وزیراعظم پاکستان کا خطاب، اسوہ زینب کا بچوں کی جانب سے خصوصی پیغام

وزیراعظم پاکستان کا خطاب، اسوہ زینب کا بچوں کی جانب سے خصوصی پیغام
وزیراعظم پاکستان کا خطاب، اسوہ زینب کا بچوں کی جانب سے خصوصی پیغام

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


امید سحر کی بات سنو
نشاں یہی ہے زمانے میں زندہ قوموں کا
کہ صبح و شام بدلتی ہیں اْن کی تقدیریں
مسٹر پرائم منسٹر
آپ نے پہلے خطاب میں قو م کی امید کی کرن دکھائی ہے۔ بڑے بڑے اعلانات کئے ہیں۔ ٹی وی آن کیا تو ہر طرف اب ان اعلانات پر تبصرے ہو رہے ہیں،لیکن چند باتیں ایسی بھی ہیں، جو بظاہر بڑے بڑے اینکرز کی نظروں سے اوجھل رہ گئیں۔ اْن میں سے، ایک بات میں نے بھی نوٹ کی ہے ، اور امید ہے مجھے جیسے لاکھوں بچوں نے نوٹ کی ہوگی کہ ہمارا معاشرہ رحم کرنا سیکھے۔ سب رحم دلی اپنائیں۔ آپ کی نصیحت بہت اچھی ہے۔ رحم دلی اخلاقی خوبی ہے جو اللہ تعالیٰ کو بہت پسند ہے۔کسی شخص کو کمزور، بیمار، لاچار اور ضرورت مند دیکھ کر اس پر ترس کھانا اور حسب حال اس کی مدد کرنا رحم دلی ہے۔آپ کا خطاب سن کر میں تو اس نتیجے پر پہنچی ہوں کہ، ہم نئے پاکستان میں صرف اس صورت میں داخل ہو سکتے ہیں جب، آپ کی دی گئی گائیڈ لائن پر چلتے ہوئے، ایک دوسرے کا خیال رکھیں، رحم دلی اپنائیں۔ اور صرف رحم ہی کیا، ہمیں ایثار اور قربانی کو بھی اپنے مجموعی کردار میں لانا ہو گا۔
آپ اکثر مدینے کی ریاست کی بات کرتے ہیں ناں۔ تو ، میں نے آپ کے خطاب کے بعد کچھ کتابیں کھول لیں اور اْس معاشرے کے اندر موجود دیگر خصوصیات کو بھی نوٹ کیا۔ تو مجھے یہ بھی پتہ چلا کہ، اس معاشرے میں لوگ جب چاہتے، حکومت کے نمائندوں تک پہنچ سکتے تھے، اْن سے سوالات بھی کر سکتے تھے، تو میر ی درخواست ہے، پلیز، آپ بھی کچھ ایسا کریں کہ ہم بھی اپنے نمائندوں سے اپنے حق کے لئے سوال کر سکیں۔
ریاست مدینہ کی ایک اور خصوصیت Rule of Law بھی تھا، ہر شخص خود کو محفوظ سمجھتا تھا، اْ س معاشرے میں معاشی انصاف، مساوی قانون، سب کے حقوق کی ضمانت ، خواتین اور بچوں کا حقوق کا تحفظ تھا۔ اْس شہر کے لوگ دینی تعلیم بھی حاصل کر رہے تھے ، لیکن ساتھ ہی انہیں اْس وقت کی جدید ترین تعلیم بھی دی جا رہی تھی۔آپ نے درست سوال کیا کہ مدارس کے بچے ڈاکٹر کیوں نہیں بن سکتے؟ اْن کے لئے جدید تعلیم کا انتظام حکومت ضرور کرے، لیکن والدین کو بھی ایک قد م آگے بڑھ کر اپنے بچوں کی تعلیم اور تربیت میں بنیادی کردار ادا کرنا ہو گا۔
مسٹر پرائم منسٹر۔
آپ نے قوم کو گائیڈ لائن دے دی ہے، ہم بہت خوش ہیں، پلیز، اب موقع ملے تو قوم سے یہ بھی کہیں، کہ، ہر بچہ، بڑا، خاتون، مرد، آپ کے حکم کے مطابق، ان باتوں پر عمل بھی کرے، رحمدلی کے سبق کا مطلب یہ ہے کہ ہم سب ایک دوسرے کا خیال رکھیں۔ کار والا، سڑک پر چلنیو الوں کا خیال کرے، بھوک کم لگنے کے باوجود اپنی پلیٹیں بھرنے اور شادیوں میں کھانا ضائع کرنے والے اْن کا خیال رکھیں جن کے پاس دو وقت کی روٹی کھانے کے لئے پیسے نہیں۔
ریسٹورنٹس کے ٹھنڈے کمروں میں بریک فاسٹ، لنچ اور ڈنر انجوائے کرنے والے ، اپنے اْس ڈرائیو ر کا خیال بھی رکھ لیا کریں جو اْسی ہوٹل کے باہر گرمی میں کبھی اْن کی گاڑی صاف کرتا ہے، کبھی اپنے بچوں کی ضروریات کا حساب لگا کر اپنے تنخواہ کے نوٹ گنتا ہے اور سب کچھ ادھورا ادھورا سا چھوڑ کر پھر صاحب ، بیگم صاحبہ اور بچوں کے باہر آنے کا صبر سے انتظار کرتا ہے۔یوں۔ شام کو اپنے ادھورے خواب لے کر واپس گھر چلا جاتا ہے۔
میں سمجھتی ہوں، امیر لوگ ایک دن برگر اور پیزا چھوڑ ردیں ، اْس پیسے سے اپنے گھر میں کام کرنے والے ملازمین کے بچوں کو کتابیں لے دیں، اْن کی فیس جمع کرا دیں، انہیں پینسل لے دیں۔
جناب وزیراعظم۔
پلیز آپ ناراض نہ ہوں، آپ نے کہا تھا، ساڑھے آٹھ بجے خطاب کریں گے، میں نے بہت انتظار کیا، اور پھر آپ نے ساڑھے دس بجے خطاب کیا۔ آپ کی نصیحتوں کے انتظار میں تو بہت سے بچے تو سو بھی چکے ہوں گے ناں۔اس وقت تک، مجھے بھی بہت نیند آرہی تھی،لیکن آپ کہتے ہیں، کامیابی کے لئے نیندیں جلانا پڑتی ہیں، میں نے آپ کی اسی نصیحت پر عمل کیا ہے۔ اور میں آخر میں آپ کا یہ جملہ دہرانا چاہوں گی، ہم نے اگر خود کو تباہی سے روکنا ہے تو ہمیں اپنی سوچ بدلنا ہوگی، اپنا رہن سہن اور طور طریقے بدلنے ہوں گے۔
جہاں
دولت کی غیر منصفانہ اور غیر عادلانہ تقسیم ہو
چھوٹی سی جھونپڑی کے دس اور عالی شان کمرے کے دو ہی مکین ہوں
جہاں سماج دْہرے ہوں
جہاں رواج دْہرے ہوں
جہاں کردار دْہرے ہوں
جہاں معیار دْہرے ہوں
جہاں نظام دْہرے ہوں
جہاں امام دْہرے ہوں
جہاں حساب دْہرے ہوں
اور
جہاں نصاب دْہرے ہوں
وہاں
دو نہیں۔ ایک پاکستان جیسا نعرہ لگانے الی سوچ کو
میرا سلام
جو برابر فصل دے، وہ بیج بونا چاہئے
دو نہیں، بس ، ایک پاکستان ہونا چاہئے

مزید :

رائے -اداریہ -