کیا ہم گدھے ہیں؟
گدھے اور گھوڑے میں بحث چل رہی تھی گھوڑا کہہ رہا تھا آسمان نیلا ہے جبکہ گدھے کا کہنا تھا آسمان کالا ہے دونوں اپنی جگہ پر اٹل تھے فیصلہ جنگل کے بادشاہ یعنی شیر کے پاس چلا گیا شیر نے گھوڑے کو سزا سنا دی گھوڑے نے کہا بادشاہ سلامت آپ جانتے ہیں میں صحیح ہوں بادشاہ نے کہا تمہیں سزا اس بات کی نہیں دی بلکہ سزا اس بات کی دی گئی ہے کہ تم نے گدھے سے بحث کی۔
ان دنوں یہی حالات ہمارے ملک کی سیاست کے ہیں لوگ ”گدھوں“ سے بحث کرتے دکھائی دیتے ہیں حالانکہ سب جانتے ہیں کہ انہوں نے ملک کو کس قدر نقصان پہنچایا کہ جس کا ازالہ کرتے بھی صدیاں لگ جائیں اور ہم ان کی بات مانتے آئے ہیں انکی باتوں میں آ کر ہم نے اپنا بڑا نقصان کیاوقت کا ضیاع کیا یہ ہمیں آج تک بے وقوف بناتے رہے ہیں انہوں نے کبھی لسانی کبھی مذہبی کبھی فرقہ واریت کبھی صوبائیت تو کبھی سیاسی جھگڑوں میں الجھائے رکھا ان کی بات مان کر آج ہم یہ سزا بھگت رہے ہیں انہوں نے کبھی سہانے مستقبل کے خواب دکھا کر ہمیں لوٹا کبھی حالات کی بہتری کی نوید سنائی کبھی ملک کی ترقی تو کبھی عوامی خوشحالی کے نام پر یہ لوگ ہمیں بے وقوف بناتے رہے ہم آج تک یہ فیصلہ نہیں کر پائے کہ در اصل وہ”گدھے“ تھے جن کی ہم نے بات مانی یا ہم گدھے ہیں کہ جو ان کی بات مان کر ان خساروں کو پہنچے۔ہم بجلی کی گرانی کا رونا روتے ہیں مہنگائی کا واویلا کرتے ہیں بے روزگاری کا ماتم کرتے ہیں ملک کی شکستہ صورتحال۔ کاروبار کی خستہ حالی پہ کڑھتے ہیں لاغر معیشت۔ حالات کی مشکلوں نا انصافیوں۔بد امنی۔ افراتفری کی بات کرتے ہیں لیکن یہ سارے خرابے ہمارے حصے میں آئے اس لئے کہ ہم نے انکی تقلید کی اور یوں اپنی منزل کو کھو دیا ہم نے سوچا تھا کہ ان کی رہنمائی میں اپنی منزل پا لیں گے حالانکہ ان کی رہنمائی میں منزل کیا پاتے ہم نے راستے بھی کھو دئیے ہمارے راستوں کا تعین تو پہلے روز سے ہو چکا نبی کریم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمارے راستوں کا تعین کر دیا تھا۔ آزادی کی جدوجہد میں قائد اعظم نے ہماری راہیں متعین کر دی تھیں لیکن ہم صرف ان کی بات مان کر راستوں سے بھٹک گئے نتیجتاً آج ہم گرتے پڑتے گم گشتہ راستوں میں بھٹک رہے ہیں ہمیں کوئی راہ ہی نہیں مل رہی کہ جس پر چل کر اپنی منزل کو پالیں نہ ہی ہمیں کوئی سراغ مل رہا ہے نہ ہی کوئی ایسا رہنما نظر آتا ہے جو ہماری منزلوں کا نشان ہی دکھا دے 50۔60 سال پہلے یہ لوگ جو نعرے لگاتے تھے جو وعدے کرتے تھے آج 50۔ 60 سال بعد بھی یہ ہم سے وہی وعدے اور باتیں کر رہے ہیں نہ تو ان کے وعدے بدلے نہ ہی نعرے وہی باتیں دہرائی جارہی ہیں اور ہم ان ہی باتوں پہ یقین کئے جارہے ہیں۔
پاکستان کا قیام دنیا کی تاریخ میں کسی معجزے سے کم نہیں تھا ہم چاہتے تو پاکستان کو آج دنیا کے مقابلے میں لے آتے پاکستان جو عالم اسلام کی پہلی ایٹمی قوت ہے ہم ایک ایٹمی قوت کے ہوتے ہوئے بھی محروم تمنا ہیں دوسروں کے رہین منت ہیں نہ ہم اپنابھلا کر پا رہے ہیں نہ ہم کسی دوسرے کے کام آ رہے ہیں دنیا دیکھ رہی ہے کہ اسرائیلیوں نے فلسطینیوں کی اینٹ سے اینٹ بجا دی فلسطینیوں کو گھیر گھیر کر مارا جارہا ہے انہیں اتنی عبرت ناک موت دی جارہی ہے کہ دنیا کی تاریخ بھی شرما کر رہ جائے ذرا سوچئیے آج سے 50 سال بعد ہم کس جگہ ہونگے ہماری حالت کیسی ہوگی پاکستان کے جو اسلام کے نام پر معرضِ وجود آیا کی بنیاد ہی کلمہ طیبہ پر ر کھی گئی اور پاکستان عشاق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مسکن ہے لیکن ہم کون سی ایسی راہ پر چلے کہ جن پر آزادی کی تحریک میں لازوال قربانیاں دینے والے ہمارے شہیدوں نے ہمیں گامزن کیا تھاہم تو ان لوگوں کی بات مان کر اپنی پہچان بھی کھو بیٹھے دنیا کی آنکھ نے فلسطین میں ایسے ایسے منظر دیکھے کہ جن کے تصور سے بھی روح کانپ اٹھے وہ بوڑھا جو بچوں کی لاشوں پہ کھڑا ہو کر انہیں پیغام دے رہا تھا کہ میرے بچو! تم جنت مکیں ہوئے تم جنت میں جا کر نبی کریم حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی بارگاہ اقدس میں بعد از درود و سلام عرض کرنا کہ ہر طرح کے وسائل سے مالا مال امت مسلمہ ہمیں مرتا جلتا کٹتا دیکھتی رہی لیکن ہمیں بچا نہ سکی ہماری امداد کو نہ پہنچی دنیا کی آنکھ نے دیکھا کہ ایک ایک کمرے میں کم سن بچوں کی لاشیں بکھری پڑی ہیں خون میں لتھڑے ہوئے ان کے جسم اور جسم کے بکھرے ہوئے اعضاء جابجا اسرائیل کی درندگی کا نوحہ کہہ رہے تھے دنیا کی آنکھ دیکھ رہی ہے کہ اسرائیلی،فوج فلسطینیوں کا تعاقب کر کے ڈھونڈ ڈھونڈ کر ماررہی ہے دنیا چیختی رہی لیکن اسرائیل کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی ہسپتال میں زخمیوں پر میزائل گرا دیے گئے سکولوں مساجد اور چرچ تک نہیں چھوڑے گئے پناہ گزینوں پر بم برسا دیے گئے رمضان المبارک میں فلسطینی روزہ داروں کو عین اس وقت شہید کیا گیا کہ جب وہ افطاری کرنے والے تھے ہجرت کرنے والوں کو راستوں میں مارا گیا دنیا کی تاریخ نے دیکھا کہ مائیں اپنے بچوں کی لاشیں ڈھونڈ رہی ہیں باپ اپنے بچوں کے جسموں کے چیتھڑے تھیلوں میں ڈالے کلمہ طیبہ پڑھتے کہہ رہے ہیں یہ میرے بچوں کے چیتھڑے ہیں ماں اپنے زخمی بچے کو گود میں اٹھائے اس کے لیے پانی کی فریاد کر رہی ہے لیکن اس کو پانی میسر نہیں علاج دستیاب نہیں غزہ کی ہر گلی میں کربلائی مناظر دیکھنے کو ملے لیکن دنیا میں کوئی مسلم ملک بھی اسرائیلیوں کے بڑھتے ہوئے قدم روک نہ سکا دنیا کی تاریخ نے دیکھا کہ اسرائیل نے کسی ملک کی خود مختاری کی پرواہ نہیں کی شام لبنان ایران ہر جگہ پر اپنے اہداف کو نشانہ بنایا لیکن ہم کہیں بھی کسی کی امداد کو نہیں پہنچے ہم کسی کی امداد کو کیا پہنچتے کہ ہم خود بڑی کسمپرسی کا شکار ہیں ہماری اپنی حالت بڑی خراب ہے جسکے ذمہ دار جہاں یہ حضرات ہیں وہاں خود ہم بھی ہیں کہ ہم۔نے بار بار انہی کا انتخاب کیا اس لئے ہم آج کتنا ہی کہیں کہ آسمان نیلا ہے یہ اسے کالا ہی کہیں گے لیکن ہمارے صحیح ہونے کے باوجود سزا کے ہم ہی مستحق ہیں کہ ہم ان کی بات مانتے رہے ہیں۔