قائداعظم،جوگندر ناتھ منڈل اور پاکستان کا قومی ترانہ، وہ جھوٹ جو پاکستان کے دشمن مسلسل بولتے ہیں،سچ جانئے اور تاریخ کو مسخ ہونے سے بچائیں

قائداعظم،جوگندر ناتھ منڈل اور پاکستان کا قومی ترانہ، وہ جھوٹ جو پاکستان کے ...
قائداعظم،جوگندر ناتھ منڈل اور پاکستان کا قومی ترانہ، وہ جھوٹ جو پاکستان کے دشمن مسلسل بولتے ہیں،سچ جانئے اور تاریخ کو مسخ ہونے سے بچائیں

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) آپ نے اکثر مختلف لوگوں سے سنا ہوگا کہ پاکستان کا قومی ترانہ ایک ہندو جوگندرا ناتھ منڈل نے لکھا تھا اور قائداعظم نے اس کو منظور بھی کیا تھا۔ یہ جھوٹ پاکستان کے مخالفین کی جانب سے اس تواتر کے ساتھ بولاجاتا ہے کہ محب وطن پاکستانی اسے سچ سمجھتے ہیں۔ تاہم انتہائی ضروری ہے کہ اس بات کو تاریخ کے آئینے میں پرکھا جائے اور اس جھوٹ کو پھیلنے سے روکا جائے تاکہ آنے والی نسلوں کو پاکستان اور قائداعظم کے بارے میں صحیح علم رہے۔ حال ہی میں مشہور کالم نویس ڈاکٹر صفدر محمود نے انتہائی تحقیق کے بعد اس جھوٹ سے اپنے کالم میں پردہ اٹھادیا ہے۔ آئیے ان کی زبانی اس کے بارے میں جانتے ہیں:
’’قائداعظم ایک روشن خیال، کھرے اورسچے انسان تھے۔ وہ قانون کی حکمرانی، انسانی مساوات، معاشی عدل اور سماجی انصاف پر یقین رکھتے تھے۔ قیام پاکستان سے قبل اور بعدازاں انہوں نے بار بار کہا کہ پاکستان میں اقلیتوں کو برابر کے حقوق حاصل ہوں گے۔ انہیں احساس تھا کہ ہندوستان میں رہ جانے والے مسلمان اقلیت میں ہیں اور ان کے تحفظ کے لئے پاکستان میں اقلیتوں کے حقوق کی ریاستی ضمانت ناگزیر ہے۔ رواداری کے جذبے کے تحت انہوں نے دلچسپی لے کر منڈل کو دستور ساز اسمبلی کا رکن منتخب کردیا اورپہلی چھوٹی سی کابینہ میں منڈل اور چوہدری ظفر اللہ کو قانون اور خارجہ کی اہم وزارتیں دیں۔ قائداعظم کی مذہبی رواداری شک و شبہ سے بالاتر ہے اس لئے اس حوالے سے ایسے واقعات لکھنے کی ضرورت نہیں جو غلط اور بے بنیاد ہوں، کیوں کہ آج کا لکھا کل تاریخ بن جائے گا۔
کچھ عرصہ قبل یہ شوشہ چھوڑا گیا تھا کہ قائداعظم نے پاکستان کا پہلا قومی ترانہ جوگندرا ناتھ منڈل سے لکھوایا۔ ان سے ترانہ لکھوانے میں کوئی حرج نہیں تھا کیونکہ وہ اگست 47 میں پاکستان کے شہری تھے لیکن سچ یہ ہے کہ یہ سراسر غلط اور من گھڑت افسانہ ہے۔ افسوس کہ ہمارے لکھاری تحقیق کیے بغیر اسے دہراتے چلے آرہے ہیں۔ جاوید چوہدری مقبول اور ممتاز کالم نگار ہیں۔ وہ مجھے چھوٹے بھائی کی طرح عزیز ہیں۔ مجھے حیرت ہوئی جب انہوں نے بھی چند روزقبل اپنے کالم میں یہی بات لکھی۔ میں اس حوالے سے تحقیق کر چکا ہوں اوراس پر پہلے بھی لکھ چکا ہوں۔ اپنی تحقیق کے اہم نکات آپ کی خدمت میں دوبارہ پیش کررہا ہوں۔ مقصد ایک غلط تاثر کی تصحیح اور تاریخ کو مسخ ہونے سے بچانا ہے۔
کہنے والے کہتے ہیں کہ قائداعظم نے قیام پاکستان سے قبل 9 اگست 1947ء کو جوگندرا ناتھ منڈل کو بلا کر پاکستان کا ترانہ لکھنے کو کہا۔ انہوں نے پانچ دنوں میں ترانہ لکھ دیا جو قائداعظم کی منظوری کے بعد آزادی کے اعلان کے ساتھ ہی ریڈیو پاکستان سے نشر ہوا اور پھر یہ ترانہ 18 ماہ تک پاکستان میں بجتا رہا۔ جب 23 فروری کو حکومت پاکستان نے قومی ترانے کے لئے کمیٹی بنائی تو یہ ترانہ بند کردیا گیا۔ میں یہ بات بلاتحقیق ماننے کے لئے تیار نہیں تھا۔ قائداعظم اور جگن ناتھ آزاد کے حوالے سے یہ دعوے کرنے والے حضرات نے انٹرنیٹ پر کئی ’’بلاگز‘‘ (Blogs) میں اپنا نقطہ نظر اور من پسند معلومات فیڈ کر کے محفوظ کردی تھیں تاکہ انٹرنیٹ کا استعمال کرنے والوں کو کنفیوز کیا جاسکے۔ ان ساری معلومات کی بنیاد کوئی ٹھوس شواہد نہیں تھے بلکہ سنی سنائی یا پھر جوگندرا ناتھ منڈل کے صاحبزادے چندر آزاد کے انکشافات تھے جن کی حمایت میں چندر کے پاس کوئی ثبوت نہیں ہے۔
سچ کی تلاش میں میں جن حقائق تک پہنچا ان کا ذکر بعد میں کروں گا پہلے تمہید کے طور پر چند سطور لکھنا ضروری سمجھتا ہوں۔ جگن ناتھ آزاد معروف شاعر تلوک چند کا بیٹا تھا وہ 1918ء میں عیسیٰ خیل میانوالی میں پیدا ہوا۔ اس نے 1937ء میں گورڈن (Gordon) کالج راولپنڈی سے بی اے اور 1944ء میں پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے فارسی کیا۔ تھوڑا سا عرصہ ’’ادبی دنیا‘‘ سے منسلک رہنے کے بعد اس نے لاہور میں ’’جئے ہند‘‘ نامی اخبار میں نوکری کرلی۔ قیام پاکستان کے بعد ستمبر میں ہندوستان ہجرت کر گیا۔ اکتوبر میں ایک بار لاہور آیا لیکن فرقہ وارانہ فسادات کے خوف سے مستقل طور پر ہندوستان چلا گیا۔ وکی پیڈیا Wikipediaاور All Things Pakistan کے بلاگز میں یہ دعویٰ موجود ہے کہ قائداعظم نے اپنے دوست جوگندرا ناتھ منڈل کو 9 اگست کو بلا کر پاکستان کا ترانہ لکھنے کے لئے پانچ دن دیے۔ قائداعظم نے اسے فوراً منظور کیا اور یہ ترانہ اعلان آزادی کے بعد ریڈیو پاکستان پر چلایا گیا۔ چندر نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ حکومت پاکستان نے جوگندرا کو 1979 میں صدارتی اقبال میڈل عطا کیا۔
میرا پہلا ردعمل تھا کہ یہ بات قرین قیاس نہیں ہے؟ ہر بڑے شخص کے بارے میں ہمارے ذہنوں میں ایک تصویر ہوتی ہے اور جو بات اس تصویر کے چوکھٹے میں فٹ نہ آئے انسان اسے بغیر ثبوت کے ماننے کو تیار نہیں۔ قائداعظم سرتاپا قانونی اور آئینی شخصیت تھے۔ اس لئے یہ بات میری سمجھ سے بالاتر تھی کہ قائداعظم کسی کو ترانہ لکھنے کے لئے کہیں اور پھر کابینہ، حکومت یا ماہرین کی رائے لئے بغیر اسے خود ہی آمرانہ انداز میں منظور کردیں جبکہ ان کا اردو، فارسی زبان اور اردو شاعری سے واجبی سا تعلق تھا۔ میرے لئے دوسری ناقابل یقین بات قائداعظم اور جوگندرا ناتھ منڈل کی دوستی کا دعویٰ تھا۔ قائداعظم نے عمر کا معتدبہ حصہ بمبئی اور دہلی میں گزارا، ان کے سوشل سرکل میں زیادہ تر سیاسی شخصیات، مسلم لیگی سیاستدانوں، وکلا وغیرہ تھے۔ پاکستان بننے کے وقت ان کی عمر 71سال کے لگ بھگ تھی جگن ناتھ آزاد اس وقت 29سال کے غیر معروف نوجوان تھے اور لاہور میں قیام پذیر تھے وہ پاکستان مخالف اخبار ’’جئے سندھ‘‘ کے ملازم تھے،ان کی قائداعظم سے دوستی تو کجا تعارف بھی ممکن نظر نہیںآتا۔
پھر مجھے خیال آیا کہ یہ محض تخیلاتی باتیں ہیں جبکہ مجھے تحقیق کے تقاضے پورے کرنے اور سچ کا کھوج لگانے کے لئے ٹھوس شواہد کی ضرورت ہے۔ ذہنی جستجو نے رہنمائی کی اور کہا قائداعظم کوئی عام شہری نہیں تھے جن سے جو چاہے دستک دے کر مل لے۔ وہ مسلمانان ہند و پاکستان کے قائداعظم اور جولائی 1947ء سے پاکستان کے نامزد گورنر جنرل تھے۔ ان کے ملاقاتیوں کا کہیں نہ کہیں ریکارڈ موجود ہوگا۔ سچ کی تلاش کے اس سفر میں مجھے 1989ء میں چھپی ہوئی پروفیسر احمد سعید کی ایک کتاب مل گئی۔ جس کا نام ہے "Visitors of the Quaid۔e۔Azam"۔ احمد سعید نے بڑی محنت سے تاریخ اور قائداعظم کے ملاقاتیوں کی تفصیل جمع کی ہے جو 25 اپریل 1948ء تک کے عرصے کا احاطہ کرتی ہے۔ اس کتاب میں قائداعظم کے ملاقاتیوں میں جوگندرا ناتھ منڈل کا کہیں بھی ذکر نہیں ہے۔ ’’پاکستان زندہ باد‘‘ کے مصنف سید انصار ناصری نے بھی قائداعظم کی کراچی آمد 7اگست سے لے کر 15 اگست تک کی مصروفیات کا جائزہ لیا ہے۔ اس میں بھی آزاد کا ذکر کہیں نہیں۔ دل نے کہا جب 7اگست 1947ء کو قائداعظم بطور گورنر جنرل دلی سے کراچی آئے تو ان کے ساتھ ان کے اے ڈی سی بھی تھے۔ اے ڈی سی ہی ملاقاتوں کا سارا اہتمام کرتا اور اہم ترین عینی شاہد ہوتا ہے اور صرف وہی اس سچائی کی تلاش پر مہر ثبت کرسکتا ہے۔ جب قائداعظم کراچی اترے تو عطا ربانی بطوراے ڈی سی ان کے ساتھ تھے۔ خدا کا شکر ہے کہ اس وقت وہ زندہ تھے لیکن ان تک رسائی ایک کٹھن مرحلہ تھا۔ خاصی جدوجہد کے بعد میں بذریعہ محترم مجید نظامی مرحوم ان تک پہنچا۔ جناب عطاربانی صاحب کا جچا تلا جواب تھا کہ جوگندرا ناتھ منڈل نامی شخص نہ کبھی قائداعظم سے ملا اورنہ ہی میں نے کبھی قائداعظم سے ان کا نام سنا۔ اب اس کے بعد اس بحث کا دروازہ بند ہو جانا چاہئے کہ جوگندرا ناتھ منڈل کو قائداعظم نے بلایا۔ اگست 1947ء میں شدید فرقہ وارانہ فسادات کے سبب جگن ناتھ آزاد لاہور میں مسلمان دوستوں کے ہاں پناہ لیتا پھر رہا تھا اور اس کو جان کے لالے پڑے ہوئے تھے۔ ان حالات میں اس کی کراچی میں قائداعظم سے ملاقات کا تصور بھی محال ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خود جوگندرا ناتھ منڈل نے کبھی یہ دعویٰ نہیں کیا حالانکہ وہ کئی بار پاکستان آیا حتیٰ کہ وہ علامہ اقبال کی صد سالہ کانفرنس کی تقریبات میں بھی مدعو تھا۔ دراصل عادل انجم نے جوگندرا ناتھ منڈل کے ترانے کا شوشہ چھوڑا تھا۔ انہوں نے چندر آزاد کے حوالے سے دعویٰ کیا ہے کہ جوگندرا ناتھ منڈل کو 1979 میں صدارتی اقبال ایوارڈ دیا گیا۔ یہ سراسر جھوٹ ہے۔ میں نے صدارتی ایوارڈ کی ساری فہرست دیکھی ہے۔ اس میں آزاد کا نام نہیں ہے۔ پھر میں کابینہ ڈویڑن پہنچا اور قومی ایوارڈ یافتگان کا ریکارڈ کھنگالا۔ اس میں بھی آزاد کا نام نہیں ہے۔ اب آیئے اس بحث کے دوسرے حصے کی طرف۔ ریڈیو پاکستان کے آر کائیوز گواہ ہیں کہ جوگندرا ناتھ منڈل کا کوئی ترانہ یا ملی نغمہ یا کلام 1949ء تک ریڈیو پاکستان سے نشر نہیں ہوا۔
14سے 15اگست کی درمیانی شب جب آزادی کے اعلان کیساتھ پہلی بار ریڈیو پاکستان کی صدا گونجی تو اس کے بعد احمد ندیم قاسمی کا یہ ملی نغمہ نشر ہوا۔
پاکستان بنانے والے، پاکستان مبارک ہو
ان دنوں قاسمی صاحب ریڈیو میں اسکرپٹ رائٹر تھے۔
15 اگست کو پہلا ملی نغمہ مولانا ظفر علی خان کا نشر ہوا جس کا مصرعہ تھا:
توحید کے ترانے کی تانیں اڑانے والے
میں نے یہیں تک اکتفا نہیں کیا۔ اس زمانے میں ریڈیو کے پروگرام اخبارات میں چھپتے تھے۔ میں نے 14اگست 1947ء سے لے کر اواخر اگست تک کے اخبارات دیکھے۔ جگن ناتھ آزاد کا نام کسی پروگرام میں بھی نہیں ہے۔ سچ کی تلاش میں ریڈیو پاکستان کے آرکائیو سے ہوتے ہوئے ریڈیو کے سینئر ریٹائرڈ لوگوں تک پہنچا۔ ان میں خالد شیرازی بھی تھے جنہوں نے 14 اگست سے 21 اگست 1947ء تک کے ریڈیو کے پروگراموں کا چارٹ بنایا تھا۔ انہوں نے سختی سے جوگندرا ناتھ منڈل کے حوالے سے اس دعویٰ کی نفی کی۔ پھر انہوں نے ریڈیو پاکستان کا رسالہ آہنگ ملاحظہ کروایا جس میں سارے پروگراموں کی تفصیلات شائع ہوتی ہیں۔ یہ رسالہ 1948ء سے باقاعدگی سے چھپنا شروع ہوا۔ 18ماہ تک آزاد کے ترانے بجنے کی خبر دینے والے براہ کرم ریڈیو پاکستان اکادمی کی لائبریری میں موجود آہنگ کی جلدیں دیکھ لیں اور اپنے موقف سے تائب ہو جائیں۔ یہ بھی سوچنے کی بات ہے کہ اگر آزاد کا ترانہ ہمارا قومی ترانہ تھا اور وہ 1949ء تک نشر ہوتا رہا پھر اس کا کسی پاکستانی کتاب، کسی سرکاری ریکارڈ میں بھی ذکر کیوں نہیں ہے اور اس کے سننے والے کہاں چلے گئے؟ اگر جوگندرا ناتھ منڈل نے قائداعظم کے کہنے پر ترانہ لکھا تھا تو انہوں نے خود اس منفرد اعزاز کا ذکر کبھی کیوں نہ کیا۔ جوگندرا ناتھ منڈل نے اپنی کتاب ’’آنکھیں ترستیاں ہیں‘‘ (1982) میں ضمناً یہ ذکر کیا ہے کہ اس نے ریڈیو لاہور سے اپنا ملی نغمہ سنا۔ کب سنا اس کا ذکر موجود نہیں۔ ملی نغمے اور قومی ترانے میں فرق ہوتا ہے۔ اگر قائداعظم کے فرمان پر لکھا تو وہ یقیناً اس کا ذکر کرتا۔ آزاد کے والد تلوک چند نے نعتیں لکھیں۔ جوگندرا ناتھ منڈل نے پاکستان کے لئے ملی نغمہ لکھا جو ہوسکتا ہے کسی وقت ریڈیو پاکستان سے نشر ہوا ہوا لیکن یہ بات طے ہے جوگندرا ناتھ منڈل کبھی قائداعظم سے ملے نہ انہوں نے پاکستان کا قومی ترانہ لکھا اور نہ ہی ان کا قومی ترانہ 18ماہ تک نشر ہوتا رہا یا قومی تقریبات میں بجتا رہا۔
قائداعظم بانی پاکستان اور ہمارے عظیم محسن ہیں۔ ان کے احترام کا تقاضا ہے کہ بلاتحقیق اور بغیر ٹھوس شواہد ان سے کوئی بات منسوب نہ کی جائے اور نہ ہی تاریخ کو مسخ کیا جائے۔‘‘

مزید :

قومی -