جمہوریت کا آشیانہ اور نئے خطرات

جمہوریت کا آشیانہ اور نئے خطرات
جمہوریت کا آشیانہ اور نئے خطرات

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

جس قسم کی صورت حال ہر نئے دن کے ساتھ جنم لے رہی ہے، ویسی تو شاید پورے ستر برسوں میں کبھی پیدا نہیں ہوئی۔ حیران کن بات ہے کہ وہ لڑائی جو کبھی آمریت اور جمہوریت کے درمیان لڑی جاتی تھی، اب عدلیہ اور پارلیمنٹ کے درمیان لڑائی کے امکان میں ڈھل رہی ہے۔ ایسا تو کبھی دیکھا نہ سنا، یہ دونوں تو جمہوریت کی بقاء کے ادارے ہیں، انہیں کسی بھی طرح آمنے سامنے نہیں آنا چاہئے۔

آج کے حالات دیکھ کر تو لگتا ہے فوج درمیان سے نکل گئی ہے، نہ نواز شریف کے بیانیہ میں فوج رہی ہے اور نہ پارلیمنٹ کے اندر اس کا ذکر ہورہا ہے، سب کچھ عدلیہ پر ڈالا جارہا ہے۔

وہی عدلیہ جس کی بحالی کے لئے چند برس پہلے ہماری سیاسی قوتیں ایک ڈکٹیٹر کے خلاف صف آرا ہوگئی تھیں۔ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی جذباتی ہوگئے یا پھر انہوں نے سوچ سمجھ کر یہ تجویز پیش کی ہے کہ ججوں کے رویے اور ریمارکس کو پارلیمنٹ میں زیر بحث لایا جائے۔

کیا عدلیہ ایک کمزور ہدف ہے کہ اسے اس طرح پارلیمنٹ کے کٹہرے میں کھڑا کرنے کی بات کی جارہی ہے؟ فوج کے کسی جرنیل کے بارے میں تو ایسا کوئی فیصلہ کبھی نہیں کیا گیا، صرف نواز شریف کی وجہ سے ایک ایسی صورتِ حال کیوں پیدا کی جارہی ہے جس کا انجام انتہائی نقصان دہ ہوسکتا ہے۔ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے یہ تو کہا ہے کہ اداروں کے درمیان تصادم سے ملک کا نقصان ہوتا ہے، مگر اس تصادم کی بنیاد بھی وہ خود رکھ رہے ہیں۔


آئین میں سپریم کورٹ کو یہ اختیار دیا گیا ہے کہ وہ کسی بھی خلاف آئین فیصلے یا قانون کا جائزہ لے سکتی ہے، اسے کالعدم قرار دے سکتی ہے۔ آئین ہی میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو یہ اختیار بھی دیا گیا ہے کہ وہ کسی بھی معاملے کا از خود نوٹس لے سکتے ہیں۔

بنیادی حقوق جو آئین میں درج کئے گئے ہیں، ان کی حفاظت اور عوام کے لئے انہیں یقینی بنانے کی ذمہ داری بھی عدلیہ کو سونپی گئی ہے۔

1973ء کا آئین بنانے والوں کی بصیرت کو ہم آج 45 برس بعد کیسے چیلنج کرسکتے ہیں، الٹی گنگا کیسے بہا سکتے ہیں؟آئین میں پارلیمنٹ کو کہیں یہ اختیار نہیں دیا گیا کہ وہ عدالتوں کے فیصلے منسوخ یا تبدیل کردے۔ وہ قانون سازی تو کرسکتی ہے، مگر قانون پر عملدرآمد کرانا یا اس کی حقیقی روح کا تعین کرنا عدلیہ کا کام ہے۔

پارلیمنٹ کو قانون کے نفاذ کا اختیار نہ دے کر گویا آئین نے یہ واضح کردیا ہے کہ عدلیہ کے بغیر کسی قانون کی کوئی اہمیت نہیں۔ دس لوگ اگر ایک ہی قانون اٹھائے پھریں اور ان سب سے ہر کوئی قانون کی اپنی تعبیر کرے تو قانون ہونے کے باوجود معاشرے میں انارکی پھیل جائے گی، مگر جب یہی قانون عدلیہ کی طرف سے نافذ ہوگا تو انتشار کا کوئی جواز نظر نہیں آئے گا۔

یہ کوئی نئی صورتِ حال نہیں کہ عدالتیں اپنا کام کررہی ہیں تو حکومتِ وقت کو شکایت ہورہی ہے۔ پچھلے دورِ حکومت میں پیپلز پارٹی یہ شکوہ کرتی رہی کہ عدالتیں اسے چلنے نہیں دے رہیں۔

افتخار محمد چودھری کا جوڈیشل ایکٹوازم اس کے راستے کی دیوار بنا رہا، مگر سب نے دیکھا کہ بہت سے ایسے کام کئے گئے تھے، جو خلاف قانون اور خلافِ ضابطہ تھے۔پیپلز پارٹی نے وہ ردعمل ظاہر نہیں کیا جو مسلم لیگ (ن) ظاہر کررہی ہے، شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ اس میں براہ راست نواز شریف نا اہل ہوئے ہیں اور اب یہ طے کرلیا گیا ہے کہ ان کی نا اہلی ختم نہ ہوئی تو پھر سب کو نا اہل کرکے چھوڑیں گے۔


بات کہاں سے کہاں جارہی ہے، اس کا اندازہ اس امر سے کیجئے کہ ایک زمانہ تھا، جب عدالتوں کے فیصلے من و عن تسلیم کئے جاتے تھے اور چوں چرا نہیں کی جاتی تھی، پھر فیصلوں پر تنقید کا دور آیا، لیکن اس میں عدالتوں کی تکریم کا خیال رکھا گیا، پھر ججوں پر تنقید شروع ہوئی، تاہم اسے فیصلوں تک محدود رکھا گیا، اب یہ حال ہے کہ ججوں کو ترکی بہ ترکی جواب دیا جارہا ہے۔

مریم نواز بھرے جلسے میں کہہ دیتی ہیں کہ چیف جسٹس جس زبان میں بات کریں گے، انہیں اسی زبان میں جواب بھی سننا پڑے گا۔ خیر معاملہ لگتا ہے یہیں تک نہیں رہا، اب ملک کے وزیراعظم کی طرف سے کہا گیا ہے کہ پارلیمنٹ میں ججوں کے فیصلے اور کنڈکٹ کو زیر بحث لایا جائے گا۔

بڑھتے بڑھتے یہ سلسلہ کہاں تک پہنچ گیا ہے اور کہاں جاکے رکے گا، جذباتی فضا میں بہت سی باتوں کو پس پشت ڈال دیا گیا ہے، پارلیمنٹ اور عدلیہ کبھی بھی ایک دوسرے کے مقابل کھڑی نہیں ہوسکتیں، ہاں دونوں کو ایک دوسرے کے ساتھ ضرور کھڑا ہونا چاہیے، البتہ عدلیہ کا پلڑا تھوڑا سا اس لئے بھی بھاری ہے کہ اسے آئین نے فیصلے کا اختیار دیا ہے، حتیٰ کہ پارلیمنٹ کے فیصلوں پر بھی وہ فیصلہ دے سکتی ہے، جبکہ پارلیمنٹ کے پاس عدلیہ کے کسی فیصلے کو کالعدم کرنے کا اختیار نہیں ہے، مثلاً پارلیمنٹ کسی صورت نواز شریف کی نا اہلی ختم نہیں کرسکتی۔

بحث یہاں سے شروع ہوئی کہ کیا عدلیہ کو منتخب نمائندوں کے خلاف چور، ڈاکو اور لٹیرے کا خطاب دینا چاہیے؟ حالانکہ چیف جسٹس ثاقب نثار اس بات کی وضاحت کرچکے ہیں کہ یہ ریمارکس نہیں تھے، بلکہ ایک سوال تھا، جس میں پوچھا گیا تھا کہ کیا کوئی چور، ڈاکو اور لٹیرا جیل میں بیٹھ کر پارٹی کی سربراہی کرسکتا ہے؟۔۔۔ یہ ایک عمومی سوال تھا اور پیشِ نظر کوئی خاص شخصیت نہیں تھی، لیکن پہلے اسے نواز شریف اور مریم نواز نے ہدف تنقید بنایا، اب وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے قومی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے اسے پارلیمنٹ کی توہین قرار دیا ہے۔

صاف نظر آرہا ہے کہ مسلم لیگ (ن) ہر چھوٹی بڑی بات سے سیاسی فائدہ اٹھانا چاہتی ہے۔ اسے عدلیہ پر دباؤ ڈالنے کی کوشش بھی قرار دیا جاسکتا ہے، تاہم یہ بہت خطرناک راستہ ہے اور اس کے خطرناک نتائج بھی برآمد ہوسکتے ہیں۔


اس عجیب بیانیہ کی کیسے تائید کی جاسکتی ہے کہ عدالتیں انتظامیہ کے کسی کام میں مداخلت نہ کریں، کیا ہماری گورننس بہت آئیڈیل ہے، جسے کھل کر کام کرنے کا موقع ملنا چاہیے؟ اس گورننس میں تو قدم قدم پر کوتاہیاں اور مجرمانہ غفلتیں ہیں۔ وزیر داخلہ کی یہ افسانہ طرازی کہ وہ ایک چپڑاسی کو بھی بدعنوانی پر نہیں ہٹا سکتے، حقائق سے منہ چرانے والی بات ہے۔

کرپشن پر ملازم کو ہٹایا نہیں جاتا، اسے انٹی کرپشن محکمے کے حوالے کیا جاتا ہے۔ ملک ہو یا محکمہ اسے ذاتی جاگیر کے طور پر نہیں چلایا جاسکتا، کیا اسلامی عہد رفتہ میں قاضی، وقت کے حاکموں کو طلب نہیں کرتا تھا، کیا عمالِ حکومت قاضی وقت کو جوابدہ نہیں ہوتے تھے؟

مادر پدر آزاد تو صرف جنگل ہوسکتا ہے، کوئی مہذب معاشرہ نہیں ہوسکتا، اس لئے یہ کہنا کہ جمہوریت صرف اسی صورت میں چل سکتی ہے، جب پارلیمنٹ کو ہر قسم کی پابندیوں سے آزاد کردیا جائے۔

بذاتِ خود ایک آمرانہ سوچ کی عکاسی کرتا ہے۔ یہ بات بھی اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے کہ کوئی عوام کے ووٹوں سے منتخب ہوجائے تو ہر قسم کے قانون سے بالاتر ہوجاتا ہے۔

خلفائے راشدین سے لے کر اسلام کے درخشان عہد تک کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو حکمران عام آدمی سے زیادہ قانون کے سامنے جوابدہ نظر آتے تھے۔ قاضی القضاۃ اس دور میں بھی سب سے طاقتور ادارہ ہوا کرتا تھا، جس کے سامنے بادشاہِ وقت بھی سر جھکا کر کھڑا ہوتا۔

سوچنے والی بات یہ ہے کہ ایسا کون ہے جو یہ چاہے گا کہ نواز شریف کو انصاف نہ ملے۔ جہاں جہاں ثبوت سامنے آتے ہیں، وہاں قانون کے مطابق فیصلے ہورہے ہیں۔

حدیبیہ کیس میں یہی سپریم کورٹ شریف خاندان کے حق میں فیصلہ دیتی ہے، کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کی ضمانت منسوخی کے لئے نیب کی درخواست بھی اسلام آباد ہائی کورٹ کی طرف سے ہی رد ہوتی ہے۔

واقعات کو غیر جانبداری سے دیکھا جائے گا تو حالات میں بہتری آسکے گی، لیکن اگر یہ طے کرلیا جائے جو ہماری بات نہیں مان رہا، اسے زمین سے لگانا ہے تو یہ ریاست کے گلے پر چھری پھیرنے کے مترادف ہوگا۔عدلیہ اور پارلیمنٹ کو ایک دوسرے کے متحارب لانے کے خواہشمند اس حقیقت کو فراموش نہ کریں کہ ماضی میں جب آمروں نے جمہوریت پر شب خون مارا تو پارلیمنٹ اور عدلیہ دونوں کو مفلوج کیا۔

پارلیمنٹ توڑ دی اور عدلیہ کو معطل کرکے پی سی او کے تحت حلف اٹھانے پر مجبور کیا۔ اب صورتِ حال بالکل مختلف ہے۔ پارلیمنٹ بھی مستحکم ہے اور عدلیہ نے بھی جمہوریت کو بچانے کے لئے کمر کس لی ہے۔

اب کسی نظریہ ضرورت کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہی۔ اب ان حالات میں پارلیمنٹ اور عدلیہ کو ایک دوسرے کے شانہ بشانہ کھڑا ہونا چاہئے، چہ جائیکہ پارلیمنٹ ججوں کی کردار کشی کا اکھاڑرہ بن جائے اور اس محاذ آرائی سے فائدہ اٹھا کر پھر کسی غیر آئینی تبدیلی کی راہ ہموار ہو۔

یہ جذبات میں ڈوبے اور عقل و خرد سے عاری فیصلے کرنے کا وقت نہیں، بلکہ پھونک پھونک کر قدم اٹھانے کا وقت ہے کہ جمہوریت کا جو آشیانہ ہم نے تنکا تنکا جوڑ کر بنایا ہے، وہ شاخِ نازک پر بنے آشیانے کی طرح باد سموم کی نذر نہ ہوجائے۔

مزید :

رائے -کالم -