مودی کا مجوزہ دورۂ کابل، پاکستان کا متوجہ ہونا فطری بات
تجزیہ : آفتاب احمد خان
کابل میں نئے پارلیمنٹ ہاؤس کی تعمیر اکتیس دسمبر کو مکمل ہونے کا امکان ہے ، جس کے بعد بھارتی وزیراعظم نریندر مودی اس کا افتتاح کریں گے۔ ان کے اس بہانے کابل آنے سے افغان قیادت کے ساتھ ان کی براہ راست گفت و شنید ہوسکے گی اور وہ خطے کے مستقبل کے حوالے سے بھارتی پالیسیوں کے بارے میں افغان رہنماؤں کو اعتماد میں بھی لیں گے۔
بھارت نے یہ عمارت تحفے کے طور پر افغان حکومت کو بنا کر دی ہے جس کی تعمیر 2007ء میں شروع کی گئی تھی اور بھارت نے اسے دوستی اور تعاون کی علامت قرار دیا تھا۔ بھارتی حکومت کی کوشش رہی کہ یہ عمارت جلد سے جلد تعمیر ہو، وزیراعظم نریندر مودی نے اقتدار میں آنے کے بعد اس منصوبے پر خصوصی توجہ دی اور متعلقین کو ہدایت کی کہ اسے جتنا جلد ممکن ہو، مکمل کیا جائے۔ اب یہ عمارت مکمل ہونے والی ہے اور نریندر مودی اس کا افتتاح کرنے اور اس عمارت میں افغان پارلیمنٹ کا پہلا اجلاس دیکھنے کے لئے بے تاب ہیں۔ اب بھارتی سیکرٹری شہری ترقی سودن پرساد نے اپنے وزیراعظم کو خوشخبری سنائی ہے کہ افغان پارلیمنٹ ہاؤس کی حتمی تزئین و آرائش کی جا رہی ہے جس کے بعد وہ کابل جاسکیں گے۔
اس عمارت کی تعمیر اصولی طور پر نومبر 2011ء میں مکمل ہونا تھی جو نہ ہوسکی، اس کی تکمیل کی مدت تین دفعہ مقرر کی گئی مگر ان تاریخوں پر عمارت مکمل نہ ہوسکی۔ اس کی بڑی وجہ طالبان کے حملوں کا خطرہ رہی ہے جس کے باعث عمارت کی تعمیر پر تیزی سے کام نہ ہوسکا۔ افغانستان کی صورتحال ایسی ہے کہ وہاں کوئی بھی کام تیزی سے نہیں کیا جاسکتا، جس حکومت کا ملک کے کئی علاقوں پر کنٹرول نہ ہو اور وہ دنیا کے کئی ملکوں کی عملی فوجی مدد حاصل کرنے کے باوجود عسکریت پسندوں پر قابو نہ پاسکے، اس کے لئے سلیقے سے حکومت کرنا ممکن ہی نہیں ہوتا۔
نریندر مودی کے مجوزہ دورہ کابل نے افغان امور سے متعلق مبصرین کی توجہ خاص طور پر حاصل کی ہے اور وہ سمجھ رہے ہیں کہ بھارت کی افغانستان میں دلچسپی خطے میں وسیع تر کردار کی خواہش کی عکاس ہے۔ کوئی سے بھی دو ملک باہمی تعلقات کو فروغ دیں تو اس میں بظاہر کسی کے اعتراض کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی لیکن بھارت نے افغانستان کی سرزمین سے پاکستان میں جس طرح دہشت گردی کرائی ہے اس کے پیش نظر نریندر مودی کے دورۂ کابل سے بھلائی کی توقع نہیں کی جاسکتی، اس دورے پر پاکستان کا متوجہ ہونا فطری سی بات ہے۔