پی ڈی ایم کے جلسوں سے کیا اثرات مرتب ہوئے؟
پی ڈی ایم کے جلسے اپنی اثر پذیری ظاہر کیوں نہ کرسکے میں سمجھتا ہوں کہ اور باتوں کے علاوہ شاید ان جلسوں کی ناکامی کی وجہ ان میں اٹھنے والی پاکستان مخالف آوازیں بھی ہیں۔ کیاپی ڈی ایم نے اپنے جلسوں میں اٹھنے والی ان ناپسندیدہ آوازوں کا نوٹس لینا کبھی گوارا کیا ہے۔ جواب نفی میں ہے۔ کیا اس سارے منظر کی موجودگی میں اگر میرے جیسا ایک عام آدمی بے چین اور بے کل ہے تو کیا جس ادارے کی ذمہ داری ہی نظریات اور اندرونی و بیرونی خطرات سے نمٹنے اور سرحدوں کی حفاظت ہے وہ اگر خاموش ہے تو اس کی تحسین ہی کی جائے گی نہ کہ تنقید۔ میرے جیسا قلم کا مزدور تو ہمیشہ یہی سوچتا ہے کہ اگر حکومت مہنگائی پر قابو پالے عدل و انصاف کی فراہمی اس کا مطمح نظر ہو تو 2023ء کے انتخابات میں بھی کامیابی اس کا مقدر ہو سکتی ہے۔ اور اگر اپوزیشن راہنماؤں نے اپنے اختیار کردہ طرز عمل میں تبدیلی نہ کی تو اس کا حشر گزشتہ ماہ گلگت بلتستان کی قانون ساز اسمبلی کے ہونے والے انتخابات سے مختلف نہیں ہوگا جس میں پیپلز پارٹی کو صرف تین اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کو محض دو نشستیں حاصل ہوئی تھیں۔ جبکہ مولانافضل الرحمن کو وہاں کے عوام نے سرخ جھنڈی دکھا دی تھی۔ تیسری قوت سب کچھ برداشت کر لے گی اپنی سرحدوں کی توہین اسے کسی طور منظور اور قبول نہیں ہوگی۔
مولانا فضل الرحمن کی زیر صدارت منعقد ہونے والے لاہور کے جلسہ عام کا شور کئی دنوں سے اپنے پہلوئے دل اور کھلے کانوں سے سن رہا تھا۔ اس جلسے کے انعقاد سے پہلے پی ڈی ایم کے ہر اعلیٰ و ادنیٰ راہنما کے جلسے کے حق میں اور اسے وطن عزیز کی تاریخ کا یادگار جلسہ بنانے کے حوالے سے اٹھنے والی ہر آواز کی لَے اس قدر اونچی تھی کبھی کبھار یوں لگتا کہ حکومت اب گئی کہ گئی۔ اپوزیشن راہنماؤں کی ہرتان ”آر ہوگا یا پار“ کے نعرے پر ٹوٹتی لیکن نہ تو 13دسمبر کو ہونے والا جلسہ اپنے نقش عوام الناس کے قلب و ذہن پر چھوڑ سکا اور نہ ہی حکومت اور بقول اپوزیشن اس کے”سلیکٹرز“کے لئے کسی قسم کی پریشانی کا باعث بن سکا البتہ یہ جلسہ استعفوں کے سوال پر منتخب اراکین اسمبلی اور ممبران سینٹ کو سولی پر ضرور لٹکا گیا کیونکہ ایک دفعہ کوئی شخص صوبائی یا قومی یا پھر ایوان بالا یعنی سینٹ کا رکن منتخب ہو جائے تو وہ اپنی مدت عہدہ مکمل کئے بغیر استعفٰی دینے کی قربانی کا متحمل نہیں ہو سکتا بطور خاص پاکستان پیپلز پارٹی جس کی سندھ میں حکومت بھی ہے سینٹ میں بھی وہ ایک مقام اور عددی طاقت بہرحال رکھتی ہے۔ اس جماعت کے لوگ ٹھنڈے پیٹوں اپنے استعفے طشتری میں رکھ کر بلاول بھٹو کی خدمت میں کس طرح پیش کرنا گوارا فرما لیں گے۔ طرفہ تماشہ یہ بھی ہے کہ جناب آصف علی زرداری استعفوں کے حق میں نہیں جبکہ ان کے صاحبزادے کی رائے دوسری ہے اور اطلاعات سے اندازہ ہوتا ہے کہ باپ بیٹے کے درمیان استعفوں کے سوال پر شدید اختلاف رائے بھی پایا جاتا ہے۔
بلاول بھٹو اپنی رٹ قائم کرنے پر بضد ہیں جبکہ والد محترم صوبہ سندھ میں قائم اپنے اقتدار کی قربانی دینے سے گریزاں نظر آتے ہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی اور پی ڈی ایم کی دیگر جماعتوں کی طرف سے اعلان کردہ تاریخ تک استعفے آتے ہیں یا نہیں لیکن ان جلسوں نے اپوزیشن کے ان دعووں اور اندازوں کو بہرحال غلط ثابت کر دیا ہے کیونکہ اس کا خیال تھا کہ لاہور کے جلسے کے بعد حکومت ختم ہو جائے گی۔آپ جلسوں میں لوگوں کو ان کی مرضی و منشا کے بغیر نہیں لا سکتے۔ کیونکہ ماضی گوا ہ ہے کہ آج تک کسی حکومت نے بھی عوام کے حقوق اور سماجی انصاف ان کی دہلیز پر فراہم کرنے کی کبھی زحمت ہی گوارا نہیں فرمائی۔ تین مرتبہ پاکستان پیپلز پارٹی اور تین ہی بار پاکستان مسلم لیگ (ن) اور کسی نہ کسی طور پاکستان مسلم لیگ (ق) برسرِ اقتدار رہیں لیکن مجال ہے عوام کی فلاح و بہبود کے بارے میں کسی نے سوچاہو یہی وجہ ہے کہ لوگ جلسوں میں نہیں جاتے۔