خوراک سب کے لئے، شاباش ڈاکٹر نوید الٰہی
نیشنل انسٹیٹیوٹ آف پبلک پالیسی(NIPP) حکومت پاکستان کا ایک ایسا ادارہ ہے جو حکومت کو مختلف اہم موضوعات پر تحقیق کر کے پالیسی سازی کی سفارشات پیش کرتا ہے یہ ادارہ نیشنل سکول آف پبلک پالیسی(NIPP) کا اہم حصہ ہے۔NIPP حکومت کو آزادانہ طور پر سفارشات پیش کرتا ہے۔ ملکی، بین الاقوامی اداروں کے اشتراک اور ماہرین کی اجتماعی دانش کے ذریعے، قومی اہمیت کے معاملات پر پالیسی سازی،معاملات میں بہتری اور حکومتی فیصلہ سازی میں معاملہ فہمی اور انتظامی امور میں حقیقی بہتری لانے میں معاونت کا فریضہ انجام دیتا ہے، مہمان نامور شخصیات شعبہ جاتی ماہرین، ملکی و غیر ملکی اداروں کے نمائندگان اور تحقیق و تالیف سے وابستہ ماہرین کو دعوت دی جاتی ہے جو سر جوڑ کربیٹھتے اور کسی طے کردہ ایشو پر اس کے حل کی تجاویز تیار کرتے ہیں،جو سرکاری پالیسیوں کا حصہ بنتی ہیں اور اس طرح معاملات آگے بڑھتے ہیں۔
ملک کے کئی ماہرین، بیورو کریٹ اور محققین اس ادارے کی سربراہی کر چکے ہیں آج کل جوان ہمت، روشن خیال اور وژنری سینئر بیورو کریٹ ڈاکٹر نوید الٰہیNIPP کے ڈین ہیں انہوں نے اِس ادارے کو اس کے حقیقی مینڈیٹ کے مطابق چلانے،بلکہ دوڑانے کا عزم کر رکھا ہے وہ اُمید کی ایک کرن نہیں،بلکہ حقیقی تبدیلی اور مثبت آؤٹ کم پر یقین ہی نہیں رکھتے،بلک اس کو عملی صورت میں دیکھنے کے لئے کاوشیں بھی کرتے ہیں۔پاکستان کے جاری مسائل کے بارے میں ان کا نقطہ نظر مثبت،اُمید افزاء اور حقیقت پسندانہ ہے،حال ہی میں انہوں نے ”فوڈ سکیورٹی“ کے موضوع پر ایک دو روزہ قومی کانفرنس کا انعقاد کیا جس میں چاروں صوبوں کے ماہرین،ادارہ جاتی نمائندگان، ورلڈ فوڈ آرگنائزیشن اور کسانوں کے نمائندوں کے علاوہ، یونیورسٹیوں کے محققین نے شرکت کی۔اس کانفرنس میں ریٹائرڈ اور حاضر سروس شعبہ جاتی ماہر بیورو کریٹس اور نامور صحافیوں نے شرکت کی۔دو روزہ کانفرنس کے مجموعی طور پر سات سیشن ہوئے۔ صبح9 بجے تا4 بجے سہ پہر جاری رہنے والے ان سیشنز میں ماہرین نے بھرپور انداز میں حصہ لیا۔ ”خوراک سب کے لئے،دستیاب، قابل رسائی، قابل قدر، کھانے کے قابل“ کے موضوع پر سیر حاصل گفتگو ہوئی۔
کانفرنس کے افتتاحی سیشن میں پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ کے وزیر احسن اقبال بھی شریک ہوئے انہوں نے بڑی سیر حاصل اور پُرمغز تقریر کی۔اپنی حکومت کی ترجیحات بیان کیں اپنی پارٹی کے سابقہ ادوارِ حکومت کے وژن اور میگا پراجیکٹس کا ذکر کیا۔ منصوبہ سازی کے نتیجہ خیز نہ ہونے کے بارے میں بھی بتایا۔انتہائی اہم بات جو انہوں نے بتائی کہ کسی بھی پالیسی کے بار آور اور نتیجہ خیز ہونے کے لئے اسے کم از کم دس سال تک نافذ العمل رکھنا ضروری ہے۔ویسے ڈاکٹر نوید الٰہی صاحب اپنی گفتگو میں عموماً ہندوستان کی مثال دیتے ہیں جب من موہن سنگھ نے بطور وزیراعظم بھارت سرکار کی باگ ڈور سنبھالی تو اس وقت بھارتی معیشت ڈوبی ہوئی تھی، زرمبادلہ کے ذخائر نہ ہونے کے برابر تھے، بھارتی کرنسی بالکل بے وقعت تھی۔ من مون سنگھ ماہر معاشیات ہونے کے ساتھ محب وطن ہندوستانی اور عوام کے ساتھ جڑے ہوئے تھے انہیں اس وقت کی عوامی جماعت کانگریس کی مکمل تائید بھی حاصل تھی انہوں نے بھارتی معیشت کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کے لئے پالیسیاں تشکیل دیں،ان کے بعد آنے والی حکمران جماعتوں نے بھی ان کی شروع کردہ پالیسیوں پر عمل جاری رکھا آج بھارت عالمی معاشی میدان میں ایک انتہائی اہم کھلاڑی کے طور پر اپنا آپ منوا رہا ہے۔
ڈاکٹر نوید الٰہی پاکستان کے بارے میں ایسے ہی خیالات رکھتے ہیں کہ پاکستان کو اقوامِ عالم میں معزز مقام دلانے کے لئے موثر حکمت عملی کی ضرورت ہے۔ احسن اقبال صاحب نے بھی من موہن سنگھ کی مثال دی اور بتایا کہ اگر ان کی اختیار کردہ پالیسیوں اور وژن 2010ء اور وژن2025ء کو مکمل ہونے دیا جاتا تو آج پاکستان ایسی معاشی بدحالی کا شکار نہ ہوتا،لیکن سیاسی عدم استحکام اور ریاستی مداخلت کے باعث پالیسیوں پر عملدرآمد نہیں ہو سکا،جس کے باعث ہم آج بدحالی کا شکار ہیں۔ انہوں نےCPEL کو پاکستان کے لئے انتہائی اہم قرار دیا۔
نیشنل انسٹیٹیوٹ آف پبلک پالیسی کے مطابق پاکستان خوراک کی دستیابی کے اعتبار سے خود کفالت کی منزل سے بھی آگے نکل گیا ہے،یعنی ہم اجناس کی پیداوار میں اپنی ضروریات سے زائد پیدا کرتے ہیں،لیکن پاکستان کی 40فیصد آبادی خوراک کی عدم دستیابی کا شکار ہے،بنیادی طور پر خوراک دستیاب تو ہے،لیکن اسے خریدنے کی استطاعت پر بہت بڑا سوال ہے۔خوراک دستیاب ہے، لیکن اسے خریدنے کی قوت روز بروز گھٹتی چلی جا رہی ہے۔ عالمی ادارہ خوراک کی نمائندہ مس فلورنسن رولے کے مطابق فوڈ سکیورٹی انڈکس میں پاکستان کا113 ممالک میں 84واں نمبر ہے،یعنی خوراک کے حصول یا خریدنے کے حوالے سے پاکستان خاصی پست پوزیشن پر ہے۔ کانفرنس میں ایک بات بڑی شدت سے بیان کی گئی کہ آبادی کے بڑھنے کے ساتھ ساتھ اجناس کی پیداواریت میں جس قدر اضافہ ہونا چاہئے وہ نہیں ہو رہا۔ہمارے کسان اب بھی صدیوں پرانے پیداواری طریقوں پر انحصار کرتے ہیں،جس کی وجہ سے پیداوار کی افزائش کی شرح ویسی نہیں ہے، جیسی ملکی ضروریات کے لئے ضروری ہے۔دوسری طرف زرعی زمین ختم کر کے بڑی تیزی سے ہاؤسنگ سوسائٹیاں بنائی جا رہی ہیں۔زراعت کے دستیاب رقبے میں بتدریج کمی بھی خوراک کی وافر مقدار میں دستیابی کو مشکل بنا دے گی۔دوسری طرف دیہاتی آبادی کا بتدریج شہروں کی طرف رخ کرنے کا رجحان بھی پریشان کن ہے۔پاکستان کی قومی پیداوار میں زراعت سب سے بڑا عامل ہے۔قومی آمدنی میں زراعت کا حصہ23فیصد یا اس سے زائد ہے،برآمدات میں زرعی پیداوار کا حصہ 50/60 فیصد تک ہوتا ہے،لیکن کسان اتحاد کے رہنما خالد محمود کھوکھر کے مطابق زراعت اور کسان کسی بھی حکومت کی ترجیحات میں شامل نہیں رہے ہیں۔2023ء میں زراعت کی گروتھ6.5فیصد تھی،جبکہ قومی معیشت کی گروتھ 1.8 یا اس کے قریب تھی،لیکن حکومت نے گندم کی خریداری کے حوالے سے جو بدانتظامی دکھائی اس کے باعث کسان رُل گئے اور اب2024ء میں زراعت کی گروتھ میں 40فیصد تک کمی ہو سکتی ہے۔کھوکھر صاحب نے حکومت کو کھری کھری سنائیں اور کسان کی قابل ِ رحم حالات بارے گفتگو کی۔ احسن اقبال اِس سے پہلے بتا چکے تھے کہ وزیراعظم شہباز شریف نے حکومت ِ چین سے گزارش کی ہے کہ پاکستان کے کم از کم1000زراعت پیشہ افراد کو جدید ترین طرزِ کاشتکاری میں تربیت دی جائے، جس کا خرچہ حکومت برداشت کرے گی تاکہ کسان کو جدید دنیا سے آگاہ کر کے زراعت کے شعبہ کو ترقی دی جا سکے۔
اتنی مفید اور اعلیٰ کانفرنس کے انعقاد کے لئے ڈاکٹر نوید الٰہی حقیقی مبارکباد کے مستحق ہیں ایسے ہی بیورو کریٹس پاکستان کے نظم و نسق و چلانے کے ذمہ دار ہیں اور پاکستان اگر آگے بڑھ رہا ہے تو وہ ایسے ہی افسران کا مرہون منت ہے،شاباش ڈاکٹر نوید الٰہی