تاخیر انصاف، انکار انصاف
کئی ایسے افراد جو مختلف تحقیقاتی اداروں کو مطلوب تھے اور پکڑے بھی گئے، ان کے بارے میں فیصلوں میں تاخیر کیوں ہے؟ عزیر بلوچ کے خلاف مقدمات کس مرحلے میں ہیں، وہ چار سال سے زیر حراست ہے۔ ذرائع ابلاغ کا دعوی ہے کہ ان سے تفتیش مکمل ہو چکی ہے۔ انہیں جو کچھ بتانا تھا وہ بتا چکے، لیکن پھر بھی حکومت کے مہمان ہیں۔کیوں؟ 2016ء میں ایم کیو ایم کے مرکز سے گرفتار کئے گئے افراد خصوصاً صحافی ولی بابر کے قاتل جسے عدالت سزا سناچکی ہے، کا معاملہ بھی اسی طرح ہے کہ حکومت نے اپنا مہمان بنا کر رکھا ہوا ہے۔ یہ معاملہ کس مرحلے میں ہے۔ ماڈل ایان علی، ملک سے باہر چلی گئی اور غائب ہو گئی۔ اس کے خلاف زیر سماعت مقدمہ کس مرحلے میں ہے؟
ایان علی کو مارچ 2015ء کو دبئی جاتے ہوئے ہوائی اڈے پر دھر لیا گیا تھا کیوں کہ اس کے پاس سے بھاری تعداد میں غیر ملکی کرنسی (پانچ لاکھ امریکی ڈالر) بر آمد ہوئی تھی۔ غیر ملکی کرنسی کی بر آمدگی کے بعد ہی اس ماڈل کا نام ’’ ڈالر گرل‘‘ پڑگیا تھا۔ سن 2015ء میں پیش آنے والا مقدمہ التواء کا شکار ہے۔ اس سال فروری میں ایک عدالت نے تنبیہ کی تھی کہ اگر وہ عدالت میں پیش نہیں ہوئی تو اسے مفرور قرار دیا جائے گا۔ ایان علی، کی صحت پر کیا فرق پڑے گا۔ اس کے سرپرست کیوں چا ہیں گے کہ وہ عدالت میں پیش ہو اور سزا بھگتے؟
بلوچستان حکومت کا بڑا افسر مشتاق رئیسانی جس کے گھر سے مئی 2016ء میں بھاری نقد رقم ( 73 کروڑ روپے ) اور چالیس کروڑ روپے کی مالیت کے جواہرات و دیگر قیمتی سامان بر آمد ہوا تھا، اس کی ضمانت کیوں کر ممکن ہوئی؟ ان کے قبضے سے نیب نے ایک ارب سے زائد مالیت کے اثاثہ جات بر آمد کئے تھے جسے حکومت بلوچستان کے حوالے کر دیا گیا تھا۔ بلوچستان ہائی کورٹ نے مشتاق اور صوبائی حکومت کے مشیر خزانہ خالد کی پچاس پچاس لاکھ روپئے کے عوض ضما نتیں منظور کرلیں۔ کیا اس بات میں کوئی سقم تھا کہ ان دونوں کو مجرم ثابت نہ کیا جاسکے۔ اگر وہ مجرم تھے تو انہیں باضابطہ سزائیں کیوں نہیں ہو ئیں اور انہیں ضمانت پر کیوں رہا کیا۔ ایک صاحب نثار مورائی ہوتے ہیں جو فشریز کو آپرٹیو ساسائٹی کا کرتا دھرتا تھا۔ موصوف کو کرپشن کے بڑے کیس میں دھرا گیا۔ انہیں علاج کی سہولت فراہم کرکے داخل اسپتال کر ا دیا گیا ہے۔ اگر ان کے خلاف مقدمہ بے جان ہے تو رہا کیا جائے اور اگر ثبوت موجود ہیں تو عدالت سے سزائیں دی جائیں۔ سلطان قمر صدیقی سوسائٹی کا سابق چیئر مین تھا ، وہ بھی پا نچ کروڑ روپے کی بدعنوانی کے الزام میں سن 2015ء سے نیب کا مہمان ہے۔آخر حکومت یا حکومت کے ادارے مہمان بنا کر کیوں رکھتے ہیں۔ سندھ بلڈنگ کنٹرول کے افسران، پی ایس او کے افسران، حکومت پنجاب کا افسر احد چیمہ، وفاقی حکومت کا ملازم فواد حسن فواد جو سابق وزیراعظم نواز شریف کا پرنسپل سیکریٹری تھا، ایک تحقیقاتی ادارے کے مہمان ہیں۔
ان تمام اوربدعنوانیوں میں ملوث افراد کے خلاف مقدمات، تفتیش، تحقیقات، کن مراحل میں ہیں۔ بلڈنگ کنٹرول کے جن افراد کو فرار ہونا تھا وہ ملک سے فرار ہو گئے۔ انہیں واپس لانے کے لئے کیا اقدامات کئے گئے ، عوام کے علم میں تو نہیں ہے۔ سابق صوبائی وزیر شرجیل میمن ، انعام اکبر و دیگر افراد بھی صوبائی محکمہ اطلاعات میں رونما ہونے والے کرپشن کیس میں زیر حراست ہیں۔ شرجیل اور نعام اکبر اسپتال میں داخل ہیں۔ شرجیل تو حراست میں ہی تھے کہ حالیہ انتخابات میں صوبائی اسمبلی کے رکن بھی منتخب ہو گئے ۔ آخر ان لوگوں کو طویل عرصے سے حراست میں کیوں رکھا گیا ہے؟
ایف آئی اے اور نیب ہی بظاہر دو ایسے بڑے ادارے ہیں جو منی لانڈرنگ ، بدعنوانیوں اور لوٹ مار کے مقدمات کو دیکھ رہے ہیں۔ منی لانڈرنگ کے ایک اہم مقدمہ میں سینئر بنکار حسین لوائی گرفتار کئے گئے ، لیکن ان کے خلاف مقدمہ میں بینکنگ کورٹ نے ان کی درخواست ضمانت پر محفوظ کیاگیا جو پیر کے روز سنایا گیا۔ عدالت نے فیصلہ میں کہا کہ ابھی ملزمان سے تفتیش جاری ہے، اس لیے اس دوران ان کی ضمانت نہیں لے سکتے حالانکہ عدالت میں وکیل صفائی کا کہنا تھا کہ حسین لوائی کیخلاف اب تک کوئی شواہد نہیں ملے ۔ وکیل صفائی نے عدالت کو بتایا تھا کہ ایک پیسہ بھی حسین لوائی کے اکاؤنٹ میں نہیں گیا تو وہ ملزم کیسے ہوئے حالانکہ ایف آئی اے نے سپریم کورٹ میں بڑے دعو ے کیے تھے مگر ٹرائل کورٹ میں ایک ثبوت بھی پیش نہیں کئے جا سکے۔
اسی مقدمہ میں انور مجید جیسا انتہائی طاقت ور شخص لندن سے آکر عدالت کے رو برو پیش ہوا، عدالت نے اسے ایف آئی اے کے حوالے کردیا۔ دوران تفتیش ہی وہ اسپتال میں داخل ہوگیا۔ اسی مقدمہ میں مطلوب سابق صدر پاکستان اور سندھ میں حکمران جماعت پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمینٹیرئن کے چیئر مین آصف علی زرداری نے بھی حفاظتی ضمانت حاصل کر لی ہے۔ ان پر بھی منی لانڈرنگ کے الزامات میں۔ سوشل میڈیا پر کسی نے سوال اٹھایا کہ کیا انور مجید صرف مقدمہ بھگتنے، سزا پانے کے لئے عدالت کے سامنے پیش ہونے آئے ہیں ؟ بعض حلقوں کی رائے ہے کہ انور مجید سے زیادہ بہتر تو کوئی اور سلطانی گواہ ہو ہی نہیں سکتا۔ انور مجید کس کے خلاف سلطانی گواہ ہو سکتے ہیں، یہ آج کا اہم تریں سوال ہے۔ آصف علی زرداری نے اتوار کی رات اسپتال جا کر منی لانڈرنگ کیس میں نامزد ملزمان حسین لوائی اور انور مجید سے آدھے گھنٹے کی ملاقات کی۔ ا ن کے دورے کے موقع پر سیکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے تھے اور اسپتال میں عام لوگوں کو داخل ہونے سے روک دیا گیا۔
کیا کوئی بھی ایک مقدمہ ایسا نہیں جس میں کوئی حتمی فیصلہ آیا ہوتا اور اس فیصلے پر عمل در آمد ہوجاتا۔ اس طرح کے سینکڑوں مقدمات التواء کا شکار ہیں۔ ایسا کیوں ہے؟ اس کا جواب دینے کا پابند کون ہے۔
اگر بدعنوانیوں کے الزامات کے تحت بنائے گئے مقدمات میں ملزمان کے خلاف ثبوت نہیں ہیں تو انہیں رہا کیوں نہیں کیا جاتا۔ اور اگر ثبوت ہیں تو عدالتیں سزائیں کیوں نہیں دیتیں ۔ دنیا بھر میں ممالک میں تمام مقدمات کے فیصلے کسی تاخیر کے بغیرکئے جاتے ہیں۔ کہیں گولی مار دی جاتی ہے، کہیں گردن اڑ ا دی جاتی ہے۔ کہیں زہر کا انجکشن لگا کر اس دنیا سے ہی رخصت کر دیا جاتا ہے۔ کرپشن ہو پھر منی لانڈرنگ بھی ہو، سب کچھ ثابت ہو جانے کے باوجود پاکستان میں ایک عدالت سے دوسری عدالت کے چکر ہی لگتے رہتے ہیں۔ ہر مقدمہ نواز شریف کے مقدمے کی طرح کیوں نہیں ہوتا کہ فوری فیصلہ ، سزا اور جیل ہو جائے۔
اس تماش گاہ میں اسی لئے عام آدمی یہ سوا ل کرتا ہے کہ جن مقدمات میں مقتدر حلقے دلچسپی رکھتے ہیں ان میں فیصلہ فوری ہوجاتا ہے۔ اس سوال کا جواب تفتیشی اداروں اور عدالتوں کو ضرور دینا چاہئے کیوں کہ کہاوت ہے کہ لوگوں کو انصاف ہوتا نظر آنا چاہئے۔ پھر یہ بھی تو کہا جاتا ہے کہ انصاف میں تاخیر انصاف سے انکار تصور کیا جاتا ہے۔