نئے اور پرانے پاکستان کی کہانی

نئے اور پرانے پاکستان کی کہانی
نئے اور پرانے پاکستان کی کہانی

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

ہمارا سماجی ڈھانچہ 70 سال پہلے جیسا تھا، اب بھی تھوڑے بہت فرق کے ساتھ ویسا ہی ہے۔ ہماری سیاست 70سال پہلے جیسی تھی،اب بھی ویسی ہے، بلکہ اب وہ مزید پسماندگی کا شکار یوں ہو گئی ہے کہ سیاست میں خاندانی نظام زیادہ مستحکم ہو رہا ہے، بلکہ چند خاندان حکمرانی کو اپنا حق سمجھنے لگے ہیں۔ ہم سائنس اور ٹیکنالوجی کے شعبے میں پہلے جہاں کھڑے تھے۔

آج بھی ایک قدم کے فاصلے پر کھڑے ہیں۔ ہمارا تعلیمی نصاب پہلے جس طرح کا تھا اس میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔ ہمارا سماجی سیٹ اپ جس طرح کا تھا اس میں کوئی قابل ذکر تبدیلی نہیں آئی۔

عوام پہلے جس احساس کمتری کا شکار تھے، وہ آج بھی تقریباً اسی احساسِ کمتری کا شکار ہیں۔ ہماری اشرافیہ پہلے جتنی طاقتور تھی، آج اس سے زیادہ طاقتور ہے۔ ہماری دیہی زندگی پہلے جس طرح آقا اور غلام میں بٹی ہوئی تھی۔

آج بھی وہ اسی طرح بٹی ہوئی ہے۔ ہمارا انتظامی ڈھانچہ پہلے جن خطوط پر استوار تھا۔ آج بھی ہے۔

ہمارے طبقے پہلے غربت کو اپنا مقدر سمجھتے تھے۔آج بھی وہ غربت کو اپنا مقدر اور خدا کی مرضی ہی سمجھتے ہیں۔ ہمارے علماء پہلے جو درس دیتے تھے، آج بھی وہی درس دے رہے ہیں۔

فرق صرف یہ ہے کہ ہر گلی محلے میں اپنے الگ الگ مدرسے کھول لئے گئے ہیں۔سوال یہ ہے کہ ساری دنیا ترقی کی شاہراہوں پر آگے بڑھ رہی ہے اور ہم تنزلی کی اسی منزل پر کھڑے ہیں، جہاں ستر سال پہلے کھڑے تھے۔ آبادی میں اضافہ کوئی ترقی نہیں ہے ،ایسا کیوں ہے۔

اس سوال کا جواب یہ ہے کہ ہمارے اقتداری ڈھانچے میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ اقتداری ڈھانچہ ستر سال پہلے جس اشرافیہ پر مشتمل تھا۔ آج بھی اسی اشرافیہ پر مشتمل ہے۔ اس سٹیٹس کو میں تبدیلی کے بغیر ہم ترقی کی سمت ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھ سکتے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس عوام دشمن سٹیٹس کو ،کو کس طرح توڑا جائے۔ عموماً مڈل کلاس پر مشتمل سیاسی جماعتیں اس صورت حال میں تبدیلی لا سکتی ہیں، لیکن جمہوریت کے نام پر مڈل کلاس کی سیاسی جماعتوں کو اس خوبصورتی سے بے وقوف بنایا گیا ہے کہ وہ جب بھی حکومتی ڈھانچے میں تبدیلی کے امکانات دیکھتے ہیں، جمہوریت کی بقاء کے نام پر اسی کلاس پر مشتمل جماعتوں کو آگے لاتے ہیں۔

2014ء میں عمران خان اور طاہر القادری نے ایک طاقتور تحریک کا آغاز کیا تھا جو اقتدارکے ڈھانچے میں بڑا سوراخ ڈال سکتا تھا، لیکن اقتدار مافیا نے شور مچایا کہ جمہوریت خطرے میں ہے۔

تحریک کے روح رواں عمران خان اور طاہر القادری تھے۔ معذرت کے ساتھ ان میں وہ میچوریٹی نہیں تھی جو ایسے بڑے اور اہم کاموں اور تحریکوں میں درکار ہوتی ہے۔

اس کمزوری کا فائدہ حکمرانوں نے اٹھایا اور سٹیٹس کو، کو برقرار رکھنے میں کامیاب ہو گئے۔ سیاست میں تبدیلی کے لئے مڈل کلاس کے روشن خیال سیاستدان اہم کردار ادا کرسکتے ہیں، لیکن اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ نظریاتی طور پر پختہ کار ہوں اور برسرِ اقتدار طبقات کی طاقت اور سازشوں کو سمجھتے ہوں۔

پرانا پاکستان نظریاتی طور پر پسماندہ اور سیاسی طور پر اشرافیہ کی حکمرانی کا نمائندہ ہے۔ پرانے پاکستان میں عوام کی حیثیت بھیڑ بکریوں سے زیادہ نہیں۔

اشرافیہ اقتدار اور سیاست پر قابض ہے، بلکہ اسے اپنے باپ دادا کی جاگیر سمجھتی ہے۔ پرانے پاکستان میں رائج سیاست میں قانون ساز اداروں میں وہی پہنچ سکتا ہے جو ارب پتی ہو اور الیکشن مہم پر کروڑوں روپے خرچ کر سکتا ہو۔


پرانے پاکستان میں غریب عوام انتخابات میں اشرافیہ کے نمائندوں کے حق میں ووٹ تو ڈال سکتے ہیں، لیکن انتخابات میں بطور امیدوار شریک نہیں ہو سکتے۔

پرانے پاکستان میں بیشتر دیہی علاقے وڈیروں اور جاگیرداروں کی ملکیت بنے ہوئے ہیں سیاست اور اقتدار پر حاوی ہیں۔ پرانے پاکستان کے اس تناظر میں نئے پاکستان کی جو تصویر ابھرتی ہے وہ کچھ اس طرح کی ہے۔

سب سے پہلے نئے پاکستان کی ابتداء زرعی اصلاحات سے ہونی چاہیے، کیونکہ سندھ اور جنوبی پنجاب میں ابھی تک جاگیردار اور وڈیرے مضبوط ہیں اور اب بھی بہت سے خاندان لاکھوں ایکڑ اراضی کے مالک ہیں۔ سیاست اور اقتدار پر اب بھی ان کی بالادستی قائم ہے۔

اس حقیقت کے پیش نظر نئے پاکستان کی پہلی ضرورت زرعی اصلاحات ہیں۔ ہمارا انتخابی نظام صرف اشرافیہ کو قانون ساز اداروں میں بھیجنے کا ذریعہ بنا ہوا ہے۔

انتخابی نظام میں ایسی اصلاحات کی ضرورت ہے جو ایک عام ، لیکن اہل اور باصلاحیت آدمی کو انتخابات میں حصہ لینے کی آزادی فراہم کر سکے۔ نئے پاکستان میں نئے نصاب تعلیم کی ضرورت ہوگی، جس میں سائنس ٹیکنالوجی تحقیق اور دریافت کو اولیت حاصل ہو۔

نئے پاکستان میں تعلیم مفت اور لازمی ہوگی۔ نئے پاکستان میں ہر شعبہ زندگی کو جدید ترقی یافتہ دنیا سے ہم آہنگ کیا جائے گا۔ نئے پاکستان میں ترقی کا مطلب عوام کے معیار زندگی میں قابل ذکر اضافہ ہوگا۔

نئے پاکستان میں مزدوروں اور کسانوں کو ان کی آبادی کے تناسب سے قانون ساز اداروں میں نمائندگی حاصل ہوگی۔ نئے پاکستان میں بیورو کریسی غریب طبقات سے تعلق رکھنے والے اعلیٰ تعلیم یافتہ اور اہل افراد پر مشتمل ہوگی۔

یہ وہ ابتدائی اقدامات ہیں،جن پر نئے پاکستان کی عمارت کھڑی ہوگی۔ اگر مڈل کلاس کا کوئی سیاستدان نئے پاکستان کی وضاحت مندرجہ بالا نکات پر کرتا ہے تو عوام 2018ء کے الیکشن میں اس کی حمایت کرکے سٹیٹس کو توڑ سکتے تھے۔

اگر عمران خان نئے پاکستان کی اس شکل سے متفق ہوں تو عوام کو اس کی حمایت کرنی چاہیے۔ بے شک عمران خان تنہااقتدار مافیا اور پارلیمنٹ کے قبضہ گروپ سے عوام کو نجات نہیں دلواسکتے تو انہیں دوسری سیاسی قوتوں جو نئے پاکستان اور عوام کی فلاح و بہبود پر متفق ہوں، ان کے ساتھ اتحاد کر کے الیکشن لڑنا چاہیے۔

مزید :

رائے -کالم -