ڈاکٹر ماہا خودکشی،فیملی کراچی میں نہیں، مقدمہ درج نہ ہوسکا
کراچی(کرائم رپورٹر)کراچی کے علاقے ڈیفنس گزری میں ڈاکٹر ماہا کی مبینہ خودکشی واقعے پر پولیس نے کہا ہے کہ اہل خانہ تدفین کے لیے میر پور خاص گئے ہیں، کیس کا مقدمہ تاحال درج نہیں ہوا ہے۔پولیس کے مطابق ڈاکٹر ماہا کی مبینہ خودکشی واقعے کی تفتیش جاری ہے، موقع سے ملنے والے پستول کو فارنزک کے لیے دیا گیا ہے،جبکہ پستول کی ملکیت معلوم کرنے کے لیے اسپیشل برانچ کو خط لکھا گیا ہے۔پولیس نے بتایا کہ تفتیش میں قتل کے شواہد سامنے آئے تو مقدمہ درج کیا جائے گا، تفتیش کے سلسلے میں ڈاکٹر ماہا کے قریبی دوستوں سے بھی رابطہ جاری ہے۔پولیس کے مطابق اب تک کی تحقیقات کے مطابق معاملہ خودکشی کا ہی معلوم ہوتا ہے۔دوسری جانب ڈاکٹر ماہا علی کی خودکشی کے معاملے نے نیا رخ اختیار کر لیا۔پوسٹ مارٹم میں انکشاف ہواہے کہ ماہا علی کے سر کے پیچھے گولی لگی،بظاہر یہ بات عجیب معلوم ہوتی ہے کہ ایک طرف دعوی کیا جا رہا ہے کہ ماہا علی نے خودکشی کی لیکن خودکشی کرنے والا شخص سر کے پیچھے گولی نہیں مار سکتا۔بتایا گیا کہ جب ماہا علی نے خو دکو گولی ماری تو اسکی چھوٹی بہن نے اسلحہ چھپا دیا تھا کہ کہیں والد بھی خود کو گولی مار کر خودکشی نہ کر لیں۔پولیس نے اسلحہ تحویل میں لے لیا ہے اور تحقیقات کی جا رہی ہیں کہ یہ اسلحہ کس کے نام پر تھا۔ڈاکٹر ماہا علی کی لاش آبائی گاوں میر پور خاص بھجوا دی گئی ہے۔یہ بھی بتایا گیا کہ ی۔مبینہ خودکشی کرنے والی ڈاکٹر ماہا کی اپنے والد سے تلخ کلامی ہوئی تھی۔ڈاکٹر ماہا ایک عرصے سے گھریلو پریشانی کا شکار تھیں۔ڈاکٹر ماہا والد اور بہنوں کے ساتھ 15 دن قبل کرائے کے گھر پر آئی تھی۔ ڈاکٹر ماہا علی کے ورثا نے قانونی کاروائی سے انکار کر دیا۔ ذرائع کے مطابق ڈاکٹر ماہا علی کے والدین میں علیحدگی ہو چکی تھی جبکہ دونوں نے دوسری شادیاں کر رکھی تھیں۔ان تمام وجوہات کی بنا پر ڈاکٹر ماہا علی ذہنی دباؤ کا شکار تھی۔ بتایا جاتا ہے کہ ڈاکٹر ماہا علی درگاہ گرھوڑ شریف کے گدی نیشن کی بیٹی تھیں۔