صدر ٹرمپ کی ٹیلی فون ڈپلومیسی

صدر ٹرمپ کی ٹیلی فون ڈپلومیسی

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے مقبوضہ کشمیر کے معاملے پر پاکستان اور بھارت کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی کے پیش نظر وزیراعظم عمران خان اور بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کو فون کئے ہیں، صدر ٹرمپ نے دونوں رہنماؤں پر زور دیا کہ وہ کشیدگی کا خاتمہ کریں،انہوں نے مودی سے کہا کہ خطے کا امن برقرار رہنا چاہئے،مسئلہ کشمیر پر دونوں ممالک میں پائی جانے والی کشیدگی کو کم کیا جائے،وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے بتایا ہے کہ وزیراعظم نے پیر کی رات10 بجے صدر ٹرمپ سے ہونے والی گفتگو میں مودی کے اقدام کی وجہ سے پیدا ہونے والی صورتِ حال سے آگاہ کیا اور انہیں بتایا کہ مودی کے5اگست کے اقدام نے خطے کے امن و امان کو خطرات سے دوچار کر دیا ہے،وزیراعظم نے صدر ٹرمپ سے مقبوضہ کشمیر میں کرفیو ختم کرانے اور انسانی حقوق کے مبصرین بھیجنے کے لئے بھی کہا ہے۔
صدر ٹرمپ کی5اگست کے بھارتی اقدام کے بعد کشمیر کے معاملے پر پالیسی کیا ہے یہ ابھی تک ایک سربستہ راز ہے، سرکاری طور پر امریکہ مودی کے اس اقدام کو بھارت کا اندرونی معاملہ قرار دیتا ہے، سلامتی کونسل کے حالیہ اجلاس میں بھی امریکہ نے یہی موقف اپنایا، لیکن اس تناظر میں اہم بات یہ ہے کہ صدر ٹرمپ نے وزیراعظم عمران خان کے دورہئ امریکہ کے دوران دونوں ممالک میں کشمیر پر ثالثی کرانے کی جو پیش کش کی تھی اور جسے بھارت نے مسترد کر دیا تھا، کیا اس سلسلے میں اب بھی کوئی پیش رفت ہو سکتی ہے یا نہیں،کشمیر، 5 اگست کے بھارتی اقدام سے پہلے بھی متنازع علاقہ تھا اور اب بھی متنازع ہے،حتیٰ کہ سلامتی کونسل کے تازہ ترین اجلاس میں بھی اس کی متنازع حیثیت پر ہی زور دیا گیا ہے،اِس لئے فریقین میں ثالثی تو اب بھی کرائی جا سکتی ہے البتہ یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ صدر ٹرمپ کیا اپنے اعلان پر قائم ہیں یا بھارت کے انکار کے بعد انہوں نے بھی اپنی پیش کش واپس لے لی،جو بھی ہے بھارتی انکار کے بعد صدر ٹرمپ ثالثی کے سلسلے میں کوئی زیادہ متحرک نہیں رہے، نہ ان کی زبان پر پھر یہ لفظ کبھی آیا نہ اُن کے دفتر نے دوبارہ دہرایا اور نہ ہی امریکی دفتر خارجہ نے کبھی اس پر روشنی ڈالی،شاید وہ اپنے طور پر اس باب کو بند کر چکے ہوں اور اس پیش کش کی حیثیت محض رات گئی، بات گئی کے مترادف رہ گئی ہو۔
صدر ٹرمپ نے مودی اور عمران خان دونوں سے کہا ہے کہ وہ کشیدگی کم کر کے،امن قائم کریں،لیکن دیکھنے والی بات یہ ہے کہ امن شکن اقدام کون کر رہا ہے اس کا آغاز تو مودی نے کیا ہے اور کشمیر کو دو حصوں میں تقسیم کرنے کے اعلان کے بعد سے تا ہنوز ریاست میں کرفیو نافذ ہے اور پوری ریاست ایک وسیع تر جیل خانے کی شکل اختیار کر چکی ہے انسانی حقوق کی تنظیموں کے جو وفود ریاست کا دورہ کرتے ہیں وہ واپس آ کر یہی رپورٹ دیتے ہیں کہ پوری ریاست میں اُنہیں ایک بھی کشمیری ایسا نہیں ملا جو مودی کے تازہ اقدام کا حامی ہو، حتیٰ کہ جو سیاست دان روایتی طور پر بھارتی حکومت کے حامی چلے آ رہے تھے وہ بھی مودی کے اس اقدام پر سخت مشتعل ہیں اور اوپر سے کرفیو کی پابندیوں نے اُنہیں آتش زیر پا کر رکھا ہے ایسے میں مودی کو تو یہ کہنے کی ضرورت ہے کہ وہ کرفیو ختم کر کے انسانی آزادیاں بحال کریں اور کشمیریوں کو معمول کی زندگی گزارنے دیں،لیکن یا تو کوئی کھل کر اُن سے یہ بات ہی نہیں کر رہا اور اگر کر رہا ہے تو ساتھ ہی ساتھ پاکستان کو بھی ”صبرو تحمل“ کی تلقین کرنا بھی ضروری سمجھتا ہے، حالانکہ پاکستان نے تو کوئی ایسا قدم نہیں اٹھایا جس سے کشیدگی بڑھے،کشیدگی والے سارے اقدامات کا آغاز تو مودی کر رہے ہیں ایسے میں دونوں ممالک کے رہنماؤں کو فون کر کے ایک ہی طرح کی تلقین کرنا بے معنی ہے۔
بھارت کے اندر بھی کشمیر میں مودی کے اقدامات پر نکتہ چینی کا سلسلہ جاری ہے، مغربی بنگال کی وزیراعلیٰ ممتا بینر جی نے کہا ہے کہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر انہیں سخت تشویش ہے اپنے ایک ٹویٹ میں انہوں نے کہا کہ1996ء میں قید خانے میں ہلاکتوں کے خلاف انہوں نے اکیس روز سڑک پر گزارے تھے، اسی طرح نوبل انعام یافتہ بھارتی ماہر معیشت و فلاسفر ڈاکٹر امریتا سین نے مقبوضہ کشمیر کی صورتِ حال پر مودی سرکار کو آڑے ہاتھوں لیا اور کہا کہ اِس اقدام سے اس تمام تر جمہوری جدوجہد پر پانی پھیر دیا گیا،جس پر بھارت کو فخر تھا۔ان کا کہنا تھا کہ انہیں اب بھارتی شہری ہونے پر فخر نہیں۔بھارتی سیاست دانوں اور ممتاز شہریوں کی طرف سے اس طرح کے شدید ردعمل کے باوجود مودی سرکار کشمیر میں کوئی نرمی کرنے کے لئے تیار نظر نہیں آتی اور نہ صرف ریاست میں ظلم و جور اپنے عروج پر ہے، بلکہ کنٹرول لائن اور ورکنگ باؤنڈری پر کشیدگی میں بھی اضافہ ہو چکا ہے اور بھارت کی اشتعال انگیزی کی وجہ سے ہر روز فوجی اور شہری شہید ہو رہے ہیں،اس فضا میں بھارت کو یہ سمجھانے کی ضرورت ہے کہ اگر کشیدگی کا یہ سلسلہ اسی طرح بڑھتا اور پھیلتا رہا تو باقاعدہ جنگ بھی شروع ہو سکتی ہے۔
وزیراعظم عمران خان کہہ چکے ہیں کہ بھارت آزاد کشمیر میں لڑائی کا آغاز کرنا چاہتا ہے۔ یہ بات امریکی صدر کو بتانے کی بھی ضرورت ہے، جنہوں نے ایک ہفتے میں دوسری مرتبہ وزیراعظم سے ٹیلی فون پر بات چیت کی ہے،اِس وقت افغانستان میں امن کے لئے طالبان سے بھی امریکہ کے مذاکرات جاری ہیں اور کنٹرول لائن کی کشیدگی کی وجہ سے یہ مذاکرات بھی متاثر ہو سکتے ہیں۔اگر یہ کشیدگی جاری رہتی ہے تو پاکستان کو اپنی فورسز مغربی بارڈر سے مشرقی بارڈر پر منتقل کرنا پڑیں گی اور ایسی صورت میں وہ عناصر سرگرم عمل ہو سکتے ہیں جو افغانستان میں مذاکرات کی کامیابی نہیں چاہتے۔ کابل میں شادی کی ایک تقریب میں حالیہ خونریز دھماکہ بھی اسی مقصد کے لئے کیا گیا تھا، ایسی اطلاعات ہیں کہ افغانستان کے چار مشرقی صوبوں ننگر ہار، نورستان،کنڑ اور لغمان میں داعش موجود ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ مقامی انتہا پسند عناصر اگر اس کے ساتھ مل کر دہشت گردی کی کارروائیاں کریں گے تو افغانستان میں امن کا خواب نہیں دیکھا جا سکتا، پاکستان افغانستان کے ساتھ اپنی سرحد پر اسی صورت میں زیادہ فوج رکھ سکتا ہے جب اس کی مشرقی سرحد محفوظ ہو، امریکہ کو یہ بات مودی کو سمجھانے کی ضرورت ہے جو اس بات پر سیخ پا ہیں کہ افغانستان میں بھارت کا کردار محدد ہو کر رہ گیا ہے جسے وہ طویل عرصے سے دہشت گردی کے لئے استعمال کر رہا تھا۔صدر ٹرمپ اگر خطے میں امن کے لئے ٹھوس اقدام کرنا چاہتے ہیں تو مودی کو اُن کی امن دشمن کوششوں سے روکنا ہو گا۔

مزید :

رائے -اداریہ -