ڈسکہ انتخاب: تحقیقاتی رپورٹ (13)
148۔ ضمنی سوال جواب سیشن کے دوران اس نے بتایا کہ وہ سب دوپہردوبجے کے بعد سرکاری گاڑی میں آر او آفس سے نکلے اور ساڑھے تین بجے پولنگ سٹیشن پرپہنچے۔ ان میں سے کسی نے بھی ذاتی گاڑی استعمال نہیں کی۔ دھرم کوٹ چوکی سے ایک اے ایس آئی اور سپیشل برانچ کے پولیس اہل کار چیکنگ کے لیے آئے۔ ان میں سے ایک نے عامر رضا سے ملاقات کی۔ پولنگ ختم ہونے کے بعد وہ سب رات دس بجے سرکاری گاڑی میں بیٹھ کر چلے گئے۔ راستے میں وہ ڈی ایس پی پسرور کے دفتر میں نہیں رکے۔ان میں سے کسی نے پریذائیڈنگ آفیسر کا موبائل فون نہیں لیا۔ آراو آفس پہنچنے کے لیے اُنھوں نے موٹر وے کے علاوہ کوئی او رراستہ اختیار کیا تھا۔
149۔ علی محمود، C/468، پولیس اہل کار نے بھی روایتی بیان دیا جو عامر رضا، SI اور ساجد محمود C/246 کے جوابات سے مشابہت رکھتا تھا، اس لیے دوبارہ پیش کرنے کی ضرورت نہیں۔
150۔ ضمنی سوال جواب کے سیشن کے دوران اس نے بتایا کہ وہ سب دوپہر بارہ یا ایک کے درمیان آر او آفس سے نکلے اور سہ پہر ڈھائی بجے کے بعد پولنگ سٹیشن پہنچے۔ کچھ پولیس اہل کار مختلف اوقات میں چیکنگ کے لیے آئے۔ وہ سب رات 9 بجے سے رات 10 بجے کے درمیان سرکاری گاڑی میں پولنگ اسٹیشن سے روانہ ہوئے۔پریذائیڈنگ آفیسر رات گئے آر او آفس پہنچے۔
151۔ واجد محمود، ڈرائیور JMA-5758 نے عدالت کے سامنے اپنا بیان ریکارڈ کرایاکہ وہ تین بجے اس کے پریذائیڈنگ آفیسر کے ہمراہ آراو آفس سے نکلا۔ دو پولیس اہل کار اس کا بیٹا اس کے ساتھ تھے۔ پولیس اہل کاراپنی کلٹس کار جب کہ ساجد اپنی سرخ سوزوکی کار میں ان کے پیچھے آرہے تھے۔ وہ موٹر وے اور کسو والا سے ہوتے ہوئے شام چار بجے پولنگ سٹیشن پہنچے۔جب پولنگ ختم ہوئی تو پریذائیڈنگ آفیسر اور اس کا بیٹا اپنی گاڑی میں بیٹھ گئے۔ تمام پولیس اہل کار اپنی نجی کار میں سوار تھے۔موٹر وے کے قریب پہنچ کر سب انسپکٹر نے اپنی گاڑی روک کر اُسے ہدایت کی کہ وہ انھیں پسرور میں چھوڑ دیں اور پھر اُن کی ڈیوٹی ختم ہوجائے گی۔ پوچھنے پر اسے تھپڑ مارا گیا۔ اس کا موبائل فون بھی چھین لیاگیا۔ اس کے بعد وہ ڈی ایس پی پسرور کے دفتر کے پاس پہنچا۔ آٹھ سے نو پریذائیڈنگ آفیسر اس کی گاڑی میں بیٹھ گئے۔ دوباوردی پولیس اہل کار اور دو سادہ کپڑوں میں اہل کار بھی اس کی گاڑی میں تھے۔ اسے وہاں پھر مارا پیٹا گیا۔ ایک نئی سفید کرولا کارآگے تھی جب کہ دوپولیس الیٹ وینیں ساتھ تھیں۔ ایک اس کے آگے اور ایک پیچھے تھی۔ سفید کرولا کار میں چار لوگ بیٹھے تھے۔ کچھ فاصلہ طے کرنے کے بعد وہبڈیانہ پسرور کے درمیان پہنچا، جہاں ایک اور نئے ماڈل کی سفید کرولا کار آ گئی۔انہیں اس گاڑی میں دو عورتیں بیٹھی ہوئی تھیں جن میں سے ایک کے چہرے دائیں آنکھ اور ناک کے درمیان تل تھا۔ پھر وہ سب سیالکوٹ پہنچ گئے۔ شہاباپھاٹک پار کرنے کے بعد وہ اوگوکی روڈ پر چلے گئے۔ اسے مسافروں کو وہاں چھوڑنے کو کہا گیا اور وہ اندر چلے گئے. انہیں پھاٹک کے قریب اپنی گاڑیاں لے جانے کو کہا گیا۔ اُنھیں اپنی گاڑیوں سے نکلنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ صبح چار بجے کے قریب وہ آٹھ پریذائیڈنگ آفیسر ز کو لے کر آر او آفس کی طرف روانہ ہوا۔ وہ ان آٹھ میں سے چار کو پہچانتا تھا:
۱۔ عمرفاروق ڈوگر، پولنگ سٹیشن۔۲
۲۔ عاطف شاہین، پولنگ سٹیشن۔۳
۳۔ شاہ جہاں، پولنگ سٹیشن۔۶
۴۔ محمد انور، پولنگ سٹیشن۔۴۷
وہ ہنس رہے تھے اور مطمئن دکھائی دے رہے تھے۔ عمر فاروق ڈوگر سب سے زیادہ باتیں کررہا تھا۔ایک سب انسپکٹر جس کا تعلق گاؤں ولانی سے تھا اور ایک کانسٹیبل اس کی وین میں تھے۔ انھوں نے اسے موترہ پل کے نیچے رکنے کو کہا اور پھر اسے جانے کی اجازت دے دی۔
پولنگ سٹیشن نمبر 49-گورنمنٹ بوائز پرائمری سکول، سنگروالی(مشترکہ)
152۔ پریزائیڈنگ آفیسر حافظ محمد انور شاہد کو بھی وہی سوالنامہ فراہم کیا گیا۔ اس کے جواب میں اس نے کہا کہ کسی نے اس سے رابطہ نہیں کیا۔شام 06:33 بجے اُس نے واٹس ایپ کے ذریعے نتیجہ آر او آفس بھیج دیا۔ ابھی اس نے فارم تقسیم کیے ہی تھے جب پولیس اہل کار آئے اور اس سے کہا کہ جلدی کرو کیوں کہ بروقت پہنچنا ہے۔ اُنھوں نے مزید بتایا کہ خراب موسم کی وجہ سے ان کی سیکیورٹی بڑھا دی گئی ہے۔وہ ان کے ساتھ دو الگ الگ گاڑیوں میں آر او آفس جائیں گے۔ پولیس اہلکارپھر دونوں پولنگ بیگز کو چھین کر زبردستی اپنی پرائیویٹ گاڑی میں بٹھایا۔دوسرے عملے کو اس کے ساتھ جانے کی اجازت نہیں تھی۔ انھوں نے اس کا موبائل فون بھی چھین کر بند کردیا تا کہ وہ کسی سے رابطہ نہ کر سکے۔ باقی انتخابی مواد سرکاری گاڑی میں تھا جس میں نائب قاصد اور مجاز پولیس اہل کار تھے۔اسپیشل سیکورٹی کے نام پر سب کچھ غلط کیا جا رہا تھا۔ پولیس اہلکارکو موبائل فون پر کسی سے ہدایات مل رہی تھیں۔ وہ سامنے بات نہیں کر رہا تھا، جب بھی اسے ایسی کالیں آتیں وہ گاڑی چھوڑ کر چلا جاتا۔ کچھ دیر کے بعدان کی گاڑی تبدیل کر دی گئی اور اُنھیں اس جگہ لے جایا گیا جہاں اُسے جعلی نتیجے پر دستخط کرنے اور انگوٹھا لگانے کا حکم دیا گیا۔ اُسے حکم دیا گیا کہ وہ یہی نتیجہ آر او آفس میں جمع کرائے۔ اس کے بعد اُسے ایک اور گاڑی میں بیٹھنے کا کہا گیا، اور وہ آر او آفس کی طرف چل پڑے۔ پھر اُنھیں ایک بار پھر پولیس کی گاڑی میں بیٹھا کر آراو آفس اتاراگیا۔ اس نے جان سے مارنے کی دھمکیوں سے ڈر کر آر او آفس جعلی نتیجہ جمع کرایا تھا۔
153۔ ضمنی سوال جواب کے کے دوران، انہوں نے کہا کہ وہ ایک بڑی سفید گاڑی تھی نہ کہ سرکاری گاڑی۔ غیر مجاز اور مجاز پولیس اہل کاروں نے اسے بتایا کہ سیکیورٹی پلان تبدیل کر دیا گیا ہے، اور وہ زبردستی اس کے پولنگ بیگ لے گئے۔وہ اُنھیں پسرور لے گئے۔ بڈیانہ میں ان کی گاڑی تبدیل کر دی گئی۔اس کے بعدادھر ادھر گھومتے پھرنے کے بعد وہ اسے ایک کمرے میں لے گئے جہاں اسے نتیجہ دیا گیا جو اُسے آگے جمع کرانا تھا۔ اُنھوں نے زبردستی اس نتیجے پر اس کے دستخط بھی لے لیے۔ اس نے اس کے بارے میں آر او کو نہیں بتایاکیوں کہ اسے جان کا خطرہ تھا۔
154۔محمداعجازگورایہ،سینئر اسسٹنٹ پریذائیڈنگ آفیسر نے سوال نامے کے جواب میں بتایا کہ وہ پریذائیڈنگ آفیسر کے ساتھ اٹھارہ فروری 2021ء کو آراو آفس گیا اورانتخابی مواد حاصل کیا۔ وہ سرکاری گاڑی میں پولنگ سٹیشن کے لیے روانہ ہوئے۔ ایک پولیس اہل کار اُن کے ساتھ تھا۔ دو اور پولیس اہل کار اپنی ذاتی مہران کار میں آرہے تھے۔ اگلے دن شام ساڑھے چھے بجے نتیجہ تیار ہوا۔ جب وہ پولنگ بیگ تیار کر رہے تھے توغیر مجاز پولیس اہل کار مجاز پولیس اہل کاروں کے ساتھ آئے۔ اُنھوں نے کہا کہ سیکورٹی کے مسائل ہیں، اس لیے اُنھیں ان کے ساتھ جانا پڑے گا۔باقی انتخابی مواد اسی گاڑی میں رکھا رہنے دیا گیا۔ شام ساڑھے چھے بج کر چالیس منٹ پر بھیج دیا گیا تھا۔ پریذائیڈنگ آفیسرسرکاری گاڑی میں نہیں بیٹھا۔ انتخابی مواد نائب قاصد سرکاری گاڑی میں آر او آفس لے گیا۔اور وہ گھر چلا گیا. اس نے آر او کو نہیں بتایا کہ ان کے ساتھ کیا ہوا۔ اس کا کہنا تھا کہ اسے انیس فروری 2021 ء کی رات آر او آفس سے لاپتہ پریذائیڈنگ آفیسر کی بابت کوئی فون کال موصول نہیں ہوئی تھی۔
155۔ لیاقت علی، مالی/ نائب قاصد نے اپنے بیان میں کہا کہ وہ انتخابی سامان پریذائیڈنگ آفیسر کے ساتھ آر او آفس، ڈسکہ سے لے گیا۔ دو پولیس اہل کارسرکاری گاڑی میں گئے جبکہ تیسرا پولنگ اسٹیشن ذاتی گاڑی پر آیا۔ پولنگ ایجنٹ گنتی کے عمل میں موجود تھے جو کہ عشاء کی نماز کے آس پاس مکمل ہوا۔پولنگ ایجنٹوں کو فارم 45 اور 46 فراہم کیے گئے۔جب وہ لفافوں کو سیل کر رہے تھے تو غیر مجاز پولیس اہل کار آئے اور پوچھاوہ جلدی کریں کیونکہ انہیں پریذائیڈنگ آفیسر کو حفاظتی تحویل میں لینا تھا۔ مجاز پولیس اہل کار اس کے ساتھ تھا، اور غیر مجاز پولیس پریذائیڈنگ آفیسر کو اپنے ساتھ لے گئی۔ وہ رات نو بجے آر او آفس پہنچے۔
156۔ پچیس سوالوں پر مشتمل سوال نامے کے جواب میں اے ایس آئی پولیس اہل کار فیاض احمد نے اپنے جمع کرائے گئے بیان میں بتایاکہ وہ آر او آفس سے اٹھارہ فروری 2021 ء کو دوپہر ایک بجے سرکاری گاڑی میں روانہ ہوئے اور ڈھائی بجے سہ پہر پولنگ سٹیشن پر پہنچے۔ پولنگ کا عمل پرامن رہا۔ وہ پولنگ سٹیشن سے سوا نو بجے رات روانہ ہوئے اور بیس فروری کو علی الصبح ایک بجے پریذائیڈنگ آفیسر اور انتخابی مواد کے ساتھ آر او آفس میں پہنچ گئے۔
157۔ ضمنی سوال جواب سیشن کے دوران اُنھوں نے بتایا کہ وہ ڈسکہ پسرور ر وڈ سے ڈیڈووالی، منڈیکے اور مالومالی سے ہوتے ہوئے ڈیڑھ گھنٹے میں پولنگ اسٹیشن پہنچ گئے۔ کچھ اہلکار جن میں سعید، ایس آئی نے چیکنگ کے لیے پولنگ سٹیشن کا دورہ کیا۔ پی ٹی آئی وہاں سے جیت گئی۔ وہ سب پولنگ سٹیشن سے رات ساڑھے نو بجے سرکاری گاڑی میں چلے گئے۔وہ رات ساڑھے بارہ یا ایک بجے کے درمیان آراو آفس پہنچ گئے۔
158۔ پولیس اہل کاربلال غفور، C/1717 کو پچیس سوالات پر مشتمل سوال نامہ دیا گیا۔ اس کے جوابات فیاض احمد، اے ایس آئی کے جوابات سے مشابہت رکھتے تھے، اس لیے انہیں دوبارہ پیش کرنے کی ضرورت نہیں۔
159۔ ضمنی سوال جواب سیشن کے دوران پوچھے گئے سوالوں کے جوابات فیاض احمد، اے ایس آئی کے جوابات سے مشابہت رکھتے تھے، اس لیے انہیں دوبارہ پیش کرنے کی ضرورت نہیں۔
160۔ پولیس اہل کارسعید انور، C/1572، کوپچیس سوالات پر مشتمل سوال نامہ دیا گیا۔ اس کے جوابات بلال غفور اور فیاض احمد، اے ایس آئی کے جوابات سے مشابہت رکھتے تھے، اس لیے انہیں دوبارہ پیش کرنے کی ضرورت نہیں۔
161۔ سعید انور سے ضمنی سوال جواب سیشن کے دوران پوچھے گئے سوالوں کے جوابات فیاض احمد، اے ایس آئی کے جوابات سے مشابہت رکھتے تھے، اس لیے انہیں دوبارہ پیش کرنے کی ضرورت نہیں۔
162۔ اس سے قبل ڈرائیور فیصل محمود، K-5815 نے بھی انکوائری آفیسر کے سامنے اپنا بیان ریکارڈ کرایا۔ اس نے بتایا کہ وہ پولنگ سٹیشن کے لیے آر او آفس جانے کے لیے دوبجے سہ پہر نکلے۔اس کے ساتھ پریذائیڈنگ آفیسر، ایک پولیس اہل کار اور ایک پولنگ اہل کار تھا ۔ دوپولیس اہل کاراپنی کار اور موٹر سائیکل پر تھے۔ وہ بذریعہ ڈسکہ پسرور روڈ شام چار بجے پولنگ سٹیشن پہنچے۔ اس نے پولنگ سٹیشن پر دو کرولا کاریں دیکھیں، ایک سفید رنگ کی تھی، اوردوسری سیاہ۔پولیس اہل کاروں کے ساتھ دو اور گاڑیاں آئیں۔ پریذائیڈنگ آفیسر پولنگ کے اختتام پر اپنی گاڑی میں نہیں بیٹھا بلکہ کرولا کار میں سے ایک میں بیٹھ کر چلا گیا۔ قانون نافذ کرنے والے عملے نے باقی انتخابی سامان اپنی گاڑی میں لوڈ کیا۔ اسے کہا گیا وہ ایک پولیس اہل کار، بلال بٹ کے ساتھ آر او آفس چلا جائے۔(جاری ہے)