انسانی ترقی اور عزتِ نفس
آج کل اکیسویں صدی کے حوالے سے انسانی ترقی ، اس کے مراحل اور وسائل و مسائل کے بارے میں زور دار بحث چل رہی ہے ۔ یہ ساری بحث ترقی یافتہ ملکوں کے بااثر اداروںنے جن میں ورلڈ بینک اور آئی ۔ایم ۔ایف سرفہرست ہیں، شروع کر رکھی ہے ۔ یہ علم کے نام پر جدید خیالات کی مارکیٹنگ کرتے ہیں کہ کیسے ترقی یافتہ قوموں میں شامل ہوا جاتا ہے ۔ آسان نسخے میڈیا کی آزادی ،جدید خوراک ،جدید لباس اور زیادہ پیسے خرچ کرنے کی صلاحیت بیان کئے جاتے ہیں ....ترقی یافتہ ممالک کے زیر اثر غریب ممالک کے دانشور بھی زور وشور سے ترقی یافتہ عوام پر بحث جاری رکھے ہوئے ہیں ۔اور اس معراج کو پانے کے آسان سے آسان نسخے پیش کئے جا رہے ہیں ۔ انسانیت کی ترقی کے بظاہر عوامل میں اچھی تعلیم ، اچھی خوراک ،اچھی تفریح ، آزادی،رہائش اور اچھے معیار زندگی کے حصول کے بارے میں فکر مندی کا اظہار کیا جا رہا ہے .... انسانی معراج کے ان عوامل سے کسی کو انکار نہیں ہو سکتا،لیکن میری اپنے دانشور حضرات ،مختلف سطح کے کرتا دھرتا افراد اور ترقی کا پرچار کرنے والے لوگوں سے گزارش ہے کہ آپ لوگ انسانی ذلت کے بنیادی عوامل پر بھی غور کریں کہ آیا ہم ان پر قابو پا سکے ہیں کہ نہیں اور اگرقابو پا سکے ہیں تو کس حد تک اور یہ کہ کیا ان کی موجودگی میں انسانی ترقی کی معراج کے بارے میں گفتگو ہمیں زیب دیتی ہے کہ نہیں ۔
آئیے انسانی ذلت کے عوامل پر تھوڑی سی گفتگو آگاہی کے زمرے میں ہو جائے۔ سب سے پہلے انا و عزت انسانی معراج کی اکائی سمجھی جاتی ہے اور اس کی غٰیر موجودگی انسانیت کی توہین ہے۔ عام مشاہدے میں آیا ہے کہ بعض اوقات انسان تنگی و غربت میں گزارا کر لیتا ہے ،لیکن اپنی انا اور عزت پر حرف نہیں آنے دیتا۔ اس کو اس طرح بھی بیان کیا جا سکتا ہے کہ پیٹ بھر روٹی مل جانے کے بعد دوسری بڑی انسانی ضرورت اس کی عزتِ نفس بن کرسامنے آتی ہے ....جبکہہمارے ہاں سارا معاشی ، معاشرتی ، انتظامی و سیاسی نظام انا اور عزت ِنفس مجروح کرنے کا باعث بنا ہوا ہے ۔ آپ بازار میںسودا سلف لینے جائیں تودوکاندار اپنے طبقاتی روےے سے حسب توفیق آپ کی عزت نفس پر حملہ آور ہو گا ۔سڑک پر اچھی سواری والا آپ کو حقارت سے دیکھے گا۔آپ کوئی بل جمع کروانے جائیں، کلر ک آپ کو اپنے در پر سوالی کے زمرے میں محسوس کرے گا۔بینک سے پیسے لینے جائیں ہر نگاہ آپ کو کپڑے اتارتی نظر آئے گی اور اگر کہیں سیاسی لیڈر کے پاس یا تھانے کچہری جانے کا اتفاق ہو پائے تو انا کو پہلے ہی لپیٹ کر رکھنے میں عافیت محسوس ہوتی ہے ۔
مغرب کے برعکس ہم استقبالی نظر و مسکراہٹ سے نا بلد ہیں لیکن ایک دوسرے سے اس کی توقع ہر وقت کرتے ہیں ۔ انسانی ضرورت کے اس بنیادی عنصر کی غیر موجودگی نے ہماری زندگی میں زہر گھول دیا ہے، چنانچہ ہر انسان حالت اضطراب میں اپنی عزت بچانے اور بڑھانے کے چکر میں دوسرے کی انا اور عزت کا دشمن بناہوا ہے ۔ایک طرف اگر انسانیت کی عظمت کا نشان موجودہ صدی میں معاشی خوشحالی ہے تو دوسری طرف انسانی ذلت کا دوسرا نشان غربت و طبقاتی تفریق بن چکا ہے ۔ غربت کو آپ ” ٹو ان ون “ بھی کہہ سکتے ہیں یعنی غربت و مفلسی کے ساتھ ذلت بونس کے طور پر ملتی ہے ۔ آج جو انسان اپنی بنیادی ضروریات پانے سے قاصر ہے ،وہ غریب ہے اور اس کے لئے اسے ہر ہر فرد کے آگے کبھی ہاتھ ، کبھی نگاہیں ، کبھی التجائیں اور کبھی کبھار عزتیں بچھانا پڑتی ہیں ۔یہ الگ بات ہے کہ اب زیادہ تر لوگ غریب ہیں، کیونکہ بنیادی ضروریات سب نے اپنی سوچ کے مطابق بنالی ہیں ۔ ایک بنیادی ضرورت میرے تھر کے ہاری کی ہے ۔ گندہ پانی ،پیٹ کے لئے ایندھن اور جانوروں کے لئے بھی یہی دونوں چیزیں ۔ یہاں انسانوں اور حیوانوں میں بڑا ایکا اور بھائی چارہ ہے ، دونوں نے اپنی بنیادی ضروریات ایک جیسی رکھی ہیں، اور اس کے لئے وہ ساری زندگی دربدر ارہتے ہیں ۔پر کبھی خدا کی طرف اور کبھی انسانوں کی طرف دیکھتے چلے جاتے ہیں اور امید کے نشان کے طور پر اپنے مردہ جانوروں کے ڈھانچے پیچھے پھینکتے چلے جاتے ہیں ۔
اس کے برعکس امراءکابا اثر طبقہ ہے ،جس کی بنیادی ضروریات ہر فرد کے لئے کار اور ہر شہر میں مکان اور ہر بینک اور ملک و غیر ممالک میں سرمایہ شامل ہے ۔ اس کے لئے وہ اپنی عزت ضرورت کے نام پر دین و ایمان تک داو¿ پر لگا دیتے ہیں ، لیکن ایک چیز مصمم ہے کہ اس غربت کے عالم میں انسان کی اناو عزت محض ایک خیال ہی رہ جاتی ہے۔ لمحہ ¿ فکریہی یہ ہے کہ ہم میں سے کون با اثر شخص اس غربت اور بنیادی ضروریات کی تشریح کرے گا تا کہ ملک کے سب انسان غربت دور کرنے کے لئے ہر روز عزت و انا کی سولی پر نہ چڑھیں اور اپنی غربت دور کرنے کے چکر میں دوسروں کو غربت و افلاس کے گڑھے میں نہ دھکیلیں ۔
جہاں زیادہ سے زیادہ اور بہترسے بہتر روزگار انسانی ترقی کا نشان ہے، وہاں بے روزگاری اور غربت انسانی ذلت کی اکائی ہے،جیسے غربت کو ” ٹو ان ون “ قرار دیا جا سکتا ہے وہاں بے روزگاری کو ” تھری ان ون “ کی بجائے ” آل ان ون “بھی کہا جا سکتا ہے ۔ یہ انسانی بے بسی کا وہ خوفناک پہلو ہے، جب انسان کو اپنے وجود سے نفرت ہو جاتی ہے ، اسے اپنی اہمیت اورہونے پر شک ہونے لگتا ہے ۔ یہ پہلو اس ترقی کے دور میں انسانی عقل کی ترویج کے مراحل طے ہونے کے بعد اور بھی گھمبیر ہوتا جا رہا ہے ۔ اس بات کا شاہد آج ہمارا ہر ہنر مند ، صحت مند اور تعلیم یا فتہ انسان ہے کہ وہ کچھ کرنا چاہتا ہے ،لیکن کر نہیں سکتا۔ جب کچھ کر نہیں سکتا ،تو اس کو ہر پل ڈستا ہے ،چنانچہ بے روزگاری انسانی ذلت کی اہم اکائی ہے جہاں ضرورت اور عزت نفس کا قتل ایک معمول بن جاتاہے ۔ اس بار بار کے قتل سے بچنے کے لئے انسان خود کشی پر مجبور ہو رہے ہیں ۔
یہ لمحہ فکریہ ہے ہر فرد کے لئے ،رہنماو¿ں کے لئے، عالموں کے لئے ،معلموں کے لئے، دانشوروں کے لئے،منصوبہ سازوں کے لئے،منصوبہ کاروں کے لئے،منتظم حضرات کے لئے،اور والدین کے لئے کہ وہ اس بات پر غور کریں کہ ہمارے قومی اہداف کیا ہیں اور کیا ہونے چاہئیں ۔ انسانی ترقی کی معراج یعنی اعلیٰ تعلیم ،اچھی خوراک،عمدہ معیار زندگی ، بنیادی ضروریات ، آزادی، جدید لباس و تفریح یا کہ انسانی ذلت میں کمی، لوگوں کی عزت و ناموس کی حفاظت، بنیادی ضروریات کی تعریف و فراہمی اور روزگار کے مواقع۔ اپنے قومی و سائل دیکھ کرجدید انتظامی ماہراس بات کو یوں کہتے ہیں کہ ” اچھا منتظم وہ ہے جو نہ صرف یہ جانے کہ وہ کیا کر سکتا ہے، بلکہ اس بات سے بھی آگاہ ہو کہ وہ کیا نہیں کر سکتا“....
جبکہ ہم قومی سطح پر ہر کام کرنے کی جستجو میں لگے رہتے ہیںیاجس کے لئے ترقی یافتہ قوموں نے صدیوں محنت،ریاضت او رتگ ودو کی ۔ اگر چہ صدیوں کا فاصلہ صدیوں میں طے کرنا ضروری نہیں، لیکن صدیوں کا فاصلہ و سائل و منصوبہ بندی کے بغیر سالوں میں طے کرنا معاشی و معاشرتی خود کشی کا راستہ بھی بن سکتا ہے ۔ ہمیں غربت کی اپنی تعریف کرنا ہو گی اور اس کے لئے پیدواری عوامل اور وسائل کے علاوہ مذہبی ،معاشرتی ، سیاسی ، سماجی ڈھانچے کی صورت پھلتی پھولتی نظر آئے گی بلکہ موجودہ بے راہ روی ، لاقانونیت ، اغواء،قتل ،عورتوں کی بے حرمتی ، چوری ، ڈاکہ و فاقے اسی منتشر معاشی و معاشرتی ڈھانچے کی پیداوار ہے ۔
مذہبی رہنماو¿ں سے گلہ بالکل بے جا نہیں ہے، کیونکہ وہ عبادات سے فرقہ پرستی کی پرستش سے آخرت کی دنیا کے پر مٹ بانٹتے میں لگے ہیں ۔ انہیں جدید معاشرتی سچائیوں ،معاشی ضروریات اور سائنسی تعلیمات سے کوئی سروکار نہیں ۔جو ان کی نہیں مانیں گے ،وہ جہنم کا ایندھن بنیں گے، جس کی اب پیشین گوئی کرنے کی بھی ضرورت نہیں البتہ ہمارے ایک ملحددوست کی سوچ اب بدلتی دکھائی دیتی ہے کہ دو دہائی پہلے اسے یقین تھا کہ کوئی پاکستانی جنت میں نہیںجائے گا، کیونکہ سب حسب توفیق بجلی چور، ٹیکس چور، جھوٹے ، ملاوٹ کرنے والے، دھوکہ کرنے والے ، وعدہ خلاف رشوت خور، منہ زور، حرام خور ، قبضہ گروپ ، قانون توڑ ، نافرمان و بداخلاق ہیں ، لیکن موجودہ مذہبی فرقہ پرستی ، تشدد پسندی اور نجی جہاد کی روش کے باعث لاکھوں پاکستانی جنت میں جانے کے حق دار ٹھہرے ہیں، جو مسجدوں ، مزاروں ، مدرسوں ،امام بار گاہوں اور درسگاہوں میں مخالف فرقے کے ہاتھوں بے گناہ مارے گئے ،یہ سب شہید ہیں ،کیونکہ بے گناہ ہیں ،چنانچہ اس نئی مذہبی روش کی وجہ سے پاکستانیوں کے لئے جنت کے دروازے کھل گئے ہیں،اس سے غربت کا مسئلہ بھی حل ہو گیا ہے اور عزت نفس کی معراج بھی حاصل ہو گئی۔ ٭