پہلی پاکستانی نسل کو آج علامہ اقبال کے یومِ وفات پر دکانوں، دفتروں اور گھروں میں لٹکے ہوئے وہ کیلنڈر بھی یاد آئے ہوں گے جن پر وزیراعظم لیاقت علی خان کی سنگل کلر تصویر ہوا کرتی تھی۔ وہی گول چشمے، قراقلی ٹوپی اور شیروانی والی تصویر جس میں شہیدِ ملت ہندوستان کو دائیں ہاتھ کا مُکہ دکھا کر کہہ رہے ہیں کہ آج سے ہمارا نشان یہ ہے۔ اِ س حکمت عملی کے پیچھے کن حقیقی یا امکانی عوامل کو دخل ہو تاتھا؟ یہ ایک الگ سوال ہے۔ بہر حال، قائداعظم کے انتقال کے بعد ہمارے بچپن کے شروع میں ملک کے اولین وزیر اعظم کی یہی شبیہ بیشتر پاکستانیوں کے دلی جذبات کی آئینہ دار تھی۔ ملک نیا نیا بنا تھا۔ دلوں میں خلوص تھا، سادگی تھی، ایک حوصلہ اور اعتماد تھا۔
آج کے ستر سالہ بزرگ جب دوسری، تیسری جماعت میں پہنچے تو دیکھا کہ کیلنڈر والی تصویر اپنی عینک اور ٹوپی سمیت غائب ہوتی جارہی ہے۔ اُس کی جگہ وردی والی تصویر نے لے لی، وجیہ و شکیل اور قدرے بارعب مونچھ کے حامل کمانڈر انچیف، جنرل ایوب خان جو ملکی استحکام کا نام لے کر سیاسی افق پر طلوع ہوئے اور معاشرت و معیشت کی تمام خرابیوں کو جڑ سے اکھیڑنے کا عزم ظاہر کرتے ہوئے مسند ِ اقتدار پر قابض ہو گئے۔ گرد و پیش تو ہم پانچ بہن بھائیوں کا بھی نیم فوجی سا تھا، لیکن وہ جو لندن میں مقیم صحافی ہمراز احسن کہا کرتے ہیں“ اُس زمانے کے اکثر فوجیوں کے ہاتھ میں زندگی، دل اور دماغ کی بس تین سید ھی سادی لکیریں ہوتی تھیں۔”باقی لکیریں، یوں لگتا ہے کہ جنرل ضیا الحق کے عہد میں نمودار ہوئیں اور پھر مزید نمودار ہوتی چلی گئیں۔
جہاں تک مجھے یاد ہے، ایوب خان کے اقتدار کی ابتدا میں بچوں کے احساسات کچھ نیوٹر ل قسم کے تھے۔ کم و بیش ہر مہینے راولپنڈی سے ہری پور کے نواحی گاؤں ریحانہ جاتے ہوئے جب ایک ہلکے سے تھرتھلی پروگرام کے تحت جنرل ایوب شیرشاہ سوری والی جرنیلی سڑک سے ہو کر ہمارے واہ کینٹ والے گھر کے پاس سے گزرتے تو اپنائیت کا احساس بھی ہوتا۔ وجہ یہ تاثر تھا کہ اور لوگوں کی طرح صدر کی بھی ایک ماں ہے اور وہ اُن سے ملنے کے لیے جاتے ہیں۔ لیکن ایوب خان نے اقتدار پر شب خون کیسے مارا، وقتی طور پر اِس کا کیا فائدہ ہوا اور عرصہ ء طویل میں کتنا نقصان؟ ہمارے ذہنوں سے ماورا یہ بڑوں کے سوچنے کی باتیں تھیں۔
قائداعظم کے نزدیک تو پاکستان کو مسلم اکثریت کا حامل ایک ایسا جمہوری وطن ہونا چاہیے تھا جہاں قانون کی حکمرانی ہو گی اور تمام شہری پر امن، آبرومندانہ اور محفوظ زندگی گزار سکیں گے۔ مگر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے تعلیم یافتہ جرنیل کی فہم و فراست پر شاید سینڈھرسٹ کی تربیت کا اثر زیادہ تھا۔ اقبال کے دُہرائے ہوئے مولائے روم کے الفاظ میں اُنہوں نے بنائے کہنہ کو آباد کرنے کے لیے جب قائد کے تصورِ پاکستان میں ترمیم کی اور بنیادی جمہوریت کا کھیل کھیلنا شروع کیا تو ہمارے پرائمری سکول کے لڑکے اِس نئی سیاسی ا یلیٹ کے چناؤ کے دوران عجیب طرح کی منظوم گستاخیاں کرتے پھر رہے تھے۔”اکبری دین کو ووٹ دو، پھٹا پرانا کوٹ دو، دس روپے کا نوٹ دو، زیادہ مانگے ٹھوک دو“۔ اب لگتا ہے کہ یہ تحت الشعور کی سطح پر بی ڈی سسٹم کے خلاف بچوں کا عدم اعتماد تھا۔
1964-65ء کے صدارتی انتخابات کی مہم کے دوران27 اکتوبر کو واہ کے کنٹونمنٹ بورڈ والے لان میں ایوب خان کے ’یومِ انقلاب‘ کی صبح اسکول کے بچوں کی سالانہ پریڈ ہوئی۔ اُس دن ہمارے بینڈ ماسٹر صاحب نے، جو ہزاروں پنجابی مسلمانوں کی طرح دوسری عالمی جنگ میں انگریز کے حق میں داد شجاعت دے چکے تھے، پاکستان اور قائداعظم کے بعد لاؤڈ اسپیکر پر صدر ایوب خان زندہ باد کا نعرہ بھی لگوا دیا۔ اِس پر عوامی پنڈال سے نکل کر ایک آدمی میدان کے وسط میں کودا اور اُس نے ایک ہاتھ فضا میں بلند کر کے پوری طاقت اور جذبہ سے کہا:”ما۔۔۔ درے۔۔۔ ملت“ اور عوام نے یک بارگی پورے جوش سے جواب دیا ”زندہ باد“۔ نعرے کی گونج سے کنٹونمنٹ بورڈ کا دفتر لرز گیا تھا۔ افسر لوگوں کی تقریب تتر بتر ہو گئی اور پہلی بار ہماری سمجھ میں بھی آگیا کہ تصورِ پاکستان اصل میں کہتے کسے ہیں۔
انتخابی مہم میں پاکستانی قوم محترمہ فاطمہ جناح کے لیے،جو قائد اعظم کی حقیقی بہن تھیں، دیدہ و دل فرش راہ کیے ہوئے تھی، مگر قربان جاؤ اُس بیسک ڈیموکریسی والے سرکاری مینڈیٹ کے۔ پولنگ کے دن جب اپنے ممبر صاحب سے پوچھا کہ آج الیکشن میں کون جیتے گا تو انہوں نے مسکراتے ہوئے فصیح و بلیغ پوٹھوہاری میں کہا”ووٹ تے ایوب خان آں دے آئے آں، اتے دعا مائی واسطے پے کرنے آں“۔ اِس پر تاریخِ اسلام کے کچھ واقعات بھی یاد آئے جنہیں خوفِ فسادِ خلق کے باعث دہرایا نہیں جا سکتا۔ یاد رہے کہ بنیادی جمہوریت کے نظام میں براہِ راست رائے دہی کی بجائے ملک بھر سے چھوٹے چھوٹے حلقوں پر مشتمل اسی ہزار بی ڈی ممبر صدارتی انتخاب میں ووٹ ڈالتے تھے، جن پر لالچ، رعب یا دباؤ کے ذریعے اثر انداز ہونا حکومتی مشنری کے لیے دشوار نہیں تھا۔
شاید یہی الیکشن تھا جو پاکستان میں جمہوری عمل کے ناہموار تسلسل اور اِس راہ میں سر اٹھانے والی رکاوٹوں کا پیش خیمہ بنا۔ پھر بھی اقبال کے یومِ وفات پر دل پہ ہاتھ رکھ کر بات کی جائے تو باہمی تفریق، مار کٹائی، چھینا جھپٹی اور سیاسی بد اعمالیوں کے ہوتے ہوئے بھی بطور پاکستانی ہماری اجتماعی شناخت تشکیل پانے کا عمل شروع ہو چکا ہے۔ شہری علاقوں میں ایک با ہمت اور باشعور مڈل کلاس بھی وجود میں آ ئی ہے جو سب کی سب بے ایمانوں پر مشتمل نہیں۔ ایسے تہذیبی خد و خال کی ابتدائی صورت بھی دکھائی دے رہی ہے جن میں لوگوں کی بو باس، خوشیوں غموں کے رنگ، امنگیں اور آرزوئیں زندگی کی حرکت و برکت کو تیز تر کرتی محسوس ہوتی ہیں۔عوامی زبان میں بات کروں تو ہمارے گوداموں میں کافی کچھ ہے۔ بس سیاست کے شو کیس میں گاہکوں کو دکھانے کے لیے مناسب مال رکھنے کی ضرورت ہے۔
ٹھیک ہے توانائی کا بحران حل نہیں ہوا، علاقائی و طبقاتی ناہمواریوں کے پہاڑ سر نہیں ہوئے۔ پھر بھی ہم کہاں سے کہاں پہنچے؟یہ جاننے کے لیے آج حضرتِ اقبال کی یاد میں پچاس قریبی جاننے والوں کی ایک فہرست بنا ئیے اور جائزہ لیجئے کہ ان میں سے کتنے لوگ غذا، لباس، رہائش اور نقل و حرکت کی سہولتوں کے لحاظ سے اپنے والدین سے بہتر (یا کمتر) درجہ کی زندگی گزار رہے ہیں۔ دو سال پہلے مَیں نے ایک دوست کے ایما پر یہ تجربہ کیا اور مقبول تاثر کے برعکس نتیجہ دیکھ کر ہم دونوں کے سر احساسِ تشکر سے جھک گئے۔پچاس میں سے انچاس خاندانوں کا گراف اوپر کی طرف جا رہا تھا۔ اور یہ پچاس بڑے آدمی نہیں، عام شہری تھے۔ ہاں یہ تمنا ابھی باقی ہے کہ آئندہ جب یہ تجربہ دہراؤں تو میرا سروے صرف اسلام آباد، لاہور اور کراچی تک محدود نہ ہو۔ یہ ہے میرا تصورِ پاکستان۔