حلقہ بندیوں کا کام اگلے برس اپریل میں مکمل ہو گا : انتخابات کا آپشن ختم
تجزیہ : قدرت اللہ چودھری
وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے ایک بار پھر کہا ہے کہ حکومت (اور قومی اسمبلی) اپنی مدت پوری کرے گی اور انتخابات وقت پر ہوں گے۔ انہوں نے یہ بات فیصل آباد میں خطاب کرتے ہوئے کہی۔ اس سے پہلے وہ سی پی این ای کے وفد سے بات چیت کرتے ہوئے کہہ چکے ہیں کہ ان پر اگر دباؤ بھی ڈالا گیا تو بھی وہ اسمبلی تحلیل نہیں کریں گے اور جو لوگ انہیں وزیراعظم نہیں دیکھنا چاہتے وہ ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد لے آئیں۔ موجودہ قومی اسمبلی کی مدت 31 مئی کو پوری ہوگی، اس حساب سے اسمبلی کی عمر اب 5 ماہ اور دس دن باقی رہ گئی ہے۔ جنوری اور فروری کے مہینوں میں دو ضمنی انتخاب ہونے جا رہے ہیں، ایک 9 جنوری کو چکوال کے حلقے پی پی 20 میں پنجاب اسمبلی کا انتخاب اوردوسرے 12 فروری کو این اے 154 پر قومی اسمبلی کا ضمنی انتخاب، صوبائی اسمبلی کی نشست مسلم لیگ (ن) کے رکن اسمبلی کی وفات سے خالی ہوئی ہے۔ روایتی طور پر یہ نشست مسلم لیگ کی ہی ہے، لیکن سخت مقابلے کا امکان ہے۔ تحریک انصاف کو اس حلقے میں پی پی پی کی حمایت بھی حاصل ہے، اسے مقامی طور پر سیٹ ایڈجسٹمنٹ کہا جاسکتا ہے کیونکہ ملک گیر سطح پر تو عمران خان اور آصف علی زرداری ایک دوسرے کے خلاف جلسوں میں سخت زبان استعمال کرتے رہتے ہیں، لیکن چند روز قبل سابق وزیراعظم راجہ پرویز اشرف نے حیران کن طور پر یہ تاثر دیا تھا کہ ملکی مفاد میں تحریک انصاف کا ساتھ دینے میں کوئی حرج نہیں۔ ان کی یہ بات اور بھی وزنی ہو جاتی ہے جب ہم دیکھتے ہیں کہ پیپلز پارٹی کے بہت سے لوگ پہلے ہی پارٹی چھوڑ کر تحریک انصاف میں ٹھکانہ کرچکے ہیں اور ان میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جن کی پیپلز پارٹی کے ساتھ طویل سیاسی وابستگی تھی۔ یہ بات یوں بھی کہی جاسکتی ہے کہ ملکی مفاد کی خاطر تحریک انصاف سے تعاون کرنے کی حقیقت ان حضرات پر بہت پہلے واشگاف ہوگئی تھی، اس لئے انہوں نے گومگو کی پوزیشن میں رہنے کی بجائے سیدھے سبھاؤ پیپلز پارٹی کو خیرباد کہا کہ عین ملکی مفاد کی خاطر تحریک انصاف میں چلے گئے۔ اگرچہ راجہ پرویز اشرف کے بارے میں تو امکان نہیں کہ وہ بھی اپنے پرانے ساتھیوں کی راہ پر چلیں گے، لیکن ان کے بیان سے یہ تو واضح ہوگیا کہ وہ تحریک انصاف کے ساتھ تعاون کو برا نہیں سمجھتے، اب اس کی شکل کیا ہو، یہ آنے والا وقت بتائے گا۔
بات ضمنی الیکشن کی ہو رہی تھی، عام انتخابات سے تین ساڑھے تین ماہ پہلے قومی اسمبلی کے ایک حلقے کے ضمنی انتخاب کی بڑی اہمیت ہے، کیونکہ اس سے اندازہ ہوسکتا ہے کہ ووٹر نے تازہ ترین سیاسی پیش رفت سے کیا تاثر قبول کیا ہے۔ قومی اسمبلی کا یہ حلقہ اس لحاظ سے معروف ہے کہ یہاں عام انتخابات میں جہانگیر ترین ہارے اور 2015ء کے ضمنی انتخاب میں جیت گئے۔ ان کے مقابلے میں دونوں بار صدیق بلوچ تھے۔ پہلی مرتبہ وہ آزاد لڑ رہے تھے، دوسری بار وہ مسلم لیگ (ن) میں شامل ہوچکے تھے۔ اب اگر ضمنی انتخاب ہوتا ہے تو کہا جاتا ہے کہ جہانگیر ترین کے صاحبزادے علی ترین میدان میں ہوں گے، لیکن جہانگیر ترین کے جو وکلاء ان کی نظر ثانی کی درخواست تیار کر رہے ہیں، وہ یہ اپیل بھی کریں گے کہ ریویو پٹیشن کے فیصلے تک ضمنی انتخاب روکا جائے۔ عام طور پر نظرثانی کی درخواستوں کا فیصلہ مختلف نہیں ہوتا بلکہ نواز شریف کے کیس میں تو یہ ہوا کہ نظر ثانی کی درخواست مسترد کرتے ہوئے ان کے بارے میں مزید سخت ریمارکس دے دئیے گئے، لیکن جہانگیر ترین (اور ان کے وکلاء) کو امید ہے کہ نظرثانی کی درخواست کا فیصلہ ان کے حق میں ہوگا۔ اس رجائیت پسندی کی کوئی بنیاد ہے یا یہ محض نیک خواہش ہے، کچھ کہا نہیں جاسکتا۔ بہرحال اگر ضمنی الیکشن ہوتا ہے اور جہانگیر ترین کے صاحبزادے علی ترین میدان میں اترتے ہیں تو مخالفین کو یہ کہنے کا موقع ضرور ملے گا کہ تحریک انصاف بھی موروثی سیاست کی مخالفت کرتے کرتے خود بھی اس راہ پر چل نکلی ہے۔ ویسے پارٹی تو چاہے گی کہ علی ترین ہی امیدوار بنیں، کیونکہ اس صورت میں جہانگیر ترین کی پارٹی کے لئے خدمات کو خراج تحسین پیش کیا جاسکے گا۔
حلقہ بندیوں کے متعلق ترمیمی بل کی سینیٹ سے منظوری کے بعد اب الیکشن کمیشن نئی حلقہ بندیوں کا کام چند روز میں شروع کر دے گا اور امید ہے کہ اپریل تک مکمل ہوگا۔ اس لئے یہ بات تقریباً یقینی ہے کہ قبل از وقت انتخاب نہیں ہوسکتے، کیونکہ اپریل تک جب حلقہ بندیوں کا کام مکمل ہوگا تو اسمبلی کی مدت میں ایک ماہ کا عرصہ باقی ہوگا۔ اس لئے اسمبلی مدت مکمل کرلے گی، اگرچہ عمران خان یہ ٹویٹ کرکے نواز شریف کو چیلنج کر رہے ہیں کہ وہ وزیراعطم کو فوری انتخاب کا کہیں، اگرچہ اب حلقہ بندیوں کے کام کی تکمیل کے بغیر انتخابات کا انعقاد کوئی چاہے بھی تو نہیں ہوسکتا، اس لئے خواہی نخواہی انتخابات کے لئے مدت مقررہ کا انتظار ہی کرنا ہوگا، جو 15 جولائی (یا اس کے لگ بھگ) ہی ہوسکتے ہیں۔ 31 مئی 2018ء کو اسمبلی مدت پوری کرے گی، جس کے بعد وزیراعظم عباسی، قائد حزب اختلا ف سید خورشید شاہ کے مشورے سے نگران وزیراعظم کا تقرر کریں گے، اگرچہ تھوڑا عرصہ قبل تحریک انصاف اور ایم کیو ایم پاکستان نے مل کر کوشش کی تھی کہ خورشید شاہ سے ان کا منصب چھین لیا جائے، لیکن یہ بیل اس لئے منڈھے نہ چڑھ سکی کہ حزب اختلاف کی دوسری جماعتوں نے اس مسئلے پر تحریک انصاف اور ایم کیو ایم (پاکستان) کے ساتھ تعاون سے انکار کر دیا۔ اب قبل از وقت انتخابات کی کوئی صورت نہیں بچی، اس لئے تمام سیاسی جماعتیں وقت مقررہ پر انتخابات کی تیاری کریں اور ووٹروں کو اپنے اپنے منشور سے آگاہ کریں، جو جماعتیں قومی حکومت کی امیدیں لگائے بیٹھی تھیں، ان کے ارادوں پر آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے گھڑوں پانی ڈال دیا ہے۔ سنا ہے قومی حکومت کے متوقع وزرأ کی استری شدہ شیروانیاں ان کے وارڈروبوں میں ٹنگی رہ گئی ہیں۔ اب شاید یہ حلف کی بجائے کبھی کبھار شادی کی تقریب میں پہننے کے کام آئیں۔
قبل از وقت انتخابات