قتیل شفائی کی آپ بیتی. . .قسط نمبر 46

قتیل شفائی کی آپ بیتی. . .قسط نمبر 46
 قتیل شفائی کی آپ بیتی. . .قسط نمبر 46

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

 اس زمانے میں میں یہاں سب سے بڑا گیت نگار تھا ۔ اگر میں وہاں رک جاتا تو وہاں سب سے بڑا نہ ہوتا بلکہ بہت سے بڑوں میں ایک ہوتا۔ میرے پاس گرودت کا کچھ ایڈوانس تھا‘ آنے سے پہلے میں نے انہیں ان کا ایڈوانس لوٹا نا چاہا تو انہوں نے کہا کہ ہم یہ پیسے واپس نہیں لیں گے کیونکہ Defaulter ہم ہیں۔
اس عرصے میں میں نے دیکھا کہ جو بڑے شعراءتھے اور میرے دوست بھی تھے ‘ پس پردہ وہی میرے مخالف تھے۔ وہ نہیں چاہتے تھے کہ میں انڈیا میں گانے لکھوں کیونکہ ان پر سیدھی زد پڑتی تھی۔ لیکن یہی وہ لوگ تھے جنہوں نے میرا بہت سا کلام استعمال کیا ہوا تھا ۔البتہ ان میں ایک مست قلندر آدمی اندیور تھا جس کے گھر میں ٹھہرا ہوا بھی تھا ۔ اس زمانے میں وہ آمدن کے اعتبار سے دوسرے درجے کا شاعر تھا۔ اس نے میرا ساتھ دیا۔ انڈیا میں گانے لکھنے کا ایک اور مرحلہ بھی آیا۔
منوج کمار صاحب وہاں کے چوٹی کے ڈائریکٹر اور پروڈیوسر اور نامور ایکٹر تھے جب یہ لاہور آئے تو مجھ سے ملنا چاہا کیونکہ انڈیا میں ان سے ملاقات نہیں ہو سکی تھی۔ صاحب ذوق آدمی تھے اور شعری ذوق انہیں ورثے میں ملا ہوا تھا۔ ان کے والد بھی شاعر تھے اور خضر تخلص کرتے تھے۔ جب یہ 1987 ءمیں یہاں آئے تو میں ان سے ملنے کیلئے ایک مقامی ہوٹل میں گیا ۔ لابی ہی میں ان سے ملاقات ہو گئی کہنے لگے ” ہم تو آپ کے بڑے مداح ہیں “

قتیل شفائی کی آپ بیتی. . .قسط نمبر 45 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
ان کے ساتھ ان کا بیٹا بھی تھا۔ جس کا نام کنال تھا ۔ کہنے لگے ” اب یہ فلموں میں ہیرو بھی آرہا ہے“ پھر بیٹے کو مخاطب کر کے کہنے لگے ”چلو بیٹے انہیں ان کی غزلیں سناﺅ “تو اس نے وہیں کھڑے کھڑے ہی مجھے میری غزل سنا دی۔ اس کی ٹیون بھی اس نے خود ہی بنائی تھی۔ اس بے تکلفی کی وجہ سے ان کے ساتھ تعلقات بڑھے تھے۔
انڈین شاعروں کا سلوک
یہ غالباً 1961 ءہی کی بات ہے جب انڈیا کے دوست شاعروں نے مناسب سمجھا کہ وہ غیر ملکی ہونے کی وجہ سے مجھے کام سے روک دیں۔ اس زمانے میں وہاں جو ایک دو مخلص دوست ملے ان میں او پی نیئر کا نام بھی بہت اونچائی پر رکھتا ہوں۔ یہ شخص اتنا کھرا‘ منہ پھٹ اور سچا تھا کہ نقصان اٹھا لیتا تھا مگر سچ سے باز نہیں آتا تھا۔ یہ اس کا وہ زمانہ تھا جب اس کے تعلقات اپنی دوسری بیوی آشا بھونسلے سے بگڑ چکے تھے۔
آشا بھونسلے اور لتا منگیشکر آپس میں بہنیں ہیں کسی وقت جبکہ او پی نیئر فلم میں بالکل نووارد تھے‘ لتا منگیشکر نے نیئر صاحب کو گانے کا وقت نہیں دیا تھا اور روایت یہ ہے کہ نیئر صاحب نے اس وقت طے کر لیا تھا کہ وہ زندگی بھر لتا منگیشکر سے گانا نہیں گوائیں گے چنانچہ انہوں نے اوّل سے آخر تک یہ ثابت کر دکھایا کہ وہ لتا کے بغیر بھی چل سکتے ہیں۔ انہوں نے لتا کی بہن آشا بھونسلے سے شادی کر لی اور آشا نے ایک انٹرویو میں تسلیم کیا کہ ان کی آواز میں جو Expression ہے یہ اوپی نیئر کی دین ہے ۔ آشا کی طرف سے یہ بات کہنا بہت بڑی بات ہے کیونکہ انہوں نے یہ الفاظ اس وقت کہے تھے جب وہ نیئر صاحب سے علیحدہ ہو چکی تھیں۔
لتا سے تو ان کے تعلقات پہلے سے ہی خراب تھے ‘ اب آشا بھونسلے سے بھی قطع تعلق ہو گیا تو ان کے پاس زیادہ کام کاج نہ رہا۔ کیونکہ پروڈیوسر ز زیادہ تر انہی دو آوازوں کو پسند کرتے تھے۔ اس سے ایک بار پہلے جب میں انڈیا گیا تھا تو نیئر صاحب نے مجھے کہا تھا کہ آپ بمبئی آجائیں تو ہم مل کر کام کریں گے ۔ کیونکہ میں شاعری کے سلسلے میںاپنا سٹائل تھوڑا سا بدلنا چاہتا ہوں۔ پہلے میں بالکل نچلی سطح پر کام کرتا تھا اب میں تھوڑا سا اوپر آکر کام کروں گا۔ جس کیلئے مجھے آپ کی شاعری کی مدد درکار ہے۔
اس بار جب میں وہاں گیا تو نیئر صاحب بہت خوش ہوئے اور ہر دوسرے تیسرے روزجگہیں بدل بدل کر میری دعوتیں کرنے لگے ۔ لیکن میں نے محسوس کیا کہ کام نہ ہونے کی وجہ سے وہ کچھ تلملائے ہوئے سے رہتے ہیں لیکن غیور اتنے تھے کہ ان دونوں بہنوں سے مصالحت کر لیں اور ان سے گانے گوائیں یہ قبول نہیں تھا۔
لوگ او پی نیئر کے اس حد تک معترف تھے کہ انہیں Master of Rhythmکہتے تھے اورپورے صفحے پر ان کا نام دیتے تھے اور پکچر بک جاتی تھی ۔ چنانچہ لوگ ان کے فن سے فائدہ اٹھانا چاہتے تھے۔ مگر لتا اور آشا کے علاوہ اور کوئی آواز نہیں تھی جو پوری فلم کے بوجھ کو سہار سکے۔ چنانچہ نیئر صاحب بھی اس صورتحال کی وجہ سے اندر سے ہلے ہوئے تھے۔
میرے ایک دوست بابا بہادر شاہ تھے جو اب انتقال کر چکے ہیں۔ آخر میں وہ دمے کے مرض کے سپیشلسٹ بن کے کام کر رہے تھے۔ لیکن شروع میں وہ بمل رائے پارٹی میںایکٹنگ کرتے رہے تھے۔ انہوں نے بمل رائے سے میرا ذکر کیا، مجھ پر یہ اللہ کا بڑا کرم رہا ہے کہ فلم کے سبھی بڑے لوگ میرے نام سے واقف تھے ۔ چنانچہ بابا بہادر شاہ سے بمل رائے نے کہا ”میں قتیل صاحب سے اگلی فلم کے گانے لکھواﺅں گا تم ان سے بات کرو“
انہوں نے بابا بہادر شاہ سے کہا ” آپ گانے قتیل صاحب کے رکھیں لیکن میوزک میرا ہو “اور پھر میری وجہ سے لاکھ روپے سے نیچے آتے نیئر صاحب اس بات پر رضا مند ہو گئے کہ وہ ایک روپیہ بھی معاوضہ نہیں لیں گے۔
اب پھر آوازوں کا سوال پیدا ہوا تو نہ تو میں نے اور نہ بابا بہادر شاہ نے ان کے سامنے لتا منگیشکر اور آشا بھونسلے کا نام لیا کیونکہ وہ بڑے نازک دل کے مالک تھے اور ہم نہیں چاہتے تھے کہ انہیں یہ بات ناگوار گزرے ۔ یہ بڑا اچھا Combinationہوتا لیکن اس بات کی ضمانت کون دیتا کہ آشا بھونسلے گائے گی۔ چنانچہ یہ معلوم رہ گیا۔(جاری ہے)

قتیل شفائی کی آپ بیتی. . .قسط نمبر 47 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں