اہرام مصر سے فرار۔۔۔۔۔ہزاروں سال سے زندہ انسان کی حیران کن سرگزشت۔۔۔ قسط نمبر 20
رات گزرتی جا رہی تھی۔ پجاری اور دیوداسیاں ایک ایک کر کے اپنی اپنی کوٹھریوں کی طرف جا رہی تھی۔ استھان کے چبوترے پر روکاش اسی طرح چت لیٹی ہوئی تھی۔ اس کے سر اور پاؤں کی جانب انسانی کھوپڑیوں پر دو سرخ موم بتیاں روشن کر دی گئی تھیں جن کے شعلے خون کے رنگ جیسے تھے۔ مندر کی دیومالا کے اعتبار سے یہ ملامت اور عذاب آخرت کے شعلے تھے۔ میری دائیں جانب نائب کاہن بیٹھا دیوی دیوتا کی خوشنودی کے لئے اشلوک پڑھ رہا تھا۔ میں چاہتا تھا کہ وہ وہاں سے کسی طرح چلا جائے تاکہ میں روکاش پر حقیقت حال واضح کر کے اس کی پریشانیوں کو دور کر سکوں۔ مگر وہ اس انہماک سے اشلوک پڑھ رہا تھا کہ میں اسے وہاں سے چلے جانے کے لئے نہیں کہہ سکتا تھا۔ میں نے دیکھا کہ نائب کاہن کی آنکھیں بند تھیں۔ میں نے رقاصہ روکاش کی طرف نظریں اٹھائیں اور اس کی جانب دیکھ کر مسکرایا۔ روکاش کو میری مسکراہٹ پر یقین نہیں آرہا تھا۔ وہ یوں بار بار اپنی بھیگی ہوئی پلکیں جھپکنے لگی جیسے کہیں خواب تو نہیں دیکھ رہی۔ میں ایک دم سنجیدہ ہوگیا۔ مجھے اندیشہ تھا کہ کہیں کوئی مجھے مسکراتا ہوا نہ دیکھ لے۔ لیکن وہاں اس وقت سوائے نائب کاہن کے اور کوئی نہیں تھا اور نائب کاہن آنکھیں بند کئے اشلوک پڑھ رہا تھا۔ اس کی کرخت آواز میرے کانوں میں چھید کر رہی تھیں۔ میں دوسرے بار پھر روکاش کی طرف دیکھ کر مسکرایا اور ایک ہاتھ کو ذرا سا اوپر اٹھا کر پھیلایا اور پھر اپنے دل پر رکھ دیا۔ گویا میں اسے اشاروں ہی اشاروں میں کہہ رہا تھا کہ وہ کوئی فکر نہ کرے۔ کوئی غم نہ کرے۔ میں اس کے ساتھ ہوں لیکن روکاش کو اب بھی یقین نہیں آرہا تھا۔ وہ تو موت کی دہلیز پر کھڑی اور کل یا پرسوں بھرے چوک میں اس کا سر قلم ہونے والا تھا۔ اس کے وہم و گمان میں بھی یہ بات نہیں آسکتی تھی کہ میں اس کی جان بچانے والا ہوں۔
رات آدھی سی زیادہ گزر گئی تو میرے عمل کا وقت آگیا۔ میں نے پوری آنکھیں کھول کر اپنے نائب کاہن کی طرف دیکھا اور جلال بھری آواز میں کہا۔ ’’ اس ناپاک عورت کو یہاں سے لے جا کر میرے ساتھ والی کوٹھری میں بند کردو۔ دیوی اشتر اور دیوتا بعل نے ابھی ابھی مجھے میرے مراقبے میں آکر حکم دیا ہے کہ وہ اس عورت کے وجود کو اب زیادہ دیر برداشت نہیں کر سکتے۔ اس لئے اسے یہاں سے اُٹھا کر کسی کوٹھری میں بند کر دیا جائے۔‘‘
نائب کاہن بڑا مطیع اور ثابت قدم مرید تھا۔ میرے حکم پر فوراً ایمان لے آیا اور بدنصیب روکاش کے پاؤں کی طرف کھڑے ہو کر ترش لہجے میں بولا۔
’’ اٹھو بدبخت عورت اور میرے ساتھ چلو۔ دیوتا بھی اب تمہاری صورت ایک پل کے لئے برداشت نہیں کر سکتے ، چلو۔‘‘
روکاش نے میری طرف دیکھا۔ میں نے منہ دوسرے طرف کرلیا۔ وہ اٹھی اور نائب کاہن کے ساتھ میری کوٹھری کی طرف بوجھل قدموں سے چلنے لگی۔ جب میرا نائب روکاش کو میری ساتھ والی کوٹھری میں بند کر کے واپس آیا تو اس نے چابی میرے آگے رکھ دی اور سرجھکا کر بولا۔
’’ عظیم کاہن ! دیوتاؤں کے حکم کی تعمیل کی دی گئی ہے۔‘‘
میں نے نائب کاہن کے کاندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا۔
’’ آج تم نے ایک ایسا کام کیا ہے کہ جس کے لئے میں اور تمام دیوتا تمہیں ہمیشہ یاد رکھیں گے۔‘‘
نائب کاہن منہ کھولے میری طرف تکنے لگا۔ میں نے آج تک کبھی اس کے کاندھے پر ہاتھ رکھ کر بات نہیں کی تھی۔ میں بھی فوراً سنبھل گیا۔ میں نے اپنا ہاتھ کھینچ لیا اور کہا۔‘‘آج سے تم دیوتاؤں کے منظور نظر ہوگئے ہو اور تم بہت جلد میری جگہ لے لو گے۔ اسی لئے میں نے تمہارے کاندھے پر ہاتھ رکھا تھا۔ میں تمہیں اس مقدس فرض کی بجا آوری کے لئے دیوی دیوتا کی جانب سے ہدیہ خوشنودی پیش کرتا ہوں۔‘‘
نائب نے دونوں ہاتھ سینے پر باندھ لئے اور تعظیم بجا لا کر بولا۔
’’ دیوتا آپ کی عمر دراز کریں۔ میں آپ کے زیر سایہ رہ کر دیوتاؤں کی خدمت کرنے کو ہی اپنے لئے باعث افتخار سمجھتا ہوں۔‘‘
میرے پاس اس کی فضول باتوں کا جواب دینے کے لئے وقت نہیں تھا۔ میں جانتا تھا کہ میرے معتمد جاسوس نے دونوں گھوڑے شہر کی مشرقی فصیل کی جانب کھڑے کر دیئے ہوں گے اور الکندہ بھی اپنی کوٹھری میں میری راہ دیکھ رہی ہوگی۔ دوسری طرف وقت بھی گزرتا جا رہا تھا۔ میں نے اسے کہا کہ اب وہ اپنے حجرے میں جا کر آرام کر سکتا ہے۔ جب وہ جا چکا تو میں دھڑکتے ہوئے دل سے اپنی جائے رہائش سے ملحقہ کوٹھری میں آگیا جہاں میری محبوبہ رقاصہ روکاش سر جھکائے خاموش بیٹھی تھی۔ طاق میں دیا جل رہا تھا۔ میں کوٹھری میں داخل ہوا تو روکاش نے سر اٹھا کر مجھے دیکھا۔ وہ پہلے سے کمزور ہوگئی تھی۔ اس کے رخساروں کے شعلے زرد پڑنے لگے تھے اور آنکھوں میں حلقے پڑ گئے تھے۔ وہ میری طرف ٹکٹکی باندھے تک رہی تھی جیسے وہ سمجھ نہیں یا رہی تھی کہ اسے اس کوٹھری میں کیوں پہنچایا گیا ہے اور میں اکیلا اس کے پاس کیوں آیا ہوں۔ کیا میں بدل گیا ہوں؟ کیا میں اب بھی اس سے ہمدردی رکھتا ہوں؟ اس کو تو کبھی یہ خیال بھی نہیں آیا ہو گا کہ میں اس سے ٹوٹ کر پیار کرتا ہوں۔ وہ اٹھ کھڑی ہوئی اور ہاتھ باندھ کر کہنے لگی۔
’’ عظیم کاہن ! مجھے معافی نہیں ملے گی؟ مجھے قتل ہونے سے بچالو۔ میں ابھی مرنا نہیں چاہتی ، تم مقدس۔۔۔‘‘
میں نے اس کے منہ پر ہاتھ رکھ دیا۔ ’’ آگے کچھ نہ کہنا روکاش ، میں جانتا ہوں تم مجھے کس القاب سے پکارنے والی ہو۔ مگر میں تمہیں یہ کہنے آیا ہوں کہ کہ میں تم سے پیار کرتا ہوں۔‘‘
وہ حیرت اور خوشی سے میری باتیں سن رہی تھی۔ لگتا تھا کہ میری باتوں پر اسے یقین بھی آرہا ہے اور نہیں بھی آرہا۔
میرے ضبط کا بند ٹوٹ گیا تھا۔ محبت کے انمول ہیجان خیز الفاظ نہ جانے کہاں سے آکر میری زبان سے ادا ہو رہے تھے۔ جب میں نے روکاش کو بتایا کہ میں اسے وہاں سے فرار کروا رہا ہوں اور اس کی سہیلی الکندہ اپنی کوٹھری میں اس کی راہ دیکھ رہی ہے تو وہ میرے قدموں پر گر پڑی اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ میں نے اسے شانوں سے پکڑ کر اٹھایا اور کہا۔
تمہارے جگہ میرے قدموں میں نہیں۔ میری دل میں ہے۔ روکاش اب جلدی سے میرے ساتھ الکندہ کی کوٹھری میں چلو۔‘‘
میں اسے لے کر الکندہ کی کوٹھری میں آگیا۔ وہ بے چینی سے ہمارا انتظار کر رہی تھی۔ دونوں پرانی سہیلیاں ایک دوسری کے گلے لگ کر ملیں۔ اور آنسو بہانے لگیں۔ میں نے اتنی دیر میں راہ داری میں جا کر دیکھا کہ وہاں کوئی پہرے دار تو نہیں چل پھر رہا۔ راہ داری سنسان تھی۔ اب میں نے الکندہ اور روکاش کو ساتھ لیا اور تاریک شہہ نشینوں اور راہ داریوں سے نکل کر مند کے تہہ خانے کی ایک خفیہ سرنگ میں آگیا۔ یہ خفیہ راستہ اسی لئے بنایا گیا تھا کہ اگر کبھی ملک دشمن قبضہ کر لے تو مندر کا کاہن اپنی پسندیدہ دیوداسی کے ساتھ شہر سے فرار ہوسکے۔ تعجب کی بات تھی کہ اس وقت بھی مندر کا کاہن اعظم اپنی پسندیدہ دیوداسی کے ساتھ فرار ہو رہا تھا۔
سرنگ تنگ و تاریک تھی۔ میں ایک شمع جلا کر الکندہ کو دی اور کہا۔ ’’ میں نے تمہیں سب کچھ بتا دیا ہے ، پیچھے جو ہوگا میں سنبھال لوں گا۔ اب تم جتنی جلدی ہو سکے یہاں سے نکل جاؤ۔ یہ سرنگ تمہیں فصیل شہر کے مشرقی جانب لے جائے گی۔ وہاں تمہیں گھوڑی تیار ملیں گے اور کھانے پینے کا سامان بھی ان پر موجود ہوگا۔ میں بہت جلد تمہارے پاس پہنچ جاؤں گا۔ تم منوچہر جھیل کے جنگل میں چھپی رہنا‘‘
روکاش کو اب بھی یقین نہیں آرہا تھا کہ وہ جلاد کی تلوار کے نیچے سے نکل کر محبت بھری زندگی سے دوبارہ ہم آغوش ہو رہی ہے۔ میں نے اس کے کان کے پاس ہونٹ لے جا کر کہا۔ ’’ فکر نہ کرنا میں تمہارے پاس بہت جلد پہنچ جاؤں گا اور پھر ہم کسی دوسرے ملک میں چلے جائیں گے اور ہنسی خوشی زندگی بسر کریں گے۔ ‘‘ روکاش کی آنکھوں سے آنسو ڈھلک رہے تھے۔ شمع کی روشنی میں یہ آنسو ہیرے لگ رہے تھے۔ وہ مسکرائی، ایک مدت کے بعد میں نے اپنی محبت کی دنیا کو مسکراتے دیکھا تھا۔ میں اس مسکراہٹ کو روکاش کی طرف سے اعتراف محبت ہی سمجھ سکتا تھا۔ میرا دل روکاش کی محبت اور اس کے لئے اپنی جان تک قربان کر دینے کے جذبے سے لبریز ہوگیا۔ میں نے اسے رخصت کر دیا۔ بھلا اس وقت کبھی مجھے یہ خیال آسکتا تھا کہ میں اپنی محبوبہ کو آخری بار دیکھ رہا ہوں؟ نہیں۔ یہ ناقابل یقین خیال میرے ذہن کے قریب بھی نہیں بھٹک سکتا تھا مگر ہونی ہو کر رہتی ہے۔
تاریخ کے ہزاروں سال کے ادوار میں عہد بہ عہد سفر کرتے ہوئے میں نے دوسرے تجربوں کے ساتھ یہ علم بھی سیکھا کہ کچھ رونما ہونے والے واقعات ایسے ہوتے ہیں کہ ہم انہیں اپنی تمام ترکوششوں کے باوجود وقوع پذیر ہونے سے نہیں روک سکتے اور ہم ان سے بے خبر ہوتے ہیں۔ آپ اسے مقدرات کی ستم ظریفی کہیں گے مگر میرا ایمان ہے کہ کچھ واقعات ہماری محنت اور کوششوں کا نتیجہ ہوتے ہیں۔ ان کے حسن و قبح پر ہمارا اختیار ہوتا ہے یعنی ہمارے جدوجہد کے نتیجے میں ہی وہ اچھی یا بری شکل اختیار کرتے ہیں لیکن کچھ واقعات ہماری پیدائش سے پہلے ہی کائنات کی لوح مقدر پر ثبت ہوتے ہیں۔یہ منشائے فطرت ہوتا ہے اور وہ اپنے وقت پر ظاہر ہو کر رہتے ہیں۔ میرے ساتھ بھی یہی کچھ ہورہا تھا۔ مجھے معلوم ہی نہیں تھا کہ لوح مقدر کے حروف مقسوم حرکت میں آچکے ہیں اور گردش سیارگان نے ازل سے جو حکم دے دیا تھا۔ اس پر عمل شروع ہونے ہی والا ہے۔
میں نے بھیگتی پلکوں سے اپنی محبوبہ کو رخصت کیا اور سرنگ کے دروازے کو بند کر کے واپس ہوا۔ میں اندھیری راہ داریوں سے چھپ کر گذر تا اپنی کوٹھری میں آکر بستر پر گر پڑا۔ میرا دل خوشی سے دھڑک رہا تھا۔ میں نے اپنی محبوبہ ، اپنی زندگی کو موت سے آزاد کر کے ہمیشہ کے لئے اپنا لیا تھا۔ اس سے بڑھ کر میرے لئے مسرت کا اور کونسا مقام ہوسکتا تھا۔ میں آئندہ کے لائحہ عمل پر غور و فکرکرنے لگا۔ میں جانتا تھا کہ صبح جب دیوتا بعل کی مرتد مجرمہ روکاش کے فرار کی خبر مندر ، شاہی محلات اور سارے شہرمیں پھیل جائے گی تو کیا قیامت ٹوٹ پرے گی۔ اس کے فرار کا الزام کاہن اعظم پر لگایا جائے گا۔ کیوں کہ وہ میری حفاظت میں دی گئی تھی۔ وہ شاہی مجرمہ تھی۔ اسے بادشاہ کی طرف سے موت کی سزا سنائی گئی تھی۔ ایک روز بعد شہر کے چوک میں ہزاروں لوگوں کے سامنے اس کا سر قلم کیا جانے والا تھا۔ یہ ایک قیامت خیز حادثہ تھا اور میں نے ان حالات سے نمٹنے کے لئے اپنی سب سے بڑی طاقت سے کام لینے کا فیصلہ کر رکھا تھا۔ (جاری ہے)