دہشت گردی اور ہماری سوچ
ہم پھر مذمت کر رہے ہیں۔ ہم پھر کسی کی زندگی کی دُعا کر رہے ہیں۔ ہم ایک مرتبہ پھر درندگی کو بزدلانہ کارروائی قرار دے کر بری الذمہ ہو رہے ہیں۔ہم پھر کسی کو بہترین علاج کی تمام سہولتیں دینے کی ہدایات جاری کرتے ہوئے قوم کے مسیحا بن رہے ہیں۔ ہم پھر دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کا تہیہ کرنے کا اعلان کر کے اپنے آپ سے جھوٹ بول رہے ہیں۔ ہم پھر انہیں انسان نہیں، بلکہ حیوان جیسے القابات دے کر ہمیشہ کی طرح سچائی کو چھپانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ کہیں سے آواز آ رہی ہے کہ ذمہ دا روں کو ہر صورت میں قانون کے کٹہرے میں لائیں گے۔ کوئی کہہ رہا ہے کہ ملوث لوگوں سے آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے گا۔ کوئی فخر سے بتا رہا ہے کہ اسے فون کر کے حملے کی ذمہ داری قبول کی گئی ہے۔ کوئی کہہ رہا ہے کہ مجھے بھی حملے کے بارے میںان لوگوں کا پیغام آیا ہے، لیکن کوئی بھی یہ کہنے اور پوچھنے کی جرا¿ت نہیں کرتا کہ جناب یہ سب کون لوگ ہیں اور وہ یہ سب کیوں کر رہے ہیں؟ یہ کون لوگ ہیں، جن کے ہاتھوں میں ہم نے اسلام کی مہاریں پکڑا رکھی ہیں۔ یہ کون لوگ ہیں، جنہیں ہم نے خود تیار کیا کہ یہ ایک ایسے ملک سے لڑیں گے ، جو اسلام کا سب سے بڑا دشمن ہے۔
....لیکن تاریخ کا سبق دیکھیں کہ آج ہم اِسی ملک سے دوستی کرنے کے لئے ترلے لے رہے ہیں۔ اسی ملک کے صدر کو اپنے ملک میں ایک رات کا مہمان بنانے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں۔ یہ کون لوگ ہیں،جو اتنے طاقتور ہو گئے ہیں کہ وہ جب، جہاں، جس کو چاہیں نشانہ بنا کر گولی سے چھلنی کر سکتے ہیں۔یہ کون لوگ ہیں، جنہوں نے ہمارے35ہزار لوگوں کو موت کی وادی میں دھکیل دیا ہے۔ یہ کون لوگ ہیں، جن کی بدولت امریکی ڈرﺅن حملے تحفے میں ملے ہیں اور ہم اپنی خود مختاری کا رونا رو رہے ہیں ۔ یہ کون لوگ ہیں، جنہوں نے صرف ایک مخصوص علاقے میں ہمارے 1500 سکولوں کو دھماکے سے اُڑا دیا ہے ۔ یہ کون لوگ ہیں،جنہوں نے ہمارے ملک میں دہشت پھیلا رکھی ہے۔ یہ کون لوگ ہیں،جنہوں نے ہمارے بڑے شہروں میں خود کش دھماکے کر کے ہمیں گھروں کے اندر محصور کر کے ہماری معیشت کا بیڑا غرق کر دیا ہے۔ یہ کون لوگ ہیں، جنہوں نے ہمارے فوجیوں اور فوجی تنصیبات کو نشانہ بنا کر ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔ یہ کون لوگ ہیں، جو ہماری رینجرز، ایف سی، پولیس پر حملے کر کے کمزور کر رہے ہیں۔ یہ کون لوگ ہیں، جو ہماری لاکھوں کی تعداد میں فوج کا مقابلہ کر رہے ہیں اور کئی ایک مقامات پر فوج کو بھی خاطر میں نہیں لاتے۔ یہ کون لوگ ہیں، جن کے خلاف ہماری فوج پچھلے دس سال سے لڑ رہی ہے، لیکن اُن کی طاقت میں اضافہ ہوا، نہ کہ کوئی کمی آئی ۔ یہ کون لوگ ہیں، جنہوں نے ایک 14سالہ سکول جانے والی لڑکی پر حملہ کر کے سوات کی خوبصورت وادی کے ماتھے کو داغدار کر دیا.... اس نہتی لڑکی کا قصور صرف اتنا تھا کہ وہ سکول پڑھنے جا رہی تھی۔
.... مگر یہ سچ کوئی نہیں بول رہا کہ یہ لوگ ہمارے ساتھ رہتے ہیں، ہمارے اندر رہتے ہیں، ہم ان سے روز ملتے ہیں۔ ہم ان سے روز بات کرتے ہیں اور وہ آزادی سے ہمارے درمیان گھوم رہے ہیں۔ مَیں بھی ان کو جانتا ہوں، ہم سب ان لوگوں کو جانتے ہیں۔کبھی وہ سکولوں کو دھماکوں سے اُڑاتے نظر آتے ہیں، کبھی وہ پولیو کے قطروں کی مہم کو روکتے نظر آتے ہیں۔ کبھی وہ معصوم بچوں کو خود کش جیکٹ پہناتے نظر آتے ہیں، کبھی وہ یوم عشق رسول پر دکانوں، سینماﺅں کو جلاتے نظر آتے ہیں، کبھی وہ رمشہ مسیح کیس میں گواہ بنتے نظر آتے ہیں، کبھی وہ ملالہ یوسف زئی پر حملہ کرتے نظر آتے ہیں اور سچ یہ ہے کہ ہم انہیں صرف بزدل کہہ سکتے ہیں اور اُن کی مذمت کر سکتے ہیں اور کچھ نہیں کر سکتے، کیونکہ اگر ہم نے اُن کے خلاف کوئی بھی عملی قدم اُٹھایا تو ہماری اپنی روزی، روٹی، مستقبل، حتیٰ کہ ہماری جان بھی خطرے میں پڑ سکتی ہے۔
دہشت گردی کے خلاف کارروائی کرنے کے بارے میں پہلے پوری دُنیا میں شکوک و شبہات تھے، اب ایک بار پھر ہمارے قومی لیڈر بٹے ہوئے نظر آتے ہیں ۔ کچھ لیڈر شمالی وزیرستان میں آپریشن کو ملکی سلامتی کے لئے ناگزیر قرار دے رہے ہیں، جبکہ کچھ لیڈر کہہ رہے ہیں کہ اگر پھر کہیں فوجی آپریشن کیا گیا تو ملک میں پھر دہشت گردی شروع ہو جائے گی اور پھر خود کش حملے شروع ہو جائیں گے۔ اسی تناظر میں ہم ایک بار پھر گروپوں میں بٹ گئے ہیں۔ دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کرنے یا نہ کرنے کے بارے میں پہلے ہی دُنیا ہمیں شک کی نظر سے دیکھتی ہے، لیکن یہ بات ہمارے دشمنوں پر عیاں ہے کہ ہم کبھی بھی کسی قومی مسئلے پر متفق نہیں ہو سکتے، اِس لئے وہ اِس صورت حال سے فائدہ اٹھائیں گے، جب تک ہم ایک بات پر متفق نہیں ہوں گے، اُس وقت تک ہمارے دشمن مضبوط ہو کر ہمیں یونہی پوری دُنیا میں اکیلا اور ذلیل کرتے رہیں گے۔ ٭