قاضی فائز عیسیٰ ریفرنس کے حوالے سے ان کے رہنما اور قائد بے مثل اب اس ریفرنس کا ملبہ کسی اور طرف منتقل کر رہے ہیں اور کسی لحاظ کے بغیر انہوں نے اصل ذمہ داری اسٹیبلشمنٹ پر منتقل کی، جیسے انہوں نے چیف الیکشن کمشنر کی تعینات پر بھی یہی رویہ اختیار کیا، حالانکہ خود ان کے اپنے رہنماؤں نے ہی تردید کر دی اور وضاحت کی۔
قارئین! میں نے ہمیشہ ایسے معاملات پر تحریر سے اجتناب کیا حالانکہ میرے پاس بھی مصدقہ اطلاعات موجود ہیں۔ تاہم میں چونکہ قومی مفاہمت کا قائل اور داعی ہوں اس لئے ایسے امور سے دور رہتا ہوں، ورنہ محترم عمران خان صاحب کی طرف سے ایمپائر کی انگلی سے ایک صفحہ اور یکجہتی کے اعلانات اب بھی محفوظ ہیں اور بعض ٹی وی چینل کلپس دکھاتے، سنواتے رہتے ہیں۔ دکھ یہ ہے کہ اب اس قومی سلامتی کے ادارے پر جو اعتراضات ہو رہے ہیں اور جس نوعیت کے الزام عائد کئے جا رہے ہیں، ان سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ ”تم ہمارا ساتھ دو، ورنہ؟“ والی بات ہے۔


عمران خان صاحب آج (جمعرات) رات مینار پاکستان پر جلسہ عام سے خطاب کریں گے۔ تحریک انصاف نے اس جلسے کے لئے بھرپور تیاری کی۔ اس سے پہلے کپتان نے پشاور اور کراچی کے جلسوں سے فضا بھی بنائی ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ یہ جلسہ سابقہ ریکارڈ توڑ دے گا، میں یہ تو یقین رکھتا ہوں کہ یہ جلسہ بھی یقینا بڑا ہوگا، لیکن کوئی نیا ریکارڈ نہیں بنے گا، وجہ یہ کہ شاید ”فرشتوں“ کی حاضری بہت کم ہو کہ جو آئیں گے وہ اپنی پسند کے مطابق حاضری دیں گے کسی ہدائت کے تحت نہیں، اس حوالے سے عرض کروں کہ ہمارے پیر علی مردان شاہ پیر آف پگارو فرشتوں کا ذکر کرتے تھے تو کسی کو سمجھ نہیں آتی تھی۔ اگرچہ ان کا اشارہ واضح ہوتا تھا، اب تو ہمارے بعض کرم فرماؤں نے گیریژن دربار اور اپنی معلومات کے حوالے سے یہ راز بھی فاش کر دیا ہے کہ اس خاکی دنیا خصوصاً  پاکستان میں فرشتوں کا وجود موجود ہے، جو انتخابات جتوانے میں بھی معاونت کرتا ہے، یہ موضوع الگ ہے۔ اتنا اشارہ ہی کافی ہے کہ اب ”فرشتے“ کسی نظم کے تحت نہیں۔ ذاتی مرضی سے فرصت ہوگی تو شرکت کر سکیں گے۔


میرے نزدیک وفاق کے بعد پنجاب میں جو کچھ ہوا، وہ نہیں ہونا چاہیے تھا، ڈپٹی سپیکر نے عدالت عالیہ کے حکم کے مطابق وزیراعلیٰ کے انتخاب کا انعقاد کیا کہ سپیکر چودھری پرویز الٰہی تو خود امیدوار تھے، لیکن جو کچھ ایوان میں ہوا، وہ بہت افسوسناک ہے اور اب تو ایوان میں ہونے والے ہنگامے، لوٹوں کا لانا اور غیر متعلقہ تربیت یافتہ حضرات کو مہمانوں کی گیلری میں بھیجنا اور ان کا اوپر سے کود کر ہنگامے میں کردار ادا کرنے والے تمام سین سی سی فوٹیج میں قید ہیں جو اتنی واضح ہیں کہ ان سے انکار مشکل تو کیا ممکن نہیں ہوگا اس لئے سیاسی بحران پیدا کرنا درست نہیں۔محترم صدر مملکت کے بعد گورنر پنجاب نے بھی اہم کردار ادا کیا۔ نہ صرف حلف سے باقاعدہ انکار کیا بلکہ انتخاب کو بھی غیر قانونی قرار دے دیا،اس کے علاوہ انہوں نے ایک ایسا تنازعہ بھی پیدا کیاجو خود انہی کے گلے پڑے گا ان کے مطابق سابق وزیراعلیٰ سردار عثمان بزدار کا استعفیٰ قانون و قواعد کے مطابق نہیں تھا، دوسرے معنوں میں ان کی تشریح کے مطابق سردار عثمان بزدار وزیراعلیٰ ہیں لیکن وہ بھول گئے کہ اب تک پلوں کے نیچے سے کتنا پانی بہہ چکا، خود وفاقی حکومت کی ہدائت پر سابق گورنر محمد سرور نے استعفیٰ منظور کیا۔ اس کے بعد وزیراعلیٰ کے انتخاب تک کئی مراحل آئے، حتیٰ کہ عدالت عالیہ میں شنوائی ہوئی۔ ہر جگہ سابق حکومت اور وزیراعلیٰ ہی قرار پائے کہ جب مسلم لیگ ن نے اعتراض کیا تو تحریک انصاف کی حکو مت نے دفاع کیا، حتیٰ کہ سردار عثمان بزدار خود درجنوں بار یہ اقرار کر اور کہہ چکے ہیں کہ انہوں نے قائد کے حکم پر استعفیٰ  دیا اور اب وہ عہدہ چھوڑ چکے ہیں، میری درخواست  ہے کہ محترم پھر سے عدالتی حکم کے منتظر نہ رہیں کہ فیصلہ آیا تو پریشانی ہوگی اور آپ سب عدلیہ کو الزام دیں گے۔ میری درخواست کہ بہتر عمل یہ ہے کہ اب بھی مذاکرات کا عمل شروع کرکے فیصلے کر لئے جائیں قوم کو اندھی نفرت کے تحت تقسیم نہ کریں۔

مزید :

رائے -کالم -