پاکستانی ایک سال میں 120ارب روپے کی اینٹی بائیوٹک کھاگئے
لاہور (جاوید اقبال) پاکستان میں اینٹی بائیوٹک ادویات کا غیر ضروری استعمال جگر اور گردوں کے فیل ہونے کا باعث بننے لگا ہے یہ خوفناک رحجان جگر اور گردے کے امراض میں اضافے اور دوسری طرف انسانوں میں مختلف امراض پیدا کر رہا ہے اس بات کا اندازہ اس رپورٹ سے لگایا جاسکتا ہے کہ پاکستان کے عوام نے گزشتہ سال بارہ ماہ میں کل 120 ارب روپے کی اینٹی بائیوٹک ادویات کا استعمال کیا۔جن میں سے 70 فیصدلوگوں نے خود ڈاکٹر بن کر اپنے طور پر اینٹی بائیوٹک ادویات غیر ضروری طور پر استعمال کیں اس حوالے سے امریکہ کی ہیلتھ کیئر ڈیٹا کمپنی اور ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی آف پاکستان (ڈریپ) سے حاصل شدہ اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں 2021ء میں اینٹی بائیوٹکس کے استعمال میں غیرمعمولی اضافہ دیکھا گیا ہے۔دوسری جانب انفیکشیئس ڈیزیزز ایکسپرٹس کے مطابق مریضوں کی طرف سے استعمال کی جانے والی 70 فیصد سے زیادہ اینٹی بایوٹکس غیرضروری تھیں۔ اس حوالے سے نور مہر فارماسوٹیکل لیگل ایکسپرٹ صدر پاکستان ڈرگ لائرز فورم سے بھی بات کی گئی ان سے ملنے والے اعداد و شمار کے مطابق صرف سال 2021ء میں پاکستان میں ایک کھرب 19ارب 74کروڑ 51لاکھ 22ہزار 879روپے کی ٹیبلیٹس اور اینٹی بایوٹک انجیکشنز استعمال کئے گئے جو کہ پاکستان میں صحت پر ہونیوالے کْل اخراجات کا تقریباً 10 فیصد ہے۔ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی آف پاکستان (ڈریپ) کے مطابق پاکستان میں اینٹی بایوٹک ادویات کے تقریباً 333 مینوفیکچررز ہیں جوکہ اورل اور انجیکٹ ایبل کے 87 مالیکیولز (جینیرک اینٹی بایوٹک ادویات) تیار کرتے ہیں، ان 333 مینوفیکچررز کے پاس 2 ہزار 13 اینٹی بایوٹک ادویات ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی آف پاکستان کے ساتھ رجسٹرڈ ہیں، جن میں سے ایک ہزار 604 اس وقت مارکیٹ میں دستیاب ہیں۔ جبکہ آغا خان اسپتال میں انفیکشیئس ڈیزیز ایکسپرٹ ڈاکٹر فیصل محمود کے مطابق گزشتہ سال (2021) ایک منفرد سال تھا، جب پاکستان سمیت پوری دنیا میں اینٹی بایوٹکس کے استعمال میں غیرمعمولی اضافہ دیکھا گیا، پاکستان میں کورونا وباکے دوران 95 فیصد سے زیادہ مریضوں نے اینٹی بایوٹک ادویات استعمال کیں حالانکہ اینٹی بایوٹک ادویات کا کرونا وائرس کے مرض کے علاج میں کوئی کردار نہیں تھا۔اس سلسلے میں ینگ فارماسسٹ فیڈریشن آف پاکستان کی صدر ڈاکٹر جمیلہ انجم سے بات کی گئی تو انہوں نے کہا کہ اس وقت ہمیں ادویات کیخلاف مزاحمت کرنے والے بیکٹیریا کے مسئلے کا سامنا ہے، جن کیخلاف یا تو ہمارے پاس کوئی دوا موجود نہیں یا محدود آپشنز دستیاب ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں اینٹی بایوٹکس کا انتہائی غلط استعمال ہورہا ہے۔پاکستان سوسائٹی آف ہیلتھ سسٹم فارماسسٹ کے صدر اور آغا خان اسپتال کی فارمیسی کے سابق سربراہ ڈاکٹر عبداللطیف شیخ نے بتایا کہ پاکستان کے ڈرگ قوانین کے مطابق صرف ایک مستند فارماسسٹ ہی کسی فارمیسی میں اینٹی بایوٹکس فراہم کرنے کا مجاز ہے، لیکن بدقسمتی سے ملک میں شاید ہی ایک یا دو فیصد فارمیسیز کے پاس اپنے کاروباری اوقات کے دوران تربیت یافتہ اور مستند فارماسسٹ دستیاب ہیں، دنیا میں کہیں بھی فارمیسی اور میڈیکل اسٹور اس طرح نہیں چلتے جس طرح ہمارے ملک میں چل رہے ہیں۔چیف ایگزیکٹو ڈریپ آفیسر عاصم رؤف نے بتایا کہ وہ صوبوں کی مشاورت سے ملک میں کامن کوالٹی مینجمنٹ سسٹم متعارف کرانے کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ اینٹی بائیوٹکس کے ساتھ ساتھ دیگر ادویات کے غلط استعمال کو روکا جاسکے، اس سلسلے میں ان کی صوبائی نمائندوں سے پہلی ملاقات ہوچکی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ پورے ملک میں فارمیسیوں کیلئے اسٹینڈرڈ آپریٹنگ پروسیجرز (ایس اوپیز) تیار کرنے کی منصوبہ بندی کررہے ہیں اور آخری صارفین تک ادویات کی تقسیم، ذخیرہ کرنے اور تقسیم کرنے کے اچھے طریقے متعارف کرانا چاہتے ہیں۔عاصم رؤف نے مزید کہا کہ ملک کی ہر فارمیسی میں تربیت یافتہ اور مستند فارماسسٹ کی موجودگی کو یقینی بنایا جائے گا تاکہ خود ادویات اور نسخے کی دوائیوں کے غلط استعمال کو روکا جا سکے، میڈیکل اسٹورز اور فارمیسیوں پر تربیت یافتہ اور مستند فارماسسٹ کی موجودگی سے نا صرف اینٹی بایوٹک اور دیگر نسخے والی ادویات کے غلط استعمال کو روکا جاسکتا ہے بلکہ فارماسسٹ مریضوں کو رہنمائی فراہم کرسکتا ہے کہ انہیں کب، کونسی دوا کتنی مقدار میں لینی چاہئے۔
اینٹی بائیوٹک