خلائی مخلوق
یہ 6 اکتوبر 2014ء کی بات ہے جب سائنس دانوں کو ڈریگن کی شکل کے ایک ایسے جاندار کا ڈھانچہ دکھایا گیا جسے دیکھنے کے بعد سائنسدانوں نے اس یقین کا اظہار کیا ہے کہ نہ صرف دوسرے سیاروں پر زندگی موجود ہے ،بلکہ ہمارے کرہ ارض پر موجود انسانوں سمیت دوسری ہر طرح کی زندگی کا آغاز بھی دوسرے سیاروں پر ہی ہوا تھا۔ یہ حیاتیاتی ڈھانچہ یونیورسٹی آف شیفیلڈ اور یونیورسٹی آف بکنگھم کے پروفیسروں کی ایک ٹیم نے دریافت کیا ہے جن کی قیادت پروفیسر ملٹن وین رائٹ نے کی۔پروفیسر ملٹن نے زمین کی فضا سے آگے ستائیس کلو میٹر کی دوری پر فضا میں غبارے بھیجے ، تاکہ وہاں موجود خلائی گردو غبار سے تجزیے کے لئے مختلف اشیاء حاصل کی جاسکیں۔ ان غباروں کے ذریعے یہ حیاتیاتی ڈھانچہ مختلف اشیاء کے انبار میں سے حاصل کیا گیا جس کی واضح تصاویر پریس میں شائع ہوئیں۔اس نادر ڈ ھانچہ کو دریافت کرنے والے سائنسدانوں کا دعوی ہے کہ آکسیجن اور کاربن سے بنا ہوا یہ ڈھانچہ کسی جاندار کا ہے اور اس کا تعلق یقیناًکسی دوسرے سیارے سے ہے کیونکہ زمین کی فضا سے بھی مزید ستائیس میل آگے تک زمین سے کوئی چیز اڑ کر ہرگز نہیں جاسکتی۔ پروفیسر ملٹن کے مطابق اس ڈھانچے کے سائنسی تجزیے سے یہ ثابت ہوگیا ہے کہ کاربن اور آکسیجن سے بنا ہوا یہ ڈھانچہ کسی جاندار کا ہے۔ اس کا تعلق کائناتی گرد یا کسی آتش فشاں کی راکھ سے ہرگز نہیں۔انہوں نے دعوی کیا ہے کہ دوسرے سیاروں پر نہ صرف زندگی موجود ہے ،بلکہ تاریخ کے ہر دور میں وہاں سے مختلف طرح کی مخلوق مسلسل ز مین پراترتی رہی ہے۔ قدیم یونانیوں نے اپنے دیوتاؤں کے جو مجسمے تیار کئے تھے آج ہم خلائی مخلوق (Aliens) کی مختلف ذرائع سے سامنے آنے والی جو تصاویر دیکھتے ہیں ان کی مجسموں سے مماثلت حیرت انگیز ہے۔ انڈے جیسا سر موٹی موٹی آنکھیں اور کمزور سا جسم اور چار فٹ تک قد آج خلائی مخلوق کی علامت بن چکا ہے۔ جس طرح پانی، فضا اور زمینی آلودگی سے کرہ ارض کو پاک رکھنے ، درختوں اور جنگلی حیات کے تحفظ کے لئے دنیا میں بہت سی منظم اور فعال تنظیمیں بن چکی ہیں اسی طرح دوسرے سیاروں سے آنے والی مخلوق کی غلامی سے بچانے اور ان کی حقیقت کو تسلیم کرتے ہوئے دنیا کی تمام اقوام کو ان کے خلاف متحد کرنے کے لئے بھی بہت سی تنظیمں فعال ہوچکی ہیں۔ اگر کسی طرح کی خلائی مخلوق کا کوئی وجود نہ ہوتا تومغرب کے بیدار مغز اور انسانیت دوست لوگوں کی اتنی بڑی تعداد اس محاذ پر سرگرم نہ ہوجاتی۔ ایسی تنظیموں کے ہزاروں مستعد اور سائنسی علوم سے آگاہ نوجوان اپنے تیز ترین کیمروں کے ساتھ امریکہ کے انتہائی خفیہ سرگرمیوں والے Area 51 کے ارد گرد منڈلاتے رہتے ہیں۔ عام اطلاعات کے مطابق نواڈا ریاست سے کیلیفورنیا تک خاصی چوڑائی والی پچاس میل طویل سرنگ خلائی مخلوق کے سلسلے میں ہر طرح کی تحقیقات کا مرکز ہے۔ ظاہر ہے کہ ایسی لیبارٹریز میں کام کرنے والے لوگوں کو اگر یہاں کوئی مافوق الفطرت اور حیرت انگیز چیز نظر آئے گی تو ان سے کوئی نہ کوئی ان کی تصاویر باہر کی دنیا تک پہنچانے کا کام بھی کرسکتا ہے۔ بعض لوگوں نے یو ٹیوب پر ایک ویڈیو رکھ دی ہے جس میں ایک سٹریچر سے بندھی ہوئی ایک عورت کے ساتھ دوسرے سڑیچر پر ایک خلائی مخلوق کو لیٹے ہوئے دکھایا گیا ہے۔یہ ماحول کسی لیبارٹری کا ہے ۔ یہ دعوی کیا گیا ہے کہ یہاں خلائی مخلوق اور انسانوں کے اختلاط سے ایک مخلوط نسل پیدا کی جاتی ہے۔ یو ٹیوب پر ایسے بہت سے لوگوں کے انٹرویوز بھی دئیے گئے ہیں جنہوں نے اپنے خلائی مخلوق سے جنسی تعلق کے متعلق اعتراف کیا ہے۔ ایک خاتون نے اپنے بچوں کے متعلق مخلوط ہونے کا دعو ی کیا، لیکن یہ بھی کہا کہ ابھی اس کے بچے خلائی مخلوق کے پاس ہی ہیں اور اسے نہیں دئیے گئے۔ پاکستان میں گلگت بلتستان کے علاقے میں شین قوم کے لوگوں میں یہ خیال عام پایا جاتا ہے کہ وہ پریوں کی اولاد ہیں اور کسی دوسرے سیارے سے آکر ان علاقوں میں آباد ہوگئے تھے۔ بہت سے لوگوں کے جسم میں بھوت پریت داخل ہوجانے کے واقعات دنیا کے مشرق و مغرب میں سامنے آتے رہتے ہیں۔ اس صورت میں ایسے لوگ ا کثر بہت طاقتور اور بے قابو ہوجانے کا مظاہرہ کرتے ہیں، ڈاکٹر اس صورتحال کو مخصوص بیماری سے تعبیر کرتے ہیں،لیکن نہ ہی اس بیماری کی وجوہ کی صحیح نشاندہی کرسکتے ہیں اور نہ اس کا کوئی موثر علاج ۔گلگت بلتستان کے ضلع دیامر میں نانگا پربت کے متعلق لوگوں کی اکثریت کا یہ خیال ہے کہ اس پہاڑ کی برف کے بہت نیچے تک ایک غار پریوں کے دیس تک جاتی ہے جہاں پریاں اکثر عام انسانوں کو اٹھا کر لے جاتی ہیں۔ جب وہ انہیں واپس لاکر پھینک جاتی ہیں تو اپنے ہوش و حواس کھو بیٹھنے والے ایسے لوگ پریوں کے اس دیس کے متعلق تقریبا ایک جیسے بیان دیتے ہیں۔ ان علاقوں کے بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ اب بھی ایسا ہوتا ہے کہ ان کی کسی ویلی میں کوئی قدرے عجیب سی وضع قطع والا انسان آکر رہنے بسنے لگتا ہے۔ وہ آہستہ آہستہ مقامی زبان بھی سیکھ لیتا ہے،لیکن ہمیشہ کسی کے انتظار میں رہتا ہے249 آخر کسی دن اچانک غائب ہوجاتا ہے یا لوگ اسے کسی عجیب سی مخلوق کے ساتھ جاتے ہوئے دیکھتے ہیں جس کے بعد وہ کبھی واپس نہیں آتا ۔
سائنس اور جدید علوم کے نزدیک ایسے تصورات کی کوئی حقیقت نہیں ہے، لیکن ہر معاشر ے کے لوگ ہر دور میں ایسے ناقابل فہم حقائق کا سامنا کرتے رہے ہیں۔ خود ہمارے اور بعض دوسرے مذاہب کے نزدیک انسانی زندگی کی ابتدا اس زمین پر نہیں ہوئی تھی ۔ باوا آدم اور اماں حوا اپنی پیدائش کے وقت اس زمین پر نہیں، بلکہ اس سے بہت ہی بہتر جگہ جنت میں رہتے تھے، لیکن حکم عدولی کی پاداش میں وہاں سے نکالے گئے اور اس زمین پر بھیج دئیے گئے۔ گلگت بلتستان کے بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ ان کے علاقے اصل میں تو پریوں ہی کے علاقے ہیں۔ (پریوں کا لفظ وہاں خوبصورت عورتوں کے علاوہ جن بھوت وغیرہ کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے)پہلے اس طرف انسان نہیں آتے تھے۔ آہستہ آہستہ انسان بھی ان علاقوں میں آنے شروع ہوگئے پریوں سے گھل مل گئے، آپس میں شادیاں بھی ہو گئیں اور پریوں اور انسانوں میں کوئی فرق باقی نہیں رہا۔
کرہ ارض کو دوسرے سیاروں کی مخلوق سے محفوظ رکھنے کے لئے امریکہ و یورپ میں سرگر م ہونے والی تنظیموں کو یقین ہے کہ سائنس اور ٹیکنالوجی میں دوسرے سیاروں کی مخلوق ہم سے بہت زیادہ آگے ہے 249 اگر ہم نے ان کے زمین پر آنے کا سلسلہ نہ روکا تو وہ ہم سب کو اپنا غلام بنا لیں گے۔ہمارے اذہان کو اس طرح سے کنٹرول کریں گے کہ ہم ان کے غلام بن کر ان کے لئے روبوٹس کی طرح کام کریں گے۔ دوسری طرف بعض لوگ ان خدشات کا بھی اظہار کررہے ہیں کہ امریکی لیباٹریوں میں دوسرے سیاروں کی جس مخلوق کو پکڑ کر بند کیا گیا ہے اس سے ان کے ساتھیوں کے غیظ و غضب کو دعوت دی گئی ہے۔ انہوں نے انتقام لیا تو وہ پورے کرہ ارض کو ایک ریگستان میں بدل سکتے ہیں۔کرہ ارض کی حفاظت کے لئے آواز اٹھانے والوں کا کہنا ہے کہ دوسرے سیاروں کی مخلوق صرف امریکہ کا مسئلہ نہیں پورے کرہ ارض کا مسئلہ ہے 249 اس کے لئے روس 249 امریکہ 249 چین 249 جاپان249 جرمنی 249 فرانس اور برطانیہ جیسے سب ممالک کو مل کر کام کرنا چاہیے۔کچھ لوگ اس خیال کے حامی ہیں کہ امریکہ والے اس بیرونی مخلوق سے اندر ہی اندر خود اپنے ہی ملک کے ساتھ تعلقات بڑھانے اور ان کی اعلی ترین ٹیکنالوجی کو اپنے مقاصد کے لئے حاصل کرنے کے لئے سب معاملات پر خفیہ طور پر کام کررہے ہیں۔ایک خیال یہ بھی ہے کہ نیو ورلڈ آرڈر دراصل صیہونی تحریک 249 فری میسن ا وربیرونی مخلوق کے خفیہ منصوبوں کا نام ہے، تاہم جب تک امریکی حکومت کی طرف سے د وسرے سیاروں سے آنے والی مخلوق او ر انکی اڑن طشتریوں کے متعلق کھل کر حقائق نہیں بتائے جاتے اس وقت تک دنیا کے حساس اور پرجوش افراد کی طرف سے اس سلسلے میں ظاہر کئے جانے والے خدشات کے مہیب سائے ا س کرہ ارض سے دور نہیں ہوسکتے۔ سوال یہ ہے کہ مریخ اور اس سے بھی آگے تک راکٹ بھیجنے اور دنیا کے ہر گوشے کا علم رکھنے اور ہر جگہ مار کرنے کی صلاحیت والا امریکہ آخر آج تک ایک بھی اڑن طشتری کو گرانے اور اس کا راز طشت از بام کرنے کا کام کیوں نہیں کرسکا؟ اگر عام لوگ جل پریوں اور خلائی مخلوق کی ویڈیو تیار کرکے ہر طرح کے دعوؤں کے ساتھ یو ٹیوب کے ذریعے دنیا کے سامنے پیش کررہے ہیں تو امریکی حکومت اس سلسلے میں آج تک کوئی پیش رفت نہ ہونے کا موقف کیوں اختیار کئے بیٹھی ہے۔ یہ اک معمہ ہے سمجھنے کا نہ سمجھانے کا ۔ !