LNG بحران اور ہڈیوں کا گودا
پاکستان میں اس وقت گیس کا بحران ہے، جس کی وجہ سے انڈسٹری کو گیس کی فراہمی میں شدید کمی ہو گئی ہے اور بہت سی اہم صنعتیں بند ہونے پر مجبور ہو گئی ہیں۔ یہ ایک بہت افسوس ناک صورت حال ہے، جس کا خمیازہ سب کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔ موجودہ حکومت کا اقتدار میں تیسرا سال چل رہا ہے، لیکن وہ ابھی تک ہر خرابی کی ذمہ داری پچھلی حکومت پر ڈالنے کی روش سے باز نہیں آ رہی جس کی وجہ سے وہ اپنی غلطیوں کی اصلاح اور صورت حال پر قابو پانے کی بجائے لوگوں کی مشکلات میں مزید اضافہ کا باعث بن رہی ہے۔ بہت سادہ سی بات ہے کہ اگر موجودہ حکومت نے اپنے پہلے اور دوسرے سال میں ایل این جی کی درآمد کی درست منصوبہ بندی کی ہوتی تو اس وقت تیسرے سال ملک میں گیس کا اتنا شدید بحران نہ ہوتا۔ پی ٹی آئی حکومت کو تسلیم کر لینا چاہئے کہ توانائی کے موجودہ بحران کے ذمہ دار خود اس حکومت کے وزیر اور مشیر ہیں جو وقت پر درست منصوبہ بندی نہیں کر سکے۔ اقتدار کے تیسرے سال میں ہر چیز کو پچھلی حکومت پر نہیں ڈالا جا سکتا۔ پچھلے دنوں پٹرولیم اور گیس کے معاون خصوصی ندیم بابر اور سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی (جو خود بھی پٹرولیم اور گیس کے کافی عرصہ وزیر رہ چکے تھے) کے درمیان ایک ٹیلیویژن مناظرہ ہوا، جس میں موجودہ حکومت کی گیس بارے ناقص حکمت عملی اور اقدامات کھل کر سامنے آئے۔
معاون خصوصی ندیم بابر کو اعتراف کرنا پڑا کہ اس سال بروقت معاہدے نہ کرنے کی وجہ سے ہمیں دوسرے ملکوں کے مقابلہ میں زیادہ مہنگی گیس خریدنا پڑ رہی ہے۔سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ معاہدے جو حکومت کو 2020ء کے موسم گرما میں کرنا تھے تاکہ 2020-21ء کے موسم سرما میں گیس اچھے ریٹ پر مل سکے، یہ اس حکومت پر کیسے ڈالا جا سکتا ہے، جو مئی 2018ء سے پہلے تھی۔ یہ تو سراسر وفاقی وزیر عمر ایوب خان اور معاون خصوصی ندیم بابر کی نا اہلی ہے اور وزیر اعظم عمران خان پر فرض ہے کہ وہ اپنے وزیر اور مشیر کی باز پرس کریں اور ذمہ دار ٹھہرنے کی صورت میں انہیں ان کے عہدوں سے ہٹائیں۔ کیا یہ نیب کی ذمہ داری بھی نہیں کہ وہ قومی خزانہ کو اربوں روپے کا نقصان پہنچانے والوں کے خلاف تحقیقات اور مقدمات قائم کرے؟ یا نیب صرف اپوزیشن کے خلاف یکطرفہ اور انتقامی کارروائیاں کرنے والا ادارہ ہے۔ میں اکثر کہتا ہوں کہ نیب کی ایک آنکھ میں موتیا ہے، جس کی وجہ سے اسے صرف اپوزیشن نظر آتی ہے جبکہ موجودہ حکومت کے کہیں بڑے میگا سکینڈل جن میں گندم،آٹا، چینی، ادویات، پٹرولیم، ایل این جی وغیرہ اسے نظر ہی نہیں آتے اور نہ ہی وہ پشاور بی آر ٹی اور مالم جبہ وغیرہ کے کیسوں میں ذمہ داروں کے خلاف کوئی کارروائی کرتا ہے۔ میں پہلے بھی لکھتا رہا ہوں کہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے ایل این جی معاہدے Brent کے 13.37 فیصد جبکہ موجودہ حکومت کے 17.35 فیصد پر ہیں۔
شاہد خاقان عباسی اور ندیم بابر کے مابین ہونے والے مناظرہ میں معاون خصوصی کو کئی ایسی باتوں کا اعتراف کرنا پڑا، جس پر عمران خان پچھلے پانچ سال سے سیاست کر رہے تھے۔ مثال کے طور پر ندیم بابر نے اعتراف کیا کہ ملک میں گیس کی قلت کا واحد حل ایل این جی کی درآمد ہے اور اس وجہ سے اس کی درآمد بہت ضروری ہے۔ دوسرا اعتراف انہوں نے یہ کیا کہ ایل این جی ٹرمینل پر اداکئے جانے والے capacity charges قومی خزانہ کو ایل این جی کی وجہ سے ہونے والی بچت سے انتہائی کم ہیں، موجودہ ٹرمینل کی صرف 13 فیصد صلاحیت کے استعمال سے 4 پاور پلانٹس کو گیس سپلائی دی جاتی ہے، جس کی وجہ سے فرنس آئل کی مد میں ہونے والی بچت پورے ٹرمینل کے capacity charges سے کہیں زیادہ ہے۔ گویا موجودہ حکومت اپنی ناقص پالیسی اور ہٹ دھرمی کی وجہ سے کہیں مہنگی بجلی بنا رہی ہے، جس کا خمیازہ عوام کو آئے دن بجلی کی قیمت مہنگی ہونے کی صورت میں بھگتنا پڑتا ہے۔ وزیر اور مشیر کی نالائقی کی سزا عوام بھگت رہے ہیں۔ گیس نہ ملنے اور بجلی مہنگی ہونے کی وجہ سے انڈسٹری بند ہو رہی ہے اس کی وجہ سے ہزاروں لوگ بیروزگار ہو رہے ہیں۔ گیس نہ ہونے کی وجہ سے یوریا کھاد بنانے والی کچھ فیکٹریاں بند ہو گئی ہیں، جس کی وجہ جنوری کے مہینہ سے ملک میں یوریا کھاد کی شدید قلت ہو جائے گی اور اس کی وجہ سے زرعی پیداوار میں بھی شدید کمی ہو گی۔ پہلے ہی موجودہ حکومت کی ناقص پالیسیوں کی وجہ سے ملک میں عشروں کے بعد اس سال گندم درآمد کرنا پڑی ہے۔ پاکستان جو سالوں سے گندم برآمد کر رہا تھا، اس سال روس سے کئی ملین ٹن گندم دوگنا داموں پر درآمد کرنے پر مجبور ہو گیا ہے اور اگلے سال صورت حال اس سے بھی بدتر ہو گی۔
پاکستان کے لئے ایک ایک ڈالر کا زرمبادلہ انتہائی قیمتی ہے۔ یہ ڈالر ہمارے غریب عوام کے خون اور پسینہ سے آتے ہیں اور ہماری حکومت کی نااہلی کی وجہ سے انہیں دوسرے ملکوں کو دے دیا جاتا ہے اور بازپرس نہیں ہوتی اور نہ ہی نیب کے کان پر جوں رینگتی ہے۔ نیب کیوں نہیں حساب لگاتاکہ اس سال پاکستان نے کتنے سو ملین ڈالر کی گندم اور چینی درآمد کی ہے یا نا اہلی کی وجہ سے وقت پر معاہدے نہ ہونے کی وجہ سے کتنے سو ملین ڈالر کی مہنگی ایل این جی خریدنا پڑ ے گی۔ ذمہ داروں کے خلاف تحقیقات اور سزا و جزا کا عمل کب شروع ہو گا۔
معاون خصوصی کو حکومتی گارنٹی پر چلنے والے پاور پلانٹس پر اعتراض ہے،لیکن ان کے ذاتی پلانٹس حکومتی گارنٹی پر چل رہے ہیں۔ ہاتھی کے دانت کھانے کے اور دکھانے کے اور۔ پاکستان کے غریب عوام کا خون اور پسینہ نا اہلی کی وجہ سے دوسرے ملکوں کو دینے پر چیف جسٹس کو ازخود نوٹس لے کر دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کرنا چاہئے۔ اس سال جون میں جب کرونا عروج پر تھا تو دوسرے ممالک انتہائی ارزاں نرخوں پر ایل این جی کے معاہدے کر رہے تھے، لیکن ہماری حکومت نے انتہائی مجرمانہ غفلت سے کام لیا۔