انتخابی منشور

ملکی تاریخ میں ایسا پہلی مرتبہ ہو رہا ہے کہ کوئی جمہوری منتخب حکومت کسی آمر کی چھتری کے بغیر اپنی ٹرم کی تکمیل کی طرف بڑھ رہی ہے۔یہ پانچ سال کا سفر کسی عذاب مسلسل سے کم نہ تھا، جمہوری نظام ہر لمحہ پل صرط پرلٹکا رہا، مگر مفاہمت اور برداشت کے رویے نے ہر مشکل کو آسان کر دیا۔اب نئے انتخابات کا سماں پیدا ہورہا ہے، ہر سیاسی پارٹی اپنی اپنی بساط کے مطابق انتخابی مہم شروع کر چکی ہے۔ حکمران پارٹیاں بھی میدان میں ہیں اور وہ بھی جو اپوزیشن میں تھے یا گزشتہ انتخابات میں بائیکاٹ کر بیٹھے،اب وہ طوفانوں کی خبر دے رہے ہیں۔اور ہرکوئی دوسرے کی خبر لے رہا ہے۔وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف نے کہا ہے کہ مفاہمت کی سیاست کے پانچ سال مکمل، اب عوام اور میدان کی سیاست ہو گی۔انتخابات کا ابھی با قاعدہ اعلان ہونا باقی ہے مگر یہ طے ہے کہ یہ کسی قیمت پر مﺅخر نہیں ہوں گے، ہمیشہ کی طرح بے یقینی پھیلانے والے عناصر ضرور سرگرم عمل ہیں اور کسی الف لیلوی نگران سیٹ اپ کی پیش گوئیاں کی جارہی ہیں مگر عوام باشعور ہیں اور سیاسی جماعتیں انتخابی سیاست پر گہرا یقین رکھتی ہیں، اس لئے نہ تو الیکشن کے مﺅخر ہونے کا احتمال ہے اور نہ کوئی طاقت عوامی منڈیٹ پر ڈاکہ ڈال سکے گی۔ مگرالیکشن کی فضا بنے گی تو مختلف سیاسی پارٹیوں سے یہ سوال ضرور پوچھا جائے گا کہ ان میں سے جو پارٹیاںحکومت میں رہی ہیں۔ انہوں نے اپنے سابقہ منشور پر کس حد تک عمل کیا اور جو حکومت میں نہیں تھیں، محض تنقید کے نشتر چلاتی رہیں، ان کے پاس عوامی مسائل کے حل کے لئے کیا منشور ہے اور کونسا تیر بہدف نسخہ موجود ہے،اس ضمن میں پاکستان پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم، اے این پی، پاکستان مسلم لیگ ق اور دیگر حکمران اتحادیوں سے عوام یہ جاننے کا حق رکھتے ہیں کہ انہوں نے سابقہ الیکشن میں پیش کئے گئے منشور پر کس حد تک عمل کیا،اور ان سے جو کوتاہیاں ہوئیں، ان کی ٹھوس وجوہ کیا تھیں اور آئندہ کے لئے عوام کی تقدیر بدلنے کی جامع حکمت عملی کیا ہے۔موجودہ حکمران پارٹیوں کو بڑی سنجیدگی سے عوام کو اعتماد میں لینا ہو گا کہ لوڈ شیڈنگ، بے روز گاری، مہنگائی اور دہشت گردی جیسے سنگین مسائل کے حل میں انہیں کیا حقیقی رکاوٹیںپیش آئیں اور اگر عوام نے دوبارہ انہی پارٹیوں کو حکومت بنانے کا منڈیٹ دیا تو اگلے پانچ برس میں وہ درپیش مشکلات کودور کر بھی سکیں گی یا نہیں۔میری رائے میں ایک ایک عوامی مسئلے پر تفصیلی بات ہونی چاہئے اور سیاسی جماعتوں سے توقع رکھنی چاہئے کہ وہ بھی ہر مسئلے کی جزئیات میں جا کر اس کا حل تجویز کریں گی، صرف اسی صورت میں عوام کو بہتر فیصلہ کرنے میں آسانی ہو گی، یہ نہیں ہونا چاہئے کہ ووٹ ذات، برادری، زبان، علاقے، فرقے یا دھڑے بندی کی بنا پر مانگے یا ڈالے جائیں، ووٹنگ صرف اور صرف سیاسی جماعتوں کے انتخابی منشور کو پیش نظر رکھ کر ہونی چاہئے۔ میں سب سے پہلے تعلیم کے نکتے پر زور دینا چاہوں گا، یہ شعبہ اب باقاعدہ ایک تجارت بن چکا ہے یا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہمارے ہاں جڑی بوٹیوں کی طرح تعلیمی ادارے پروان چڑھ رہے ہیں۔صدر مملکت آصف علی زرداری نے گزشتہ روز ہی ابتدائی تعلیم کو لازمی حق قرار دینے کے قانون پر دستخط کئے ہیں۔مگر صرف قانون سازی سے تو مسئلہ حل نہیں ہو پائے گا۔دیکھنے کی بات تو یہ ہے کہ ہم نے گوناں گوں تعلیمی نظام کیوں اپنا رکھے ہیں۔ایک طرف ٹاٹ اسکول ہیں جہاں نہ چھت میسر ہے، نہ پینے کو پانی دستیاب ہے،یہاں چلچلاتی دھوپ اوریخ بستہ سردی کا سامنا کرنا پڑتا ہے، دوسری طرف ایئر کنڈیشنڈاسکول ہیں، ایک طرف بچے میلوں پیدل چل کر اسکول پہنچتے ہیں، دوسری طرف لمبی لمبی گاڑیوں میں جانے والے بچے بھی ہیں، کسی اسکول میں دی جانے والی تعلیم کلرک بننے کی صلاحیت سے بھی بہرہ مند نہیں کرتی اور کسی اسکول میں سی ایس پی افسروں اور کارپوریٹ مینیجرز کی کھیپ تیار ہوتی ہے،کہیں جاگیرداروں اور صنعتکاروںکی اولادوں کے ناز نخرے اٹھائے جاتے ہیں،اور کہیں غریب کے بچے مرغا بننے پر مجبور کئے جاتے ہیں،یہ اوینچ نیچ، یہ امتیاز اور یہ عدم یکسانیت آئین میں دیئے گئے مساوی حقوق اور مواقع کے منافی ہے، پاکستان برہمن اور اچھوت کے فرق کو مٹانے کے لئے بنا تھامگر ہم نے یہاں معاشرے میں نئی لکیریں کھینچ دی ہیں اور ایک خوفناک طبقاتی کشمکش کو جنم دے دیا، اب بعض بچوں کو قیمتی لیپ ٹاپ مل رہے ہیں۔ لیکن یہاں ایسے بچے بھی ہیں جن کو لکڑی کی تختی تک میسر نہیں، بعض بچوں کو بیرونی ملکوں کی سیرو تفریح کے لئے ٹکٹیں دی جاتی ہیں اور ان کے ساتھ فوٹو سیشن کئے جاتے ہیں اور بعض بچے تنور پر روٹیا ںلگا کر اپنا اور اپنے
والدین کا پیٹ پالنے پر مجبور ہیں۔ایک طرف دانش اسکولوں کی قیمتی عمارتیں کھڑی کی جاتی ہیں اور دوسری طرف ہزاروں اسکول ایسے ہیں جن کی چار دیواری تک نہیں اور جن کے کے کمرے بوسیدہ ہوچکے ہیں۔یہ نظام سراسر شرف انسانیت کی توہین ہے،دنیا کے ہر آئین، ہر مذہب اور ہر قانون کے تحت سب انسان برابر کی حیثیت کے حامل ہیں تو پھر ہمیں بھی یہ اصول پیش نظر رکھنا ہو گا، ہماری سیاسی پارٹیوں کو اپنے منشور میںیہ پروگرام پیش کرنا ہو گاکہ وہ تعلیم کے میدان میں اونچ نیچ ختم کریں گی، اس میں یکسانیت لائیں گی اور سب بچوں کا تعلیم کے مساوی مواقع فراہم کریں گی مگر یہ ہوگا کیسے، ہم موجودہ تعلیمی جنگل کو کس طرح صاف کریں گے، میرٹ کی پالیسی کو کیونکر نافذ کیا جائے گا،تعلیم کے لئے ترقی یافتہ نہیں تو ترقی پذیر اقوام کے برابر بجٹ کیسے مختص کیا جائے گا، یہ تو ہر کوئی جانتا ہے کہ پیسٹھ برس کی آزادی کی تاریخ میں ہمارا تعلیمی بجٹ شرمناک حد تک کم رہا ہے، اس بجٹ کے ساتھ ہم ایک ذمے دار اور باشعور نسل کی تربیت نہیں کر سکتے۔ اس کے لئے ہر سیاسی جماعت کو تجویز دینی چاہئے کہ وہ تعلیم کے لئے کیا وسائل بہم پہنچائے گی اور کن غیر ضروری اخراجات سے نجات حاصل کرے گی۔میرا یقین ہے کہ اگر ہم اپنے تعلیمی نظام میں انقلابی تبدیلی لا سکیں تو ہو سکتا ہے کہ ہمیں دہشت گردی کے فتنے سے ہی نجات مل جائے کیونکہ ایک جدید تعلیم یافتہ مہذب نسل اس دھندے سے دور رہنا پسند کرے گی، اس طرح ہمارے دفاعی اخراجات میں بھی نمایاں کمی واقع ہو سکے گی کیونکہ تصادم اور جنگ کی صورت حال کا سامناصرف اسی معاشرے کو ہوتا ہے جو جہالت کا شکار ہے، متمدن دنیا میںیہ جھگڑے دیکھنے کو نہیں ملتے۔ ہم تعلیم ہی کے ایک شعبے کو درست کر سکیں تو ہماری سوخرابیاں دور ہو جائیں گی، اس لئے ہماری سیاسی پارٹیوں کو اپنا منشور تیار کرتے ہوئے اس شعبے کو خصوصی اہمیت دینا ہو گی اور اس کے مسائل کو حل کرنے کے لئے قابل عمل حل تجویز کرنا ہوگا۔ایک طرح کا نظام تعلیم،ایک انداز کی سہولتیں، یکساں نصاب ہر بچے کے لئے میسر ہونا چاہئے،لاجسٹک اور عمارتی سہولتیوں پر زور دینے کے بجائے یکساں مواقع فراہم کرنا ہوں گے۔ ٹاٹ سکول، مسجد مکتب، اے لیول او لیول،پبلک اسکول اوربیرونی تعلیمی اداروں کے ناموں سے ملتے جلتے ادارے، یہ ہے ہمارا بکھر اہوا تعلیمی نقشہ جسے قومی تقاضوں کے مطابق ڈھالنا اور یکساں نظام کی شکل دینا اب وقت کی ضرورت بن چکا ہے۔اس کے بعد اگر کوئی صاحب حیثیت اعلی تعلیم کے لئے بیرونی ممالک کا رخ کرنا چاہتا ہے تو یہ اس کی مرضی پر منحصر ہے مگر اس امر کو یقینی بنانا ضروری ہے کہ ملک کے ہر بچے کو ایک جیسی تعلیم فراہم کی جا ئے اور کسی سے کوئی امتیازی سلوک روا نہ رکھا جائے۔