ترکی میں ناکام فوجی بغاوت
فوجی بغاوتیں یا تو شروع میں ہی ناکام ہو جاتی ہیں اور اگر کامیاب ہو بھی جائیں تو کچھ ہی عرصہ میں عوام فوجی ڈکٹیٹروں کی چھٹی کرا دیتے ہیں۔ دوسری جنگِ عظیم کے بعد بہت سے ملکوں میں مارشل لاء لگائے گئے ، خاص طور پر ایشیا، افریقہ اور جنوبی و لاطینی امریکہ میں چالیس پچاس سال یہ تماشہ لگا رہا، لیکن اب ایک آدھ ملک ہی رہ گیا ہے جہاں فوج میں اتنی ہمت ہے کہ اقتدار پر غاصبانہ قبضہ کر سکے۔ ہاں، البتہ بعض ممالک میں وہ خود آنے کی بجائے بعض سویلین اداروں کی آڑ میں چھپ کر وار کرتی رہی ہے۔ بلا واسطہ یا بالواسطہ مارشل لا کا زمانہ عام طور پر بیسویں صدی کے ساتھ ہی دفن ہو گیا اور اکیسویں صدی میں یہ outdated اور عملی طور پر ملک کے لئے تباہ کن ثابت ہو چکا ہے۔ گذشتہ برس ہم نے ترکی میں دیکھا جب جرنیلوں نے اقتدار پر قبضہ کرنے کی کوشش کی تو عوام ٹینکوں کے آگے لیٹ گئے اور اس وقت تک گھروں کو واپس نہیں گئے جب تک باغی جرنیل گرفتار ہو کر جیل کی سلاخوں کے پیچھے نہیں چلے گئے۔ یہ منظر ہم نے استنبول کے تقسیم سکوائر پر بھی دیکھا جہاں دیکھتے ہی دیکھتے لاکھوں لوگ امڈ آئے اور انہوں نے فائر پاور کا مقابلہ عوامی طاقت سے کیا ، اور یہی مناظر ہم نے دارالحکومت انقرہ اور دوسرے اہم شہروں میں بھی دیکھے۔ جیسے ہی فوجی ٹیک اوور کی خبر بریک ہوئی ترکی میں لاکھوں لوگ پلک جھپکتے فوج کا راستہ روکنے کے لئے دیوانہ وار سڑکوں پر نکل آئے، ان میں صدر طیب اردوان کے حامی اور مخالفین سب ہی شامل تھے اور سب کی زبانوں پر صرف ایک ہی نعرہ تھا کہ’’ فوج نامنظور‘‘۔ترکی میں ہونے والی ناکام فوجی بغاوت پر بات کرنے سے پہلے ایک دلچسپ مکالمہ یاد کر لینے میں کوئی مضائقہ نہیں جو سابق بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی اور ان کے آرمی چیف فیلڈ مارشل سام مانک شاء کے درمیان ہوا تھا اور جسے اندرا گاندھی کے پرسنل سیکرٹری متھائی نے 1978ء میں شائع ہونے والی اپنی سوانح حیات ’’نہرو دور کی یاد داشتیں‘‘ میں بہت تفصیل سے بیان کیا ہے۔ یہ وہی متھائی ہیں جو پہلے جواہر لال نہرو کے اور ان کے انتقال کے بعد اندرا گاندھی کے پرسنل سیکرٹری رہے تھے جواہر لال نہرو اور اندرا گاندھی کو متھائی سے زیادہ قریب اور کسی نے نہیں دیکھا۔
1971ء میں سقوطِ ڈھاکہ کے وقت فیلڈ مارشل مانک شا ،ہی بھارتی فوج کے سربراہ تھے ، وہ زیادہ تر ’’سام بہادر‘‘ کے نام سے مشہور تھے۔ جون 1969ء میں وزیراعظم اندرا گاندھی نے جب جنرل سام مانک شا کو آرمی چیف مقرر کیا تو چند ماہ بعد ان کا امتحان لینے کا سوچا، متھائی لکھتے ہیں کہ اندرا گاندھی نے سام بہادر کو وزیر اعظم ہاؤس طلب کیا اور ایک بڑی سی میز کو اپنے اور آرمی چیف کے درمیان حائل کرکے سخت سوالات کرنے شروع کر دئیے۔ اس وقت کمرے میں اندرا گاندھی، جنرل مانک شاء اور متھائی کے سوا کوئی اور شخص موجود نہ تھا۔ اسی اثنا میں اندرا گاندھی نے اچانک ایک موٹی سی فائل دراز سے نکال کر جنرل مانک شا کے سامنے زور سے میز پر پٹختے ہوئے کہا کہ جنرل صاحب اس فائل میں وہ تمام مواد موجود ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ آپ کچھ سینئر جرنیلوں کے ساتھ مل کر منتخب حکومت کے خلاف سازش کرتے ہوئے مارشل لا لگا کر اقتدار پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں، اس لئے بتائیں کہ کیوں نہ آپ سمیت ان تمام جرنیلوں کو گرفتار کرلیا جائے جو اس سازش کا حصہ ہیں۔ جنرل مانک شا نے بہت سکون سے وزیر اعظم کی بات سنی اور کہا کہ یہ تمام الزامات بے بنیاد ہیں، کیونکہ اس قسم کی کسی سازش کا وجود نہیں ہے اور تمام کے تما م جرنیل آئین اور حکومت کے وفادار ہیں اور وہ مارشل لا لگانے کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ اندرا گاندھی نے مزید استفسار کیا کہ ایسا وہ کیوں نہیں کر سکتے تو جنرل مانک شاء نے جواب دیا کہ بھارتی آئین ایک جمہوری آئین ہے اور اس میں مارشل لاء لگانے کی کوئی گنجائش نہیں ہے اس لئے بھارتی جرنیل چاہے وہ خود ہوں یا کوئی اور مارشل لاء نہیں لگائیں گے۔ جنرل مانک شاء کا یہ جواب سن کر اندرا گاندھی کا چہرہ غصّے سے سرخ ہو گیا اور وہ دھاڑتے ہوئے بولیں ’’ جنرل ! کیا آپ مجھے بے وقوف سمجھتے ہیں جو آئین کی لوری سے بہلانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ آپ کان کھول کر سن لیں کہ میں اچھی طرح جانتی ہوں کہ عوام ایک سیکنڈ کے لئے بھی فوجی حکومت قبول نہیں کریں گے اور اگر آپ نے کوشش کی تو وہ کان پکڑ کر آپ کو نکال باہر کریں گے۔ مارشل لاء ایک ایسی دلدل ہے جہاں آنے کا راستہ تو ہے، لیکن اس سے باہر نکلنے کا راستہ کوئی نہیں، اس لئے اگر کسی ملک میں مارشل لاء لگتا بھی ہے تو فوجی ڈکٹیٹر کو عوام باہر نکال دیتے ہیں۔‘‘
میں نے جنوبی امریکہ کے ممالک برازیل، ارجن ٹائن، چلی سے لے کر لاطینی امریکی اور افریقی ممالک میں لگنے والے مارشل لاؤں کے بارے میں کتابیں پڑھی ہیں اور ہر کتاب پڑھ کر میں اسی نتیجہ پر پہنچتا ہوں کہ عوام کے منتخب کردہ جس لیڈر کو ہٹا کر فوجی ڈکٹیٹر اقتدار پر قبضہ کرتا ہے، وہ لیڈر تو تاریخ میں اچھے نام سے امر ہو جاتا ہے، لیکن فوجی ڈکٹیٹر سے اس کے ملک کے عوام نفرت کا اظہار کرتے ہیں اور تاریخ میں بھی اس کا نام ایک منفی کردار کے طور پر لیا جاتا ہے۔ گزشتہ سال ترکی میں بھی یہی ہوا تھا۔ وہ کیا چیز ہے جو کسی بھی ملک کی مضبوط سے مضبوط اور بڑی سے بڑی فوج سے بھی زیادہ طاقتور ہے؟جی ہاں! عوام کی طاقت اور اپنے لیڈرسے محبت۔ حیران ہونے کی بجائے چند لمحوں کے لئے 2016 میں ترکی میں ہونے والی ناکام فوجی بغاوت کو ایک بار پھر یاد کر لیجئے۔ آپ کو یاد ہے ناں کہ گذشتہ سال 15 اور16 جولائی کی درمیانی شب، صبح صادق سے کچھ قبل ترکی کے بعض جرنیلوں نے منتخب صدر کا تختہ الٹنے کی کوشش کی تھی، لیکن اگلے چند گھنٹوں میں ہم نے دیکھا کہ فوجی بغاوت ترک عوام نے ٹینکوں کے آگے لیٹ کر ناکام بنا دی تھی۔کہا جاتا ہے کہ جرنیلوں کے پیچھے امریکہ بہادر اور امریکہ میں مقیم ایک ترک جلا وطن سکالر فتح اللہ گولن تھے۔ ترک جرنیل دراصل صدر طیب اردوان کی مقبولیت سے خوفزدہ تھے اور ان کے خوف کو امریکہ اور فتح اللہ گولن نے مزید ہوا دے کر طیب اردوان کو معزول کرنے کا منصوبہ بنایا تھا۔
فوجی بغاوت شروع ہوئی تو تمام اہم شہروں کے مرکز میں فوج ٹینکوں اور بھاری اسلحہ کی مدد سے قابض ہوگئی۔ عوام نے جونہی یہ سنا تو لاکھوں لوگ ترک پرچم لے کر ٹینکوں کے آگے لیٹ گئے ، ٹینکوں اور ہیلی کاپٹروں سے ان پر گولیاں برسائی جاتی رہیں، لیکن عوام کی تعداد میں اضافہ ہوتا چلا گیا عوام کا جوش و جذبہ بڑھتا گیا اور بالآخر باغی فوجی ہتھیار ڈالنے پر مجبور ہوگئے۔ یہ ہے عوامی طاقت جس کے آگے فوج کے ٹینک اور ہیلی کاپٹر کوئی حیثیت نہیں رکھتے، شاید جرنیل یہ بھول گئے تھے کہ فوج جتنی مرضی طاقتور اور مسلح ہو ، عوام کی اپنے لیڈر سے محبت سے زیادہ طاقتور نہیں ہوتی۔ ترکی میں اس سے پہلے چار دفعہ فوج نے اقتدار پر قبضہ کیا تھا، 1960ء میں جب اس نے پہلی دفعہ جمہوریہ ترکی میں مارشل لاء لگایا اور مقبول لیڈر عدنان میندریس کو پھانسی دی تھی۔ اس کے بعد 1971ء ، 1980ء اور 1997ء میں بھی فوج نے اقتدار پر قبضہ کرکے جمہوری حکومتیں ہٹا ئی تھیں، لیکن کسی ایک مارشل لاء کی عوام میں پذیرائی نہیں ہوئی تھی۔ ان چار مارشل لاؤں میں 1980ء میں جنرل کنعان ایورن کا مارشل لاء نسبتاً طویل تھا اور اس میں فوج کے انگوٹھے تلے ایک نیا آئین بھی نافذ کیا گیا تھا، لیکن اب جمہوریہ ترکی میں مارشل لاء لگانا اور فوج کا عمل دخل وہاں کے غیور عوام نے ختم کردیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ 2016ء میں جب فوج نے اقتدار پر قبضہ کرنے کی کوشش کی تو عوام سیسہ پلائی دیوار بن کر اس کے سامنے ڈٹ گئے اور اس سال 2017ء میں ترک عوام نے ریفرنڈم کے ذریعہ ان جنرلوں کے بنائے ہوئے آئین کی تمام باقیات ختم کر دی ہیں۔