جنرل قمر جاوید باجوہ کی صاف گوئی
چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا ہے کہ مُلک میں صدارتی نظام کی کوئی گنجائش نہیں اِس سے مُلک کمزور ہوتا ہے،پارلیمینٹ دفاعی اور خارجہ پالیسی بنائے ہم عمل کریں گے،اسلامی فوجی اتحاد کسی مُلک کے خلاف نہیں،اتحاد کے ٹی او آر ابھی طے ہونا باقی ہیں،ایران اور سعودی عرب کی لڑائی ہو گی نہ ہم ایسا ہونے دیں گے، خطے کی جیو سٹرٹیجک صورتِ حال پر گہری نظر ہے۔افغانستان میں ہونے والی تبدیلیوں کو نظر انداز نہیں کر سکتے، ہم عوام کو جوابدہ ہیں، سیاست دان فوج کو مداخلت کا موقعہ نہ دیں، ہم نے دیکھنا ہے آج کیا کرنے کی ضرورت ہے، ماضی میں جانے کا کوئی فائدہ نہیں،سینیٹ کے پورے ایوان پر مشتمل کمیٹی کو بریف کرتے ہوئے آرمی چیف نے کہا کہ فیض آباد دھرنے میں فوج کا ہاتھ ثابت ہوا تو مستعفی ہو جاؤں گا،معاہدے میں فوجی افسر کے دستخط نہ ہوتے تو بہتر تھا، مگر فوجی افسر دستخط نہ کرتا تو دھرنا ختم نہ ہوتا۔ ٹی وی پر تبصرہ کرنے والے ریٹائرڈ افسران فوج کے ترجمان نہیں،آئین سے ماورا کسی کردار کی خواہش نہیں،بیرونی سازشوں سے پوری طرح آگاہ ہیں،خطرات کا مِل کر مقابلہ کریں گے۔
آرمی چیف نے سینیٹ کمیٹی کو خطے کی سیکیورٹی صورتِ حال،سٹرٹیجک اور پاکستان کے اہم اندرونی معاملات پر جو بریفنگ دی اِس کا دائرہ بہت وسیع ہے اور انہوں نے ہر اہم موضوع پر اظہارِ خیال کیا،یہاں تک کہ یہ بات بھی کھل کر قوم کو بتا دی کہ صدارتی نظام سے مُلک مضبوط نہیں کمزور ہوتا ہے،صدارتی نظام کے متعلق یہ عمومی رائے دی جاتی ہے کہ یہ کوئی ایسا امرت دھارا ہے، جس سے مُلک یکایک مضبوط ہو جاتا ہے،فوجی حکمران کسی استثنیٰ کے بغیر عام طور پر اس نظام کی طرف جھکاؤ رکھتے ہیں یا تو وہ براہِ راست صدارتی نظام نافذ کر دیتے ہیں یا پھر پارلیمانی نظام ایسا بنا دیا جاتا ہے، جس کی روح مجروح کر کے اِس میں اختیارات کا پلڑا صدر کی جانب جھکا دیا جاتا ہے اور اِسے چیک اینڈ بیلنس کا نام دے دیا جاتا ہے،جنرل قمر جاوید باجوہ نے بڑے واشگاف انداز میں صدارتی نظام پر بات کر کے اُن سیاست دانوں کو بھی پیغام دے دیا ہے، جو کسی نہ کسی انداز میں صدارتی نظام کی واپسی کی خواہش پالے رکھتے ہیں۔ ماضی میں درست یا غلط، عام تاثر یہ پایا جاتا تھا کہ سول حکومتوں میں بھی دفاعی اور خارجہ پالیسیوں پر فوجی چھاپ لگی ہوتی ہے بعض حلقے تو یہ تاثر دینے کی کوشش بھی کرتے رہتے ہیں کہ خارجہ پالیسی کے بعض شعبے اور بعض دفاعی امور سول حکومت کے لئے شجر ممنوع بنا کر رکھ دیئے جاتے ہیں،لیکن جنرل قمر جاوید باجوہ نے جس صاف گوئی سے پارلیمینٹ کو دفاعی اور خارجہ پالیسی بنانے اور اِس پرفوج کے عمل پیرا ہونے کی دعوت دی ہے اِس سے تو یہ تاثر پختہ ہوتا ہے کہ فوجی چھاپ والی بات محض فسانہ تھی جسے زیبِ داستاں کے لئے بڑھا بھی دیا جاتا ہے۔اب آرمی چیف نے بال پارلیمینٹ کی کورٹ میں پھینک کر اسے آزمائش میں مبتلا کر دیا ہے،اب اگر پارلیمینٹ خارجہ پالیسی کی تشکیل نو میں جرأت کے ساتھ آگے نہیں بڑھتی تو یہ اس کی ناکامی ہو گی۔
بھارت کے ساتھ تعلقات ہمیشہ ایسا موضوع رہا ہے،جس کے بارے میں عام خیال یہ ہے کہ سول حکومتیں بھارت کے ساتھ تعلقات بنانے کی جو کوششیں کرتی ہیں فوج اُنہیں پسند کی نگاہ سے نہیں دیکھتی،آرمی چیف نے اِس موضوع پر بھی صاف بات کہہ دی ہے کہ حکومت پالیسی بنائے، فوج اُس کو طاقت فراہم کرے گی،ظاہر ہے دشمن مُلک کے ساتھ جو بات بھی کی جائے وہ اگر جرأت و طاقت کی آئینہ دار ہو تو ہی اس سے اچھے نتائج نکل سکتے ہیں،بھارت کے ساتھ تعلقات کی بہت سی جہتیں ہیں ان سب کو نظر انداز کر کے یا بھارت کی خواہش پر مسئلہ کشمیر کو ’’بیک برنر‘‘ پر رکھ کر کسی مخصوص سمت میں تعلقات کو بہتر نہیں بنایا جا سکتا، بھارت کی ہمیشہ ترجیح رہی ہے کہ پاکستان کے ساتھ تجارتی تعلقات قائم کر لئے جائیں،لوگوں کی تھوڑی بہت آمدو رفت ہوتی رہے،اِس طرح تعلقات میں بہتری آئے گی اور لوگ آپس میں گھل مِل کر سنجیدہ مسائل کو بھول جائیں گے، لیکن ماضی میں بھی اِس طرح کی کوئی کوشش کامیاب ہوئی ہے اور نہ مستقبل میں ہونے کا امکان ہے، کیونکہ دونوں ممالک میں مسئلہ کشمیر بنیادی مسئلہ ہے،جس کے ساتھ تمام تنازعات اور تعلقات جڑے ہوئے ہیں۔ اگر یہ تنازعہ منصفانہ طور پر، کشمیریوں کے اطمینان کے مطابق حل نہیں ہوتا تو پھر معمول کے تعلقات بحال نہیں ہو سکتے، بحال ہو بھی جائیں تو چل نہیں سکتے، اِس لئے اِس نازک مسئلے پر پوری سوچ بچار کے ساتھ آگے بڑھنا چاہئے، بھارت میں تو پاکستان دشمنی کا ہوا کھڑا کر کے الیکشن جیتے جاتے ہیں، ابھی چند روز قبل ہی گجرات اور ہماچل پردیش کے انتخابات میں نریندر مودی نے اپنے مخالف سیاست دانوں پر پاکستان کے ساتھ ساز باز کا الزام لگایا اِس کا ایک جواب تو اُنہیں اُن سیاست دانوں نے پہلے ہی دے دیا تھا اب مقبوضہ کشمیر کے سابق وزیراعلیٰ ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے کہا ہے کہ پاکستان سازش نہیں کرتا، یہ جواب نریندر مودی کے مُنہ پر زناٹے دار تھپڑ ہے۔
آرمی چیف نے اپنی بریفنگ میں فیض آباد دھرنے کے متعلق بہت بڑی بات کہہ دی کہ اگر یہ ثابت ہو جائے کہ اِس میں فوج ملوث تھی تو وہ استعفا دے دیں گے۔ یہ بات انہوں نے ایک سوال کے جواب میں کہی تھی، اِس لئے اِس میں جوش و جذبے کا عنصر زیادہ نظر آتا ہے۔ انہوں نے دھرنے ختم کرنے کے معاہدے پر فوجی افسر کے دستخط کی بھی وضاحت کر دی کہ اس کے بغیر دھرنا ختم نہیں ہو رہا تھا اور لوگوں کی مشکلات بڑھ رہی تھیں۔اُن کی یہ وضاحت انتہائی اطمینان بخش ہے۔البتہ مُلک میں دھرنوں کا جو کلچر مروج ہو چکا ہے اسے کسی نہ کسی طرح ختم کرنے کی کوشش کرنی چاہئے، کیونکہ اس سے شہری زندگی ہی تلپٹ نہیں ہوتی، ٹریفک کا پورا نظام بھی درہم برہم ہو جاتا ہے،دھرنا دینے والوں کو، اُن کا تعلق کسی بھی گروہ سے ہو بعض ضوابط کا پابند کرنا چاہئے، ہائی کورٹوں اور سپریم کورٹ میں بھی یہ معاملہ جا چکا ہے۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو عدالتی ہدایت اور حکم کی روشنی میں دھرنوں کے متعلق ایک مستقل اور جامع پالیسی بنانی چاہئے۔ فیض آباد دھرنے میں چونکہ فوجی افسر نے دستخط کر رکھے ہیں ،اِس لئے اِس کی روشنی میں جائزہ لے کر ایسی مستقل حکمتِ عملی بنانے کی ضرورت ہے کہ کسی کا احتجاج بھی ہو جائے اور شہری زندگی بھی متاثر نہ ہو اور قومی املاک کو بھی نقصان نہ پہنچے،مہذب ممالک کی طرح احتجاج کی حدود اور مقام کا تعین ہونا ضروری ہے ورنہ بے روک ٹوک احتجاج کا سلسلہ بڑھتا رہا تو مزید خرابیاں پیدا ہوں گی،ایسے خدشات موجود ہیں کہ آئندہ بھی کوئی دھرنے ماضی کو دہرا سکتے ہیں اِس لئے اِس معاملے کو جتنی جلد ممکن ہو نمٹانا چاہئے۔
آرمی چیف نے سیاست دانوں کو براہِ راست ایک ایسی بات بھی کہہ دی ہے، جس پر اگر عمل ہو جائے تو مستقبل کی سیاست کا نقشہ ہی بدل جائے گا۔انہوں نے سیاست دانوں سے کہا کہ وہ فوج کو موقع نہ دیں، انہوں نے جمہوریت کے ساتھ اپنی کمٹمنٹ کا اعادہ کیا،جو سیاست دان امپائر کی انگلی کھڑے ہونے کی باتیں کرتے رہے ہیں اور آج کل بھی کسی نہ کسی انداز میں کر رہے ہیں اِس میں اُن لوگوں کے لئے ایک بلیغ اشارہ موجود ہے۔ آرمی چیف نے فوج کے اُن ریٹائرڈ افسروں کے خیالات سے بھی برملا لاتعلقی کا اعلان کر دیا جو سرشام ٹی وی چینلوں پر فوج کے خود ساختہ ترجمان بن کر ایسے بھاشن دینا شروع کر دیتے ہیں، جن کا زمینی حقائق سے دور دور تک تعلق نہیں ہوتا، توقع ہے کہ وہ اپنی دانش کے زیادہ بہتر استعمال پر غور کریں گے۔