تبدیلی آگئی ، نوجوانوں کی طاقت والا انجن روایتی سیاستدانوں کی گاڑی میں فٹ
تجزیہ:سہیل چوہدری
باادب با ملاحظہ ہوشیا ! صدر مملکت ممنون حسین اور وزیراعظم عمران خان صدارتی باڈی گارڈ کے ہمراہ بگل کی آواز کے ساتھ صدارتی محل کے تقریبات کیلئے مخصوص حال میں ایک ساتھ داخل ہوئے ، داخل ہوتے ہی دونوں حضرات نامزد کابینہ کے ارکان کے سامنے والے چبوترے پر تشریف لائے ساتھ ہی قومی ترانے کی دھنیں فضا میں بکھر نے لگیں اور قومی ترانے کے احترام میں ہال میں موجود تمام حاضرین مجلس کھڑے ہوگئے ، قومی ترانے کے بعد جیسے ہی صدر اور وزیراعظم چبوترے پر پڑی کرسیوں پر براجمان ہوئے تو لگ رہا تھا ملک کی دو چوٹی کی ان شخصیات کے چہروں کے تاثرات ان کے دلوں کے حالات کی چغلی کھارہے ہیں، دونوں محترم اور اعلیٰ ترین شخصیات کی باڈی لینگویج ایک دوسرے کے ساتھ آرام دہ نہیں لگ رہی تھی ، اسی اثنا میں سیکرٹری کابینہ ابو عاکف نے صدر مملکت ممنون حسین سے تقریب کے باقاعدہ آغاز کی رسمی اجازت طلب کی اور یوں صدر مملکت حلف لینے کیلئے کھڑے ہوئے تو حاضرین مجلس کی توجہ صدر اور وزیراعظم کے چہروں کی بجائے حلف کی طرف مبذول ہوگئی ، جس کی بنا پر ان دونوں اعلیٰ ترین شخصیات کے چہروں کے تاثرات سے پید اہونے والی قدرے کثیف فضا معتدل ہوگئی ، اگرچہ وزیراعظم عمران خان نے دوران حلف تسبیح کا ورد جاری رکھا اور ان کے چہرے پر ایک فاتحانہ مسکراہٹ نمایاں تھی ، حلف ختم ہوتے ہی وزیراعظم عمران خان اسی تمکنت کے ساتھ انتہائی عجلت میں ہال سے باہر چلے گئے وزیراعظم عمران خان مہمانان یا وفاقی وزراء سے مصافحہ کئے بغیر سیدھے لفٹ پر پہنچے اور بغیر کسی تامل کے ایوان صدر سے اپنے سکیورٹی گارڈز کے ہمراہ رخصت ہوگئے ، تاہم حکومت کی تشکیل کیلئے کابینہ کی حلف برداری کا یہ عمل منفردا ور باوقار تقریب میں اختتام پذیر ہوگیا ، اب دیکھنا ہے کہ کیا روایتی سیاست کے تجربے کے حامل سینئر سیاستدان نوجوانوں کی تحریک کی قیادت کرپائیں گے ، پی ٹی آئی کی گاڑی کا اصل انجن نوجوانوں کی طاقت ہے ، اس طاقتور انجن کو ہیو ی ویٹ سیاستدانوں کی شکل میں بننے والی گاڑی کے ڈھانچے میں فٹ کردیا گیا ہے ، اب دیکھنا ہے کہ یہ گاڑی انجن کی اصل قوت کے مطابق چلتی ہے یا نہیں ، وزیراعظم عمران خان نے بھی ایک روز قبل قوم سے اپنے خطاب میں عام عوام میں اپنے پیرو کاروں کے دلوں کو خوب چھیڑا ، انہوں نے اپنے خطاب میں عام آدمی کو درپیش مشکلات اور مصائب کا جذباتی انداز میں اظہار کرکے انہیں یقین دلایا کہ ان کا حل ان کے پاس ہے ، یوں انہوں نے اپنے ٹائیگرز کی توقعات میں جی بھر کر اضافہ کیا ، وزیراعظم عمران خان کی جو ٹیم قیادت کررہی ہے اس میں روایتی سیاست دانوں کے علاوہ زیرک اور با صلاحیت ٹیکنوکریٹس بھی شامل ہیں ، تاہم یہ بھی پاکستان کیلئے نئے ہیں نہ پاکستان ان کیلئے نیا ہے ڈاکٹر عشرت حسین ، عبدالرزاق داؤد جیسے نامور ٹیکنوکریٹس ہیں اور تمام زندگی مختلف اعلیٰ عہدوں پر فائز رہے ہیں ، اچھی شہرت کے مالک بھی ہیں لیکن یہ باصلاحیت ٹیکنوکریٹس بھی ماضی میں تبدیلی کا کوئی معجزہ برپا کرنے سے قاصر رہے ہیں ،تاہم اب ان کا دعویٰ ہے کہ وہ کپتان وزیراعظم عمران خان کی قیادت میں ملک میں کوئی جوہری تبدیلی کا باعث بنیں گے ، اسی طرح ڈاکٹر عشرت حسین ایک سابق ڈی ایم جی افسر ہیں جنہوں نے بیوروکریسی کو خیرباد کہہ کر مالیاتی شعبوں میں کمال مہارت حاصل کرتے ہوئے پاکستان اور بیرون ملک اہم عہدوں پر کام کیا ، گورننس میں اصلاحات انکا ترجیحی شعبہ ہے ، اب دیکھنا ہے کہ وہ وزیراعظم عمران خان کی قیادت میں کیا کر شمہ دکھاتے ہیں ، کیا وہ بیوروکریسی بالخصوص ڈی ایم جی میں کوئی ادارہ جاتی اصلاحات کر پائیں گے ؟جبکہ ارباب شہزاد بھی ایک سابق ڈی ایم جی افسر ہیں جو نہایت اچھی شہرت کے حامل گردانے جاتے ہیں او ر چیف سیکرٹری کے پی کے کے عہدہ پر بھی فائز رہے تاہم دلچسپ امر یہ ہے کہ وہ پاکستان تحریک انصاف کی صوبائی حکومت سے نالاں ہوکر خود چیف سیکرٹری کا عہدہ چھوڑ کر وفاق میں واپس آگئے تھے اوروفاق میں ہی وفاقی سیکرٹری کے عہدے سے ریٹائرہوئے تھے تاہم اب ارباب شہزاد وزیراعظم عمران خان کے بیوروکریسی کے حوالے سے انتہائی قابل اعتماد مشیر گردانے جارہے ہیں تاہم کابینہ میں نوجوانوں کی کمی شدت سے محسوس کی جاسکتی ہے ، وزیراعظم عمران خان نے عوامی مسائل کی تو بہت حد تک درست تشخیص کی لیکن بعض جگہوں پر ٹھوس حل پیش نہیں کیا ، انہوں نے عوامی دلچسپی کے بہت سے شعبوں کا ذکر کیا لیکن ملکی ترقی کے حوالے سے کچھ شعبوں کو نظر اندازبھی کیا ، انہو ں نے ٹیکس کے نظام کی اصلاحات کی بات کی ، قرضوں کے مہیب بوجھ اوراس کے مضمرات پر روشنی ڈالی لیکن اس شیطانی چکر سے باہر نکلنے کی کوئی تدبیر بیان نہیں کی ، پالیسی میکرز ، بیوروکریٹس ، دانشور اور اکڈیمیا کے علاوہ بعض دیگر شعبوں سے متعلقہ لوگ منتظر تھے کہ پاکستان تحریک انصاف گزشتہ پانچ سال سے اقتدار میں آنے کی منتظر تھی اور ملکی حالات پر نظر رکھے ہوئے تھی تو شائد وزیراعظم عمران خان کو قرضوں کی واپسی کیلئے آئی ایم ایف یا کسی دیگر متبادل آپشن کیلئے قوم کو اعتماد میں لینا چاہئے تھا، اس طرح ملکی معیشت کے اہم ترین شعبے کے حوالے سے صنعت و حرفت ، تجارت میں مہنگائی کو روکنے کی غرض سے کوئی گائیڈ لائن فراہم کرنے کی توقع کی جارہی تھی ، چین کے ساتھ اقتصادی راہداری کے منصوبے اور کشمیر جیسے اہم ترین ایشوز بھی انکی تقریر کی زینت نہیں بنے ، وزیراعظم عمران خان کی یہ اہم ترین تقریر ان کے دفتر میں ریکارڈ ہوئی ، یہ ریکارڈنگ 5بج کر 20منٹ پر شروع ہوئی اور ایڈیٹنگ کے بعد اسے رات 10بجے نشر کیا گیا ، وزیراعظم عمران خان کی تقریرکو پوری دنیا میں پھیلے سمند پار پاکستانیوں نے بھی خصوصی طورپر سنا ۔