فلمی ،ا دبی شخصیات کے سکینڈلز ۔ ۔ ۔ آٹھویں قسط
پال ملز کا کمرہ کاغذات اور مختلف قسم کے سامان سے بھرا ہو ا تھا۔ان کی بڑی سی میز پر کاغذات بکھرے ہوئے تھے اور دو تین ٹیلی فون ہمیشہ بج رہے تھے۔ وہ لکھنے پڑھنے کے ساتھ ساتھ بیک وقت فون پر باتیں بھی کرتے جارہے تھے۔وہ چھ فٹ سے زیادہ قد کے ایک صحت مند آدمی تھے۔صورت شکل اور لب و لہجے کے اعتبار سے خالص امریکی لگتے تھے۔اس سے پہلے ہم نے کسی سچ مچ کے امریکی کو اتنے قریب سے نہیں دیکھا تھا۔جب انہیں دیکھا تو وہ بھی کسی امریکن فلم کا کردار ہی نظر آئے۔یہ تجربہ ہمیں بعد میں ہوا کہ امریکی عام زندگی میں بھی اسی طرح بولتے جاتے ہیں جیسے کہ فلموں میں نظر آتے ہیں۔ ان کی فلموں میں تصنع اور بناوٹ نہیں ہوتی۔
ساتویں قسط پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
انہوں نے فون رکھا تو اکبر صاحب نے ہمار اتعارف کرایا اور کچھ مبالغے سے بھی کام لیا۔پال ملز نے بڑے گرم جوشی سے کھڑے ہو کر ہم سے ہاتھ ملایا۔اپنی عدیم الفرصتی پر ندامت کا اظہار کیا اور پھر شانے اچکاتے ہوئے بولے۔
’’ہمارے پاس وقت بہت کم ہے۔بادل اور بارش کی وجہ سے بھی ایک دو دن ضائع ہو چکے ہیں لاہور کے لوگ یہ سمجھ رہے ہیں جیسے ہم یہاں محض سیروتفریح کرنے اور دعوتیں اٹینڈ کرنے لئے آئے ہوئے ہیں۔ ان کی میزبانی کا میں شکر گزار ہوں مگر ہماری مجبوریاں کوئی سمجھنے کی کوشش نہیں کرتا۔‘‘
اتنی دیر میں ایک فیشن ایبل اور خوب صورت خاتون کمرے میں داخل ہوئیں۔انہوں نے کہا ’’آپ کی سیکرٹری نے مجھے ملاقات کا وقت دیا تھا۔‘‘
’’آپ کہتی ہیں تو ضرور دیا ہوگا۔میں آپ کے لئے کیا کر سکتا ہوں ؟‘‘
انہوں نے بات شروع کی ’’مجھے مس ایواگارڈنر سے ملنے کا بہت شوق ہے۔‘‘
پال ملز نے فوراً بات کاٹ دی ’’سوری میڈم۔یہ ممکن نہیں ہے اور کوئی خدمت۔‘‘
وہ کچھ پریشان سی ہو گئیں ’’جی۔وہ دراصل۔‘‘
’’میڈم‘آپ ہماری مشکل سمجھنے کی کوشش کریں۔ہم پہلے ہی شیڈول سے پیچھے جا رہے ہیں۔‘‘
وہ کچھ اور بھی کہنا چاہتی تھیں مگر پھر خاموشی سے رخصت ہو گئیں۔
’’دیکھا آپ نے ‘‘پال ملز نے کہا ’’میرا زیادہ وقت اس قسم کی باتوں میں ضائع ہو جاتا ہے۔‘‘
فون کی گھنٹی بجی۔پال ملز نے ایک لمحہ سنا ایک آہ سرد بھر کر مجبوری کے عالم میں چھت کی طرف دیکھا اور پھر کہا ’’او کے۔ بھیج دو۔‘‘
چند لمحے بعد ایک اسمارٹ‘خوش لباس اور خوش شکل صاحب اندر داخل ہوئے۔
’’ میں گورنمنٹ ہاؤس سے آیا ہوں۔آپ سے گورنر صاحب کے سیکرٹری نے بات کی ہو گی ؟‘‘
’’ مگر میں نے معذرت کر دی ہے۔ افسوس کہ میں گورنر صاحب کی فرمائش پوری نہیں کر سکتا۔‘‘
انہوں نے کہا ’’اگر مس گارڈنر اور مسٹر گرینجر ساری تقریب میں شریک نہیں ہو سکتے تو صرف ایک گھنٹے کے لیے آ جائیں۔گورنر ہاؤس میں بہت اعلیٰ پیمانے کی تقریب ہے۔شہر کی ’’بالائی ‘‘وہاں موجود ہوگی۔‘‘
پال ملز نے طنزیہ انداز میں مسکرا کر کہا۔’’نوجوان۔آپ جانتے ہیں کہ ہماری شوٹنگ مسلسل ہو رہی ہے۔وہ دونوں قلعے میں شوٹنگ کر رہے ہیں۔وہاں سے آنا ان کا کیسے ممکن ہے ؟‘‘
’’ لیکن۔‘‘
’’ سوری آپ گورنر تک میری معذرت پہنچا دیجئے۔تھینک یو اور گڈ بائی۔ ‘‘پال ملز نے انہیں فارغ کر دیا۔
ہمیں یہ سب کچھ بہت عجیب سا لگا۔جو صاحب ابھی ہمارے سامنے ایک اداکارہ سے وقت حاصل کرنے کی بھیک مانگ رہے تھے۔وہ ایک بڑے بیو رو کریٹ تھے جو پاکستانی اداکاروں سے سیدھے منہ بات کرنا بھی اپنی توہین خیال کرتے تھے۔ادھر گورنر صاحب کی فن شناسی پر ہمیں حیرت بھی ہوئی اور افسوس بھی ہوا۔اگر کوئی بڑے سے بڑا پاکستانی آرٹسٹ گورنر صاحب سے ملاقات کی درخواست کرتا تو شاید مہینوں اس کے لئے سفارشیں ہی ڈھونڈتا رہتا۔مگر ہالی ووڈ کے دو فن کاروں کو اپنی اعلیٰ ترین پارٹی میں چند لمحے کے لیے شریک کرنے کے لیے بھی منت سماجت کی جا رہی تھی اور اس کے باوجود تمام سرکاری رعب داب رائگاں جا رہا تھا۔
پال ملز نے کندھے اچکائے۔ایک نئی سگریٹ سلگائی اور کہا ’’آخر یہ لوگ سمجھتے کیوں نہیں ہیں کہ ہم یہاں کام کرنے آئے ہیں جو ہمیں مقررہ وقت میں ختم کرناہے۔‘‘
آغا حسام الدین اکبر نے صفائی پیش کی۔’’دراصل آرٹسٹوں کا کریز تو سبھی کو ہوتا ہے۔ امریکہ میں بھی صدر انہیں وہائٹ ہاؤس میں بلا کر خوش ہوتے ہیں۔‘‘
’’مگر وہ انہیں فارغ وقت میں بلاتے ہیں۔ ان کے کام میں حرج نہیں پیدا کرتے۔‘‘

پال ملز نے اپنا کام دوبارہ شروع کر دیا۔کاغذات کا مطالعہ‘لکھنا‘ پڑھنا‘ فائلیں دیکھنا‘ اس دوران میں بے شمار ٹیلی فون بھی سنتے رہنا۔ہم اس شخص کو سرتاپا مصروف دیکھ کر حیران ہو رہے تھے۔ ہماری کافی ختم ہو چکی تھی۔یہ پال ملز نے بھی دیکھ لیا تھا۔ہم نے رخصت کی اجازت چاہی تو وہ فوراً اٹھ کر کھڑا ہو گیا۔مصافحے کے لئے ہاتھ بڑھایا اور کہا۔ ’’ آپ کو جس قسم کی بھی مدد کی ضرورت ہو تو مسٹر اکبر کو بتا دیں۔ یہ آپ کامسئلہ حل کر دیں گے۔آپ پر یہاں آنے پر بھی کوئی پابندی نہیں ہے۔اگر اکبر چاہیں تو آپ کو شوٹنگ پر بھی لا سکتے ہیں۔‘‘
ہم نے شکریہ ادا کیا اور جانے کے لیے مڑے مگر وہیں ساکت رہ گئے۔اسی وقت کمرے کا دروازہ کھلا اور خوشبو کا ایک جھونکا اندر داخل ہوا۔خوشبو کے پیچھے پیچھے ایک انتہائی خوبصورت عورت بھی اندر آئی۔اس کے حسن وجمال اور دلکشی کے پیش نظر اسے آسمانی مخلوق ہی کہا جا سکتا تھا۔مگر آسمانی مخلوق نے جب زبان کھولی تو انگریزی بولنی شروع کر دی۔
’’ہائی پال ‘‘ اس نے مسکراتے ہوئے کہا۔اسے آپ ملین ڈالر مسکرہٹ بھی کہہ سکتے ہیں کیونکہ وہ اپنی مسکراہٹ کا بہت معقول معاوضہ وصول کرنے کی عادی تھی۔
’’ہائی ایوا۔‘‘ پال ملز نے کاغذات سے سر اٹھا کر اسے دیکھا۔ ’’ تم اور اس وقت یہاں ؟‘‘
’’ آج کا میرا شیڈول ختم ہو گیاہے۔وہ لوگ ابھی مصروف ہیں۔تمھارے خیال میں مجھے اب کیا کرنا چاہیے ؟‘‘
پال ملز مسکرایا۔’’ ہنی اگر میں تمھاری جگہ ہوتا تو باتھ روم میں جا کر ایک گرم باتھ لیتا۔پھر اپنے کمرے میں ڈرنکس کرتا اور ریلیکس کرتا۔اسکرپٹ کا مطالعہ کرتا۔ اس لیے کہ کل صبح تمہیں اس مصیبت کا سامنا کرنا ہو گا۔‘‘
’’ او کے پال۔‘‘ ایو اگارڈنر نے اپنے خوبصورت شانوں کو حرکت دی اور جیسے کمرا حرکت میں آ گیا۔ ’’ تم بہت خود غرض ہو۔مگر یو آر دی باس۔بائی۔‘‘
یہ کہہ کر وہ کمرے سے رخصت ہو گئی۔ اس کے جاتے ہی کمرے میں روشنی مدھم پڑ گئی مگر خوشبو بہت دیر تک پھیلی رہی۔ہمیں یقین نہیں آرہا تھا کہ چند لمحے پیشتر جو دراز قد اور انتہائی پرکشش عورت ہمارے سامنے کھڑی ہوئی تھی وہ ہالی ووڈ کی اسٹار ایواگارڈنر تھی جس کی ایک جھلک دیکھنے کو کروڑوں انسان ترستے ہیں۔ ایک فرلانگ کے فاصلے پر گورنر ہاؤس میں بیٹھے ہوئے خود ہمارے گورنر صاحب اسے چند لمحوں کے لیے اپنا مہمان بنانے کے خواہاں ہیں۔ ان گنت دلوں کی ملکہ ایو اگارڈنر یوں اچانک ہمارے سامنے آ کر کھڑی ہو جائے گی یہ ہم نے سوچا بھی نہیں تھا۔

ایو اگارڈنر کو ہم نے فلموں میں دیکھا تھا مگر سچ مچ ایو اگارڈنرفلموں والی ایو اگارڈنر سے کہیں حسین اور دلربا تھی۔وہ رعنائی کا مجسمہ تھی۔اس کا رنگ شہد اور دودھ کے آمیزے جیسا تھا۔بال بھورے تھے۔آنکھیں سبزی مائل تھیں یا براؤن ؟ کچھ یاد نہیں آرہا۔اس کی مسکراہٹ میں ایسی کشش تھی کہ جی چاہتا تھا بس وہ مسکراتی رہے‘ کوئی اور کام نہ کرے۔ وہ اسکرٹ اور بلاؤز میں ملبوس تھی۔اسکرٹ میں سے اس کی سڈول اور خوبصورت ٹانگیں نمایاں نظر آرہی تھیں۔ہم نے سوچا کہ واقعی اس عورت کو ہیروئن ہی ہونا چاہیے تھا۔ اور اگر اس کے درجنوں اسکینڈلز سننے میں آتے ہیں تو اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں ہے۔
آغا حسام الدین اکبر اور ہم پال ملز کے کمرے سے باہر نکل آئے۔
’’ کیوں آغا صاحب۔‘‘ اکبر صاحب ہمیں کبھی کبھی آغا بھی کہتے تھے ’’ کیسی لگی ؟‘‘
ہم نے کہا ’’ بہت اچھی۔‘‘
’’ہماری فلموں میں چلے گی‘‘
’’ بالکل نہیں۔‘‘
وہ حیران رہ گئے ’’ وہ کیوں ؟‘‘
’’ بھائی نہ اسے ناچ آتاہے نہ گانا۔درختوں اور کھمبوں کے پیچھے چھپ کر عشق کرنا بھی نہیں آتا۔سب سے بڑھ کر یہ کہ جاہل ہے۔ یعنی اردو سے نابلد ہے۔‘‘
آغا حسام الدین اکبر ہنسنے لگے۔’’مجھے آپ کے فیصلے سے اتفاق ہے۔ یقین رکھیے ہم اسے پاکستان کی کسی فلم میں کاسٹ نہیں کریں گے۔‘‘
ہوٹل کے دوسرے حصے میں خاصی گہماگہمی نظر آ رہی تھی۔وہاں اسٹاف کے پاکستانی ارکان اپنے اپنے کاموں میں مصروف تھے۔
اکبر صاحب نے کہا ’’کل ریلوے اسٹیشن پر شوٹنگ ہے۔چلو گے ؟‘‘
’’ کیوں نہیں‘ ضرور۔‘‘
’’ گیارہ بجے تیار رہنا۔ آفس سے لے لوں گا۔‘‘

انہوں نے ہمیں دوبارہ ہمارے آفس کے سامنے ڈراپ کر دیا۔ یہ تو نہیں کہ ہم ایواگارڈنر ہی کے دھیان میں کھوئے رہے مگر دوبارہ اس کا سراپا آنکھوں کے سامنے لہرا سا گیا۔اور اس کی آواز کانوں میں گونجنے لگی۔ اس کی آواز میں شرینی اور نزاکت نہیں تھی۔لیکن ایک عجیب سی لگاوٹ تھی جو۔۔۔مردانہ احساسات متاثر کرتی تھی۔
جاری ہے, اگلی قسط پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
(علی سفیان آفاقی ایک لیجنڈ صحافی اور کہانی نویس کی حیثیت میں منفرد شہرہ اور مقام رکھتے تھے ۔انہوں نے فلم پروڈیوسر کی حیثیت سے بھی ساٹھ سے زائد مقبول ترین فلمیں بنائیں اور کئی نئے چہروں کو ہیرو اور ہیروئن بنا کر انہیں صف اوّل میں لاکھڑا کیا۔ پاکستان کی فلمی صنعت میں ان کا احترام محض انکی قابلیت کا مرہون منت نہ تھا بلکہ وہ شرافت اور کردار کا نمونہ تھے۔انہیں اپنے عہد کے نامور ادباء اور صحافیوں کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا اور بہت سے قلمکار انکی تربیت سے اعلا مقام تک پہنچے ۔علی سفیان آفاقی غیر معمولی طور انتھک اور خوش مزاج انسان تھے ۔انکا حافظہ بلا کا تھا۔انہوں نے متعدد ممالک کے سفرنامے لکھ کر رپوتاژ کی انوکھی طرح ڈالی ۔آفاقی صاحب نے اپنی زندگی میں سرگزشت ڈائجسٹ میں کم و بیش پندرہ سال تک فلمی الف لیلہ کے عنوان سے عہد ساز شخصیات کی زندگی کے بھیدوں کو آشکار کیا تھا ۔اس اعتبار سے یہ دنیا کی طویل ترین ہڈ بیتی اور جگ بیتی ہے ۔اس داستان کی خوبی یہ ہے کہ اس میں کہانی سے کہانیاں جنم لیتیں اور ہمارے سامنے اُس دور کی تصویرکشی کرتی ہیں۔ روزنامہ پاکستان آن لائن انکے قلمی اثاثے کو یہاں محفوظ کرنے کی سعادت حاصل کررہا ہے)
