ایک مرد جلیل جو گئے وقتوں کا نمونہ تھا

ایک مرد جلیل جو گئے وقتوں کا نمونہ تھا
ایک مرد جلیل جو گئے وقتوں کا نمونہ تھا

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

شیخ محمد الیاس صاحب کی رحلت میرے لیے ایک ذاتی نقصان کی حیثیت رکھتی ہے۔ان کے انتقال سے میں صرف ایک مربّی اور بزرگ کی سرپرستی اور دعاؤں ہی سے محروم نہیں ہوا بلکہ ماضی کی اس تہذیب سے بھی میرا ایک ربط ختم ہوگیا جس کا وہ زندہ اور چلتا پھرتا تعارف تھے۔
الیاس صاحب کی شخصیت اورزندگی کے گو ناگوں پہلو تھے جن کے بارے میں شاید دوسروں کو بتانا ضروری ہے۔وہ دہلی کی اس تہذیب کا نمونہ تھے جو شرفائے دہلی کی تہذیب کہلاتی تھی۔ اس میں رکھ رکھاؤ، ادب،نفاست ، حفظ مراتب اور ہر قدم پر دوسروں کا اعتراف اور لحاظ شامل تھا۔ یہ تہذیب اور رکھ رکھاؤخاندانی دولت مندوں میں ہی ہوا کرتی ہے۔موجودہ دور میں اچانک دولت مند ہوجانے والوں میں یہ تہذیب، رکھ رکھاؤ، عالی حوصلگی اور اعلیٰ ظرفی دیکھنے کو نہیں ملتی۔ان کی ساری تگ و دو دولت کمانے، اس کی نمودونمائش کرنے اور دوسروں کو مرعوب کرنے تک محدود رہتی ہے۔ دوسروں کی مدد، ان کی عزت اور لحاظ ایسے لوگوں میں نہیں ملتا۔
الیاس صاحب کا خاندان دہلی کے بہت خوشحال گھرانوں میں سے تھا۔تقسیم سے قبل کے زمانے میں گاڑی اور ڈرائیور عام گھرانوں کا معمول نہ تھا۔مگر وہ بتاتے تھے کہ ان کے ہاں بگھی اور گاڑی دونوں تھیں۔ایک دفعہ ان کے چچا نے شوق میں ڈرائیونگ سیکھنے کی کوشش کی تو والد نے ان کو ڈانٹاکہ تمھیں تو کوچوان بننے کا شوق ہے۔ دہلی سے پاکستان آکر بھی ان کے خاندان کی یہی صورتحال تھی۔الیاس صاحب نے اسی فراغت میں زندگی کاآغاز کیا۔ان کا طرز زندگی بہت امیرانہ تھا۔ایک ایسے دور میں جب لوگ صرف حج کے لیے پاسپورٹ بنواتے تھے، الیاس صاحب نے ساٹھ کی دہائی میں جبکہ وہ ایک نوجوان تھے، متعدد ممالک کی سیاحت کرلی۔تاہم سن اکہتر کی جنگ کے بعد ان کا خاندان عرش سے فرش پر آگیا کیونکہ ان کا سارا کاروبار مشرقی پاکستان میں تھا۔تمام کاروبار اور زمینوں پر مقامیوں کا قبضہ ہوگیا اور یہ لوگ خالی ہاتھ ہوگئے۔
یہیں سے یہ سبق بھی ملتا ہے کہ جنگ کتنی بری چیز ہوتی ہے۔جنگ طاقتور ملکوں اور طاقتور طبقات کے لیے بہت مفید مگر کمزور اقوام اور کمزور طبقات کے لیے تباہ کن چیز ہے۔عام آدمی چونکہ سب سے زیادہ کمزور ہوتا ہے، اس لیے کسی بھی جنگ کی صورتحال میں سب سے زیادہ تباہی اسی کے حصے میں آتی ہے۔ اسی کی جان، مال ، آبرواور گھر برباد ہوتا ہے۔ اس لیے عوام الناس کو ہمیشہ ہر قسم کے جنگی جنون میں یہ بات یاد رکھنا چاہیے کہ اس کی اصل قیمت ان ہی کو دینی ہوگی۔
کاروبار کے خاتمے کے بعد کے حالات الیاس صاحب کے لیے بہت تکلیف دہ رہے۔ مگر اس کے باوجود نفاست، رکھ رکھاؤ اور تہذیب میں کوئی فرق نہیں آیا۔ ہم نے ہمیشہ ان کو سفید براق کلف لگے ہوئے کپڑوں ہی میں دیکھا۔گفتگو میں سلیقہ، مخاطبین کی عزت و مرتبے کا لحاظ، دوسرووں کا اعتراف لیکن ا س کے باوجود اپنے نقطہ نظر کو جرات اور ہمت سے بیان کرنا ہمیشہ ان کے اوصاف رہے۔
انھوں نے اپنے ذوق کے مطابق آرٹیفیشل جیولری کی ایک دکان کرلی تھی۔ میرے متعلق انھیں معلوم تھا کہ کینیڈا سے اپنی جاب اور امیگریشن چھوڑ کر آیا ہوں۔ میری اس وقت بالکل نئی نئی شادی ہوئی تھی اور اس صورتحال میں سب سے بڑا امتحان میری اہلیہ کا ہوا تھا۔ چنانچہ ہمیشہ وہ ان کا خصوصی خیال کرتے تھے اور اکثر و بیشتر ان کے لیے اپنی دکان کی قیمتی جیولری بھجواتے رہتے تھے۔ میں اپنی مصروفیات کی بنا پر عام طور پر لوگوں سے کم ہی رابطہ کرتا ہوں۔ مجھ سے وہ ہمیشہ یک طرفہ طور پر رابطے میں رہتے تھے۔مجھے نہیں یاد کہ کبھی انھوں نے مجھ سے کوئی شکایت یا شکوہ کیا ہو کہ تم فون کیو ں نہیں کرتے۔یہ بہت ساری مثالوں میں سے چندایک ہیں جو یہ بتاتی ہیں کہ وہ کس درجہ تہذیب یافتہ اور رکھ رکھاؤ والے آدمی تھے۔
انھوں نے اپنی آنکھوں کے سامنے کراچی کو تہذیب کے زندہ نمونے سے لے کر ایک کھنڈر اور مقتل بنتے ہوئے دیکھا تھا۔ وہ بڑے تاسف سے کراچی کی داستان سنایا کرتے تھے کہ کس طرح تقسیم سے قبل ہندوستان کی انتہائی دولت مند پارسی کمیونٹی نے کراچی کو اپنا مرکز بنانے کا فیصلہ کیا اور ہندوستان بھر سے دولت اور تہذیب سمٹ کر یہاں آنے لگی۔بیسویں صدی کی تیسری اور چوتھی دہائی میں پارسی کالونی کے نام سے کراچی کی پہلی پوش رہائشی اسکیم قائم کی گئی۔دیکھتے ہی دیکھتے کراچی ایک ترقی یافتہ اور جدیدشہر بن گیا۔
تقسیم ہند کے بعد کراچی دنیا کی سب سے بڑی اسلامی ریاست پاکستان کا دارالخلافہ قرار پایا۔یوں کراچی کا مقدر عروج پر پہنچ گیا۔گرچہ اس موقع پر مقامی ہندو آبادی کا بڑا حصہ یہاں سے ہندوستان منتقل ہوا، لیکن دہلی ،لکھنؤ اور یوپی سے آنے والی مسلم آبادی نے اس خلا کو بھردیا۔ آنے والے لوگ خود تہذیبی طور پر ہندوستان کا گل سرسبد تھے۔ یوں کراچی سیاسی پہلو کے علاوہ تہذیبی اور ثقافتی طور پر نئے ملک کا ایک اہم علمی وادبی مرکز بن گیا۔پچاس اور ساٹھ کی دہائی تک یہ شہر تہذیب ، تمدن،علم و فن، امن، دولت اور ترقی کا مرکز تھا۔الیاس صاحب نے اپنی جوانی میں اسی کراچی کو دیکھا تھا اور وہ اکثر اس کا تذکرہ بڑی تفصیل سے کرتے تھے۔ اس دور کے جو واقعات وہ سناتے تھے آج کے دنوں میں تو وہ ناقابل یقین لگتے ہیں۔
مگر بدقسمتی سے پاکستان کی انتہائی خود غرض لیڈرشپ نے اپنے ذاتی مفادات کے تحت اس شہر کو تباہ کرنے کا عمل شروع کیا جس کے نتائج پورے ملک کو بھگتنے پڑے۔سب سے پہلے ایوب خان نے یہاں سے دارالحکومت منتقل کیا۔ پھر بھٹو نے قوم پرستانہ نفرت کا بیج بویا۔پھر ضیاء الحق نے لسانیت کو فروغ دیا۔اس کے بعد کی تباہی تو موجودہ نسل نے اپنی آنکھوں سے دیکھی ہے۔

لائیو ٹی وی پروگرامز، اپنی پسند کے ٹی وی چینل کی نشریات ابھی لائیو دیکھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
اس زوال مسلسل کی وجہ سے اس شہر کے اعلیٰ تعلیم یافتہ اور تہذیب یافتہ لوگ یہاں سے ہجرت کرتے رہے۔ پہلے ہندوستان سے آئے ہوئے لوگوں میں سے اعلیٰ تعلیم یافتہ افرادنے دنیا کے مختلف ممالک میں ہجرتیں کیں۔ پھر پارسی کمیونٹی نے ملک چھوڑ کر کینیڈا کو مرکز بنالیا۔اسی کے ساتھ اینگلو انڈین اور دیگر غیر ملکی قومیتوں کے تعلیم یافتہ لوگ یہاں سے ہجرت کرکے بیرون ملک منتقل ہوتے رہے۔ دوسری طرف سیاسی اور معاشی بنیادوں پر پاکستان بھر سے غیر تعلیم یافتہ طبقات کراچی منتقل ہوئے یا انھیں منتقل کیا گیا۔ اس کے نتیجے میں آبادی میں تعلیم یافتہ اور تہذیب یافتہ بہت کم رہ گئے اور یوں اس شہر کا تہذیبی چہرہ اپنی پرانی شکل برقرار نہ رکھ سکا۔
الیاس صاحب کراچی کی اس تباہی کا سبب یہ بتاتے تھے کہ اس شہر کے باسیوں نے اپنی اعلیٰ تعلیم اوربلند شعور کی بنا پر حکومتوں کے خلاف مسلسل اپوزیشن کا کردار اداکیا۔ایوب خان سے بھٹو تک یہ شہر اپوزیشن کا گڑھ تھا۔چنانچہ اس شہر کے باسیوں کو سزا دینے کا فیصلہ کیا گیا اور آج کے دن تک یہ سزا ختم نہیں ہوئی ہے۔ الیاس صاحب اس پوری صورتحال پر کڑھتے اور افسوس کرتے تھے۔
الیاس صاحب کی صحت کئی برس سے خراب تھی، مگر وہ بڑی ہمت سے نارمل زندگی گزارتے رہے۔ مگر چند ماہ قبل ان کی اہلیہ کو کینسر کاآخری اسٹیج تشخیص ہوا۔ان کے لیے یہ صدمہ بہت زیادہ تھا۔اس نے ان کی وہ ہمت توڑ ڈالی جو بدترین حالات بھی نہیں توڑ سکے تھے۔ رمضان کے آخری دن ان کی اہلیہ کا انتقال ہوا اور اس کے دوہفتے بعد وہ بھی دنیا سے رخصت ہوگئے۔
انھوں نے بدترین حالات دیکھنے کے باوجود جس اعلیٰ انسانی اور اخلاقی سطح پر زندگی گزاری ، اللہ تعالیٰ کی رحمت سے امید اور دعا ہے کہ آخرت کی دنیا میں بھی اللہ تعالیٰ اپنے اس مومن بندے کو اہل جنت کی اشرافیہ میں شامل فرمائیں گے۔آمین۔

۔

نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں۔ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزید :

بلاگ -