آج اقبال کا یومِ وفات بھی ہے!

جو قومیں تاریخ سے سبق نہیں لیتیں، وہ عالمی تاریخ کا ایک بھولا بسرا باب بن جاتی ہیں ……
ہمارے برصغیر کے ساتھ یہی کچھ ہوا ہے۔ محمد بن قاسم کے حملے (711ء)کے بعد تین سو سال گزر گئے۔ عربوں نے دیبل فتح کیا اور سارے سندھ کو روندتے ہوئے ملتان تک چلے گئے۔ کسی مورخ نے یہ نہیں لکھا کہ ملتان کی فتح یا اس پر قبضے کے بعد مسلم فتوحات کا یہ سلسلہ کیوں رک گیا تھا۔ میرے خیال میں اس کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ کراچی سے ملتان تک جو علاقہ پھیلا ہوا تھا اس کے باسیوں میں آزادی اور غلامی کا کوئی تصور نہیں تھا۔ ان علاقوں کے غیر مسلم باشندے اتنے غبی، کند ذہن اور ناقص العقل تھے کہ ان کو غیر ملکی حملہ آوروں کے سامنے مزاحمت کرنے والا اور ڈٹ جانے والا کوئی ایسا مقامی سردار، راجہ اور لیڈر نہ ملا جو یہ کہتا کہ یہ عرب جو ہم پر حملہ آور ہوئے ہیں ان کو اپنے علاقوں سے بھگا دینا چاہیے۔ اس دور کے سندھی باشندوں کی ذہنیت جذبہء آزادی کی خوگر نہیں تھی اس لئے وہ جوق در جوق غلامی کا طوق اپنے گلے میں ڈالتی چلی گئی۔ آزادی خون مانگتی ہے اور جس قوم میں آزاد ہونے کا جذبہ سرد ہو جائے وہ کسی غنیم / حملہ آور کے سامنے کھڑی نہیں ہو سکتی۔
کل ساحلِ دریا پہ کہا مجھ سے خضر نے
تو ڈھونڈ رہا ہے سمِ افرنگ کا تریاق
اک نکتہ مرے پاس ہے شمشیر کی مانند
برّندہ وصیقل زدہ و روشن و براّق
کافر کی یہ پہچان کہ آفاق میں گم ہے
مومن کی یہ پہچان کہ گم اس میں ہیں آفاق
محمد بن قاسم کے حملے کے بعد تین صدیوں تک سندھ میں کوئی ایسا دانشور پیدا نہ ہوا جو سندھی قوم کو درسِ خود داری دیتا اور غلامی اور آزادی میں تفریق کرنے کا شعور عطا کرتا۔ ہم اہلِ پاکستان کو معلوم ہے کہ شاعرِ مشرق نے جب برصغیر کے مسلمانوں کو خواب غلامی سے جگانے کا بیڑا اٹھایا تو اس جذبے کی تشریح و تعبیر کے لئے ہزار انداز سے تشہیر کی تھی۔ ان کے یہ اشعار دیکھئے:
آگ اس کی پھونک دیتی ہے برنا و پیر کو
لاکھوں میں ایک بھی ہو اگر صاحبِ یقیں
تو اپنی سرنوشت اب اپنے قلم سے لکھ
خالی رکھی ہے خامہ ء حق نے تری جبیں
بالائے سر رہا تو ہے نام اس کا آسماں
زیرِ پر آ گیا تو یہی آسماں، زمیں
ہمیں تسلیم کرنا پڑے گا کہ اگر علامہ اقبال آزادی اور غلامی کے فرق کا یہ ڈھنڈورہ نہ پیٹتے تو اکیلے قائداعظم قیامِ پاکستان کی منزلِ مراد سر نہ کر سکتے اور اقبال نے آزادی کی جو شمع جلائی تھی وہ ایک قلیل مدت میں شعلہء جوّالہ نہ بن سکتی۔
محمد بن قاسم کے بعد تقریباً 300سال تک کوئی اور حملہ آور مغرب کی طرف سے نہ آیا بلکہ سلطان محمود غزنوی نے 997ء میں درۂ خیبر کی راہ پشاور سے گزر کر لاہور پر حملہ کیا۔ اس کے بعد اس نے یکے بعد دیگرے 17حملے کئے اور آخری حملہ سومنات پر (1023ء) کیا۔ لیکن اس کی وفات کے بعد اس وسیع و عریض برصغیر پر غزنویوں کی حکومت صرف پنجاب تک محدود رہی۔
پھر تقریباً پونے دو سو سال اور گزر گئے۔ 1192ء میں درۂ خیبر ہی کی راہ ایک اور حملہ آور آیا۔ اس کا نام شہاب الدین محمد غوری تھا۔ ترائن (نزد دہلی) کے میدان میں اس کا مقابلہ ایک ہندو راجہ (پرتھوی راج) سے ہوا لیکن شکست کھائی اور واپس چلا گیا۔ اگلے برس 1193ء میں دوبارہ دہلی پر حملہ کیا۔ یہ لڑائی بھی ترائن (یا تراوڑی) کے میدان میں ہوئی جس میں پرتھوی راج کو شکست ہوئی۔ غوری واپس تو چلا گیا لیکن اپنے ایک ماتحت کمانڈر قطب الدین ایبک کو چھوڑ گیا۔ قطب الدین، غوریوں کا ایک غلام تھا۔ اس دور میں غلام کا مفہوم عسکری اصطلاح میں وہ نہیں تھا جو بعد میں ہمارے ہاں مستعمل ہوا…… یہیں سے برصغیر پر مسلم حکمرانی کا آغاز ہوا جو مسلسل 1857ء تک چلتا رہا۔ خاندانِ غلاماں کے بعد ہندوستان پر جو دوسرے خاندان حکمران ہوئے وہ درج ذیل تھے:
1۔ خاندان خلجی
2۔خاندان تفلق
3۔خاندان لودھی
4۔خاندان مغلیہ
مغلوں کا خاتمہ 1857ء میں ہوا۔ یعنی 711ء میں جو سلسلہ مسلمانوں کی فتح سندھ سے شروع ہوا تھا اس کا خاتمہ تقریباً 1150سال بعد ہوا۔ درمیان میں کئی وقفے بھی آئے۔ لیکن اس طویل دور میں ہندوستان کے باسیوں کا مزاج غلامانہ ہی رہا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ہندوستان میں مسلمان قوم نہ تو عرب سے آئی اور نہ افغانستان کی ریاست غزنی و غور سے آئی۔ جو لوگ مسلمان ہوئے ان کی اکثریت اُن نو مسلموں پر مشتمل تھی جو مسلم حکمرانوں کے ڈر سے یا ان اولیائے کرام کی تبلیغ کی وجہ سے وجود میں آئی جو مسلم حکمرانوں کے ساتھ یا ان کے بعد واردِ ہندوستان ہوئی۔ تاریخ گواہ ہے کہ حضرت داتا گنج بخشؒ سے لے کر حضرت نظام الدینؒ اولیاء تک جتنے بھی خدا کے برگزیدہ بندے (اولیائے عظام) تھے وہ مسلم حکمرانوں سے پہلے یہاں نہیں آئے۔ مسلم حملہ آوروں نے پہلے کفرستانِ ہند پر فوجی حملہ کیا اور اس حملے کے بعد ان اولیائے نے ”دینی اور اخلاقی حملہ“ کیا۔ یہ دورِ وعظ و تبلیغ، دورِ حرب و ضرب کے بعد واردِ ہند ہوا، اس سے پہلے نہیں۔ دوسرے لفظوں میں اس کی مثال آنحضورؐ کے مکی اور مدنی ادوار سے دی جا سکتی ہے۔مکی دور آنحضورؐ کا تبلیغی دور تھا اور مدنی دور، وعظ و تبلیغ کے ساتھ جنگ و جدال (غزوات و سریات) کا دور بھی تھا۔
مجھے معلوم ہے میرے اس استدلال پر قارئین کرام کا ایک طبقہ معترض ہوگا۔ ان کا اغراض اور تنقید سر آنکھوں پر لیکن میرے ایمان کی کتاب میں جنگ پہلے ہے اور تبلیغ بعد میں …… حضرت اقبال کا یہ شعر اسی نکتے کی واشگاف تفسیر کرتا ہے:
کر سکتی ہے بے معرکہ جینے کی تلافی
اے پیرِ حرم تیری مناجاتِ سحر کیا؟
میں ایک عرصے سے یہ کہتا چلا آیا ہوں کہ تحریکِ پاکستان میں ہمارا کردار (یعنی مسلمانانِ برصغیر کا کردار) ”بامعرکہ“ نہیں تھا، ”بے معرکہ“ تھا۔ ہم نے انگریزوں کو برصغیر سے نہیں نکالا، اوڈولف ہٹلر نے ہم پاکستانیوں کی بالواسطہ مدد کی، لیکن برطانوی افواجِ قاہرہ کی کمر توڑی اور ان کو مجبور کیا کہ وہ اپنی نو آبادیوں کو چھوڑ کر اپنے جزائر (انگلینڈ، سکاٹ لینڈ، ویلز اور آئر لینڈ) تک محدود ہو جائیں۔ 20ویں صدی کی دونوں عالمی جنگوں میں ہندوستان کے مسلمانوں کا کردار ایک ماتحت کردار (Subordinate Role) تھا۔ (ہندوؤں اور سکھوں کا بھی یہی حال تھا)۔ ہندوستان کے مشرق (برما) اور مغرب (عراق) میں یہ جنگ ہوئی لیکن ہندوستان کی سرحدات کے اندر کوئی جنگ نہ ہوئی۔ یہی وجہ تھی کہ 1945ء میں جب جنگ عظیم دوم کا خاتمہ ہوا تو برٹش انڈین آرمی کی تعداد 25لاکھ تھی جس کی اکثریت کو موقوف (Disbaned) کر دیا گیا۔ اگست 1947ء میں جو فوج پاکستان کے حصے میں آئی وہ ایک غلام ہندوستان کی بدیشی فوج تھی جو نام کی مسلمان تھی اور عشروں تک اہلِ فرنگ کی ماتحتی میں رہی تھی۔
اگست 1947ء کے بعد اس پاک فوج نے آزادی کی جو منازل طے کیں وہ حیران کن ہیں اور باعثِ صد ستائش بھی ہیں اور یہ انہی کا صدقہ ہے کہ ہم اپنے سے 5،6 گنا بڑے دشمن کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے ہوئے ہیں۔ لیکن یہ بات افسوسناک ہے کہ ہماری سول آبادی کی اکثریت کے خمیر میں وہی غلامانہ ذہنیت رچی بسی ہوئی ہے جو 1947ء سے پہلے کے ادوار (مسلم اور برٹش) میں تھی۔ ہمیں اس ذہنیت سے باہر نکلنا ہے، غلامی کی اس اپروچ کا سدباب کرنا ہے اور آج لاہور میں سابق وزیراعظم کا جو جلسہ ء عام ہے اس میں عمران خان کے اس پیغام کا ادراک کرنا ہے جو وہ ببانگِ دہل دے رہا ے۔ یہ پراسس آسان نہیں، یہ مشکل مرحلہ ہے اور اس مرحلے سے گزرنے کے لئے ہمیں جان و مال کی قربانی بھی دینی پڑے تو اس کے لئے تیار رہنا پڑے گا۔ از راہِ اتفاق آج اقبال کا یومِ وفات بھی ہے۔ اس کو ایک بار پھر یاد کر لیتے ہیں۔ اس نے اپنی نسلِ نو سے مخاطب ہو کر کہا تھا:
خدا تجھے کسی طوفاں سے آشنا کر دے
کہ تیرے بحر کی موجوں میں اضطراب نہیں
ہم نام کے آزاد ہیں اور ’کام‘ کے ہنوز غلام ہیں۔ اب ہمیں اس غلامی سے باہر نکلنے کی جدوجہد کرنی ہوگی!