ایک اور ضمنی الیکشن۔ ایک اور شکست!!
دل تو یہ کر رہا تھا کہ تحریک انصاف کے بانیوں میں شمار ہونے والے، عمران خان کے دست راست، سابق صدارتی امیدوار ریٹائرڈ جسٹس وجیہہ الدین نے اپنی جماعت کی قیادت کے ساتھ تازہ تنقید پر کچھ طبع آزمائی کی جائے مگر بیچ میں خانیوال کا ضمنی الیکشن آ گیا ہے۔ جس کا نتیجہ بھی پنجاب کے دیگر ضمنی انتخابات کی طرح کا ہی تھا۔ پہلے نمبر پر وہی جماعت آئی جو 2018ء میں پہلے نمبر پر تھی۔ دوسرے، تیسرے اور چوتھے نمبر پر بھی وہی جماعتیں آئیں جو 18ء کے عام انتخابات میں دوسرے، تیسرے اور چوتھے نمبر پر تھیں۔ البتہ فرق ووٹوں کا پڑا۔ ضمنی انتخابات میں عموماً ٹرن آؤٹ عام انتخابات سے کم ہوتا ہے۔ اس کی اہم اور بنیادی وجہ یہ ہے کہ اس کے نتیجے کا کوئی اثر حکومت کے بننے یا ٹوٹنے پر نہیں پڑتا۔ کوئی تبدیلی نہیں آنی ہوتی ہاں اگر کبھی ایک نشست پر حکومت کے وجود کا انحصار ہوا تو ووٹروں کی تعداد عام انتخابات کی طرح ہی خاصی زیادہ ہو جائے گی۔ لیکن ایسا ہوتا نہیں۔ سقوط ڈھاکہ کی تاریخ 16 دسمبر کو خانیوال میں معرکہ ہوا۔ جو کئی حوالوں سے دلچسپ بھی تھا۔ عام انتخابات میں اسی صوبائی نشست پی پی 206 پر مسلم لیگ (ن) کے امیدوار نشاط احمد ڈاہا کامیاب ہوئے تھے۔ وہ روایتی طور پر مسلم لیگی گھرانے سے تعلق رکھتے تھے جس کا معقول ووٹ بنک موجود سمجھا جاتا ہے۔ اسی لئے وہ کامیاب بھی ہو جاتا ہے۔ نشاط ڈاہا نے جب محسوس کیا کہ اپوزیشن میں رہتے ہوئے وہ علاقے میں ترقیاتی کام نہیں کر اسکتے اور نتیجتاً آئندہ انتخابات میں وہ کمزور، پوزیشن پر آ جائیں گے تو وہ ڈانواں ڈول ہو گئے اور وزیر اعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار سے قربت اختیار کر لی پنجاب اسمبلی کے پانچ دیگر ارکان بھی اس کیفیت سے دو چار ہوئے۔ یوں کہاں گیا کہ مسلم لیگ (ن) میں فارورڈ بلاک بن گیا ہے۔ سیاسی جماعتوں کے قانون پولیٹیکل پارٹیز آرڈیننس 2012ء کے تحت اگر کوئی رکن پارلیمینٹ پارٹی تبدیل کرے تو وہ نشست سے محروم ہو جائے گا۔ اس لئے اب ارکان اپنی قیادت سے ناراض یا مایوس ہوں تو وہ پارٹی تبدیل نہیں کرتے بلکہ ہمدردیاں تبدیل کر لیتے ہیں۔ یہی کچھ نشاط ڈاہا مرحوم نے کیا اور اپنے حلقے کے لئے کروڑوں کا ترقیاتی فنڈ لینے میں کامیاب ہوئے۔ قسمت دیکھئے کہ جس الیکشن (2023ء) کے لئے انہوں نے وفاداری بدلی وہ ان میں قسمت میں بھی نہ ہوا اور وہ مختصر علالت کے بعد 23 اکتوبر 2021ء کو اس دار فانی سے کوچ کرگئے۔ وہ چونکہ تحریک انصاف سے عملاً وابستہ ہوئے، تھے تو ان کی بیوہ بھی اسی صف میں شمار ہوئیں۔ نورین ڈاہا کو تحریک انصاف نے اس لئے بھی ٹکٹ جاری کر دیا کہ ہمارے ہاں مرنے والے کے اہلخانہ کو ہمدردی کا ووٹ بھی ملتا ہے۔ پارٹی کا ووٹ اور خاندان یا گروپ کا ووٹ مل کر کامیابی کا باعث بن جاتے ہیں۔ نورین ڈاہا گھریلو خاتون ہیں۔ پھران کے مسائل بھی تھے۔ دوسری طرف مسلم لیگ (ن) نے اپنے دیرینہ کارکنوں پر مہربانی کرنے کی بجائے تحریک انصاف کی صف سے ہی بنا بنایا امیدوار اچک لیا۔ رانا سلیم 2018ء میں تحریک انصاف کے امیدوار تھے۔ انہوں نے 47807 ووٹ حاصل کئے تھے اور محض ساڑھے تین ہزار ووٹ سے نشاط احمد ڈاہا سے ہارے تھے وہ تحریک انصاف کے ٹکٹ کے خواہاں تھے مگر انہوں نے نورین ڈاہا کو ٹکٹ دیا تو وہ مایوسی میں لیگی پیشکش کو غنیمت جانتے ہوئے ادھر سے ادھر ہو گئے۔ اس بار کامیابی کا ہما ان کے سر پر آ بیٹھا۔ دیکھا جائے تو بڑی پارٹیوں کے حوالے سے ادھر کا اُدھر ہی ہوا ہے۔
عام انتخابات میں لیگی گھرانہ اب انصافی چھتری تلے تھا اور انصافی پرندہ لیگی منڈیر پر تھا۔ عام انتخابات میں پیپلزپارٹی کے سید واثق سرجیس 6617 ووٹ لے کر تیسرے نمبر پر آئے تھے اور اس بار بھی تیسرے نمبر پر آئے تاہم ان کے ووٹ بڑھ کر 15059 (اڑھائی گنا) ہو گئے۔ تحریک لبیک کے امیدوار کو تب 5764 ووٹ ملے تھے جبکہ اس بار 9619 ووٹ ملے ہیں۔ ان دونوں پارٹیوں کے ووٹ بڑھے ہیں مگر کامیابی کے لئے مطلوبہ ووٹوں سے ابھی بہت دور ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کے ووٹوں میں ساڑھے تین ہزار اور تحریک انصاف کے ووٹوں میں تیرہ ہزار کی کمی ہوئی ہے۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو بیوہ کو امیدوار بنا کر ہمدردی کا ووٹ لینے کے باوجود سب سے زیادہ خسارہ تحریک انصاف کے حصے میں آیا ہے۔ اور سب سے زیادہ فائدہ پیپلزپارٹی کو ہوا ہے اور اس کی قیادت کو خوش ہونا چاہے تو ہو سکتی ہے کہ اس کا ووٹ بنک پنجاب میں بڑھ رہا ہے۔ لاہور کے ضمنی الیکشن میں تو لیگ مخالف سارا ووٹ پیپلزپارٹی کو ملنے کی وجہ سے کہا گیا کہ وہاں چونکہ تحریک انصاف کا امیدوار ہی نہیں اس لئے پیپلزپارٹی کو زیادہ ووٹ پڑنے کی وجہ سمجھ میں آتی ہے۔ تاہم خانیوال میں جب پڑنے والے مجموعی ووٹ (ٹرن آؤٹ) کم ہوئے ہوں، مسلم لیگ کو پڑنے والے ووٹ بھی کم ہوئے ہوں اور تحریک انصاف کے تو بہت ہی کم ہوئے ہوں تو پیپلزپارٹی کے ووٹوں کا اڑھائی گنا زیادہ ہو جانا پارٹی کے لئے خوش کن تو ہے۔ کسی زمانے میں پورا پنجاب عموماً اور جنوبی پنجاب خصوصاً پیپلزپارٹی کا گڑھ رہا ہے۔ گزشتہ تمام انتخابات میں بھی پیپلزپارٹی کے حالات شمالی اور وسطی پنجاب کی نسبت جنوبی پنجاب میں بہتر رہے تھے۔ اس کے باوجود ابھی یہ کہنا قبل از وقت ہو گا کہ پنجاب یا جنوبی پنجاب میں پیپلزپارٹی کا احیاء ہونے جا رہا ہے۔ ابھی مسلم لیگ (ن) کا ووٹر اپنی قیادت سے مایوس نہیں ہوا۔ لیکن سیاست میں کچھ بھی حرف آخر نہیں۔ کبھی بھی کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ آیئے فی الحال سوشل میڈیا پر چلنے والے تحریک انصاف کے ایک رہنما کا پیغام انجوائے کرتے ہیں۔ اعجاز جنجوعہ سابق صدر پی ٹی آئی جنوبی پنجاب اور بانی کارکنوں میں شمار ہوتے ہیں۔ انہوں نے پی ٹی آئی کے کارکنوں کو حوصلہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ اقتدار کا الیکشن تھا کوئی نظریاتی الیکشن نہیں تھا۔ زیادہ مارجن سے نہیں ہارے، یہ پہلے بھی ہماری سیٹ نہیں تھی۔ کارکردگی ہماری اچھی نہیں۔ مہنگائی ہمارے لئے اہم مسئلہ ہے۔ لوگ ہم سے مطمئن نہیں۔ گڈ گورننس ہمارے پاس نہیں ہے۔ کرپشن بڑھ چکی ہے۔ رشوت بڑھ چکی ہے اور کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔ ان چیزوں نے متاثر کیا ہے لیکن پی ٹی آئی کا کارکن اپنی جگہ کھڑا ہے۔ ان شاء اللہ مجھے امید ہے کہ جس طرح صحت کارڈ آ رہا ہے اس کے بعد 30 فیصد رعایت سے راشن ملے گا۔ انہوں نے تسلیم کیا کہ دیگر جماعتوں سے آنے والے ارکان، اسمبلی کے ساتھ جو لوگ جہیز میں آئے ان کو اکاموڈیٹ کیا گیا۔ کارکن اس وجہ سے ناراض بھی ہیں۔ اسی لئے الیکشن میں کارکنوں میں جوش و خروش نہیں تھا ہمیں اس پر سوچنا پڑے گا۔ اس وقت کمیشن مافیا چھا چکا ہے۔ وغیرہ وغیرہ۔