کرپشن کی روک تھام میں سنجیدگی کیوں نہیں؟
کرپشن بلاشبہ ایک غیر قانونی عمل ہے۔ اس کا ارتکاب ملک بھر میں ہوتا ہے۔ سرکاری محکموں سے رجوع کرنے والے لوگوں کو اپنے قانونی اور جائز کاموں کے لئے متعلقہ اہل کاروں کی جانب سے اکثر اوقات رشوت خوری کے لئے پریشان اور مجبور کیا جاتاہے، حالانکہ ان لوگوں کی حتی المقدور پوری خواہش اور کوشش یہی ہوتی ہے کہ متعلقہ دفتر کے اہل کار اور افسر بلا غیر ضروری تاخیر ایسے امور کو مقررہ وقت میں مکمل کرکے سائلان کو فارغ کر دیں، لیکن بدقسمتی سے کئی اہل کار، سرکاری ملازمت کا ایک بڑا مقصد یہی خیال کرتے ہیں کہ جو شخص بھی دفتر میں آئے، وہ کوئی مالی رقم بطور رشوت انہیں ضرور ادا کرکے جائے۔
بصورت دیگر ایسے سائلان کے معاملات کو ہفتوں اور بعض اوقات مہینوں کے لئے لٹکایا اور ٹرخایا جاتا ہے۔ یہ روش اب تو ایک روایت بنا دی گئی ہے، حالانکہ کسی غیر قانونی کارروائی کا کسی دفتر اور ادارے میں کوئی جواز نہیں ہوتا۔
جب کوئی شخص کسی شکایت کی جرات کرے تو اس ادارے کے ملازمین ،عموماً اکٹھے ہو کر اس شخص کے خلاف لڑائی جھگڑے کی صورت حال پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں، یوں وہ ملازمین، بددیانتی اور برائی کے ارتکاب کے لئے وقتی طور پر اتحاد کا مظاہرہ کرنے کو ترجیح دیتے ہیں اور شکایت کنندہ شخص اگر کچھ طاقت اور جرات کا مظاہرہ نہ کر سکے تو رشوت خور ملازمین زیادہ تر اپنے ہم پیشہ ملازم شخص کی حمایت کرکے، اسے بچانے کی ممکنہ سعی کرتے ہیں۔
ایسے واقعات کا اکثر اوقات نتیجہ یہی ہوتا ہے کہ رشوت خور افراد باہمی گٹھ جوڑ سے اپنے ہم پیشہ، رشوت خور ملازم کو پریشان کن کارروائی سے بچا لیتے ہیں۔
مذکورہ بالا چند سطور، رشوت خوری کی مروجہ روایت کے بارے میں رقم کی گئی ہیں، جبکہ بعض سرکاری افسران اور سیاست کار، لاکھوں کروڑوں یا اربوں کی مالی رقوم اور قومی وسائل کی خوردبرد بھی بڑی دیدہ دلیری سے کرنے میں بھی کوئی ہچکچاہٹ اور تذبذب محسوس نہیں کرتے۔
وہ اس غلط کاری کا اکثر یہ سدباب کرتے ہیں کہ اس شیطانی کارکردگی کی انکوائری کرنے والے اداروں کے متعلقہ افسروں کو بھی کچھ رشوت دے کر اپنی جان، چھڑائی جائے، حتیٰ کہ یہ طریقہ ء واردات اب تو بدعنوان لوگوں کی ایک مستقل روایت بن گیا ہے۔
بعض لوگ دفاتر اور عدالتوں کی سزاؤں سے بچنے کے لئے متعلقہ گواہان پر بھی اثر انداز ہو کر انہیں شہادت میں پیش ہو کر باز رکھنے یا اصل حقائق سے روگردانی کرکے ملزمان کو محفوظ ہونے کا راستہ فراہم کردیتے ہیں۔
اس کام کے لئے ملزمان ایسے گواہان پر کسی طور اثر انداز ہو کر یا انہیں کچھ مالی رقم دے کر اپنی مرضی کے بیانات عدالتوں میں دلوانے کی کوشش کرتے ہیں، جبکہ اکثر عادی ملزمان اپنے تحفظ کے لئے اپنے چند سال کے تجربات سے کافی حد تک قانونی معلومات حاصل کر لیتے ہیں۔
ہمارے ملک میں کوئی علاقہ اور صوبہ ایسا نہیں،جہاں بیشتر سرکاری اداروں میں بدعنوانیوں کی شرح گزشتہ سالوں میں قابل ذکر حد تک کم ہوئی ہو۔
یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ کرپشن کی روک تھام کے لئے متعلقہ علاقوں کے حریف ایسی کارروائیوں کی معاونت کی بجائے مخالفت کرنے اور رکاوٹیں ڈالنے پر زیادہ زور دیتے ہیں۔