سقراط کی تعلیمات کی بنیاد ” اپنے آپ کو جانو “ اور ”اصل نیکی علم ہے “

سقراط کی تعلیمات کی بنیاد ” اپنے آپ کو جانو “ اور ”اصل نیکی علم ہے “
سقراط کی تعلیمات کی بنیاد ” اپنے آپ کو جانو “ اور ”اصل نیکی علم ہے “

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

مصنف :ملک اشفاق
قسط: 36 
 سقراط کی تعلیمات کی بنیاد اور اس کی زندگی کا فلسفہ ان 2 زریں اقوال کے گرد گھومتا ہے۔
”اپنے آپ کو جانو“۔"Know yourself"
”اصل نیکی علم ہے“Virtue is real knowledge
سقراط کو اس لحاظ سے بھی اہمیت حاصل ہے کہ اس نے دنیا کی ذہنی تاریخ میں سب سے پہلے صحیح طریق علم دریافت کیا اور اسے انفرادی اور اجتماعی زندگی کے مسائل کے حل کےلئے استعمال کیا لیکن اس کی اصل عظمت اس کا بے مثل کردار اور سیرت ہے۔ اس کی شخصیت کا جو زبردست اثر اس کے ہم عصروں پر پڑتا تھا۔ اس کا اندازہ بزم طرب میں الکے بیاڈیس کی تقریر سے ہوتا ہے۔ وہ کہتا ہے۔
” میں نے اکثر پیری کیلس اور دوسرے بہترین خطیبوں کو سنا ہے لیکن وہ کبھی میری روح کی گہرائیوں میں وہ تلاطم پیدا نہ کر سکے جو سقراط نے پیدا کیا۔ اس نے تو اکثر مجھے حقیقت اور سچائی کا آئینہ اتنے قریب سے دکھایا کہ میں اپنی موجودہ زندگی پر انتہائی نادام ہوا، لیکن میں یہ جانتا ہوں کہ اگر میں نے اس کی باتوں کی طرف سے کان بند نہ کیے تو میرا بھی وہی انجام ہوگا جو اوروں کا ہوا ہے۔“
اس طرح الکے بیاڈیس نے سقراط کی فرض شناسی، جفاکش، استقلال و پامردی کی حیرت انگیز مثالیں بیان کی ہیں۔
 سقراط کی اخلاقی جرا¿ت کا اندازہ اس بات سے ہوتا ہے کہ اس نے ایتھنز کی اسمبلی کے صدر کی حیثیت سے سارے شہر کے غیض و غضب کا تنہا مقابلہ کیا اور ایک ناجائز تجویز منظور کرنے سے انکار کر دیا۔
 سقراط کی مجاہدانہ اور حق پرست زندگی کی معراج، سقراط کا واقعہ شہادت ہے۔ 399 ق م میں اہل ایتھنز کی جیوری جو 500 افراد پر مشتمل تھی۔ 3 اشخاص نے سقراط پر الزام لگائے۔ ان میں ایک زبردست خطیب لائے کن دوسرا معمولی شاعر ملے ٹس اور تیسرا بااثر لیڈر انائیٹس تھا۔ سقراط پر یہ 2 الزام لگائے گئے۔
یہ کہ وہ ایتھنز کے قومی دیوتاﺅں کا قائل نہیں بلکہ نئے دیوتاﺅں کو مانتا ہے اور دوسرا یہ کہ وہ نوجوانوں کے اخلاق کو بگاڑ رہا ہے۔
 ان الزامات کو سمجھنے کےلئے اس زمانے کے حالات کو سمجھنا ضروری ہے۔ نوجوان مذہب اور اخلاق سے مطمئن نہیں تھے اور زندگی کے نئے نصب العین کی تلاش میں تھے۔ سوفسطائی اور سقراط اپنے اپنے علوم کی ترویج کر رہے تھے۔ سوفسطائی عام لوگوں میں بدنام تھے لیکن یہ لوگ زمانہ ساز تھے جو جوانوں کو ترقی پسندی کی تلقین کرتے تھے اور اسلاف کے سیاسی نظام کی بے جا حمایت کرتے تھے اور ان کی تعریفوں میں زمین و آسمان ایک کردیتے تھے۔
 سقراط مذہبی رسوم اور شہری قوانین کا سختی سے پابند تھا وہ مذہب اور سیاست میں بھی مروجہ خیالات اور تعصبات کی اندھا دھند تقلید کا قائل نہ تھا بلکہ غور و فکر اور تحقیق کی بدولت ان اچھی اصلاحات کے حق میں تھا۔ یہی وہ جرم تھا جسے اہل ایتھنز کی جیوری نے قابل معافی نہ جانا۔
 سقراط نے اپنی صفائی میں پابندی مذہب اور قانون پر زور دیا اور ساتھ ہی ”ضمیر کی آواز“ کو نیکی اور شخصیت کی تعمیر کا معیار قرار دیا۔ رائے عامہ کی بجائے ضمیر کی آواز پر کان دھرنا بھی ایک جرم تھا جو اچھائی، نیکی اور اخلاق سے نابلد لوگوں کےلئے ناقابل قبول تھا۔ لیکن عوام سے قطع نظر انائیٹس جیسے معقول اور ذمے دار اشخاص کے نزدیک زیادہ خطرنا ک سقراط کا وہ فعل ہے جس کے مطابق ” وہ نوجوانوں کے اخلاق کو بگاڑ رہا ہے۔“
ایتھنز کی ریاست جوکہ نامساعد حالات سے گزر رہی تھی۔ سقراط کے ذہنی انقلاب کی تحریک آسانی سے سیاسی انقلاب کی صورت اختیار کر سکتی تھی۔ اس پر طرہ یہ کہ الکے بیاڈیس، چار مڈیس اور کرے ٹس جو جمہوریت کے دشمن سمجھے جاتے تھے سقراط کے خاص دوست تھے اور زیادہ وقت سقراط کی صحبت میں گزارتے تھے اسی وجہ سے لوگ سقراط سے بدظن تھے۔ لہٰذا ایسے حالات میں جیوری جس کے زیادہ تر افراد سقراط کے خلاف تھے۔ انصاف اور حق کے تقاضوں کو بالائے طاق رکھ کر سقراط کے خلاف فیصلہ دیناایک قدرتی عمل تھا۔ چنانچہ فیصلہ سقراط کے خلاف ہوا اور تعجب یہ کہ صرف 60کی اکثریت سے ہوا۔
اس کے بعد ایتھنز کے دستور کے مطابق سقراط کو موقع دیا گیا کہ جیوری کی تجویز کی ہوئی سزا کے برعکس اپنے لیے کوئی اور سزا منتخب کرے۔ اس دستور کا مقصد اپنے جرم کو مان کر تخفیف سزا کےلئے معقول عذر پیش کرے یا بغیر کسی عذر کے رحم کی درخواست کرے۔ اگر سقراط سزائے موت کے بجائے جلاوطنی کی سزا کی درخواست کرتا تو یقینا جیوری اسے فوراً منظور کر لیتی۔ مگر سقراط نے تخفیفِ سزا کے بجائے یہ مطالبہ کیا کہ میں نے ایتھنز کےلئے جو خدمات سرانجام دیں ہیں ان کے بدلے میں مجھے اپنا مہمان بنا کر ایوان بلدیہ میں رکھیں۔ ظاہر ہے کہ اس پر لوگ اور زیادہ برہم ہوگئے لیکن پھر بھی 500میں سے تقریباً 200 آدمیوں نے سزائے موت کی مخالفت کی۔ یعنی یہ سزا 110 کی اکثریت سے منظور ہوئی۔
 سقراط نے جس اطمینان اور صبر سے سزا کا حکم سنا اور پھر چند روز کے بعد جس سکون اور اطمینان سے موت کا سامنا کیا۔ وہ اس کے علم و سچائی کی حقیقت کی دلیل ہے۔ اس کا دولت مند شاگرد کریٹو چاہتا تھا کہ جیل کے داروغہ کورشوت دے کر سقراط کو قید سے نکال کر کسی اور ریاست میں پہنچا دیا جائے۔ مگر سقراط نے اپنے مخصوص انداز میں اسے قائل کر لیا کہ اگر وہ قانون توڑ کر اپنی جان بچا لے گا تو اخلاق کا ایک اعلیٰ نمونہ پیش کرنے سے رہ جائے گا۔ جس کےلئے اس نے ساری زندگی محنت کی ہے۔ آخر کار راہ حق میں یہ جاں باز سالک زہر کا پیالہ پی کر ہنستا ہوا دنیا سے رخصت ہوگیا۔( جاری ہے )
نوٹ : یہ کتاب ”بُک ہوم “ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں )۔

مزید :

ادب وثقافت -