سعودی عرب میں پاکستانی ٹروپس بھیجنے کا مسئلہ!

سعودی عرب میں پاکستانی ٹروپس بھیجنے کا مسئلہ!
سعودی عرب میں پاکستانی ٹروپس بھیجنے کا مسئلہ!

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

چند روز پہلے یہ خبر آپ کی نگاہوں سے بھی گزری ہوگی کہ پاکستان سعودی عرب میں اپنی فوج بھیج رہا ہے۔ اس ’’فوج‘‘ سے مراد تقریباً ایک ہزار ٹروپس ہیں جن کا تعلق ملک کی تینوں مسلح افواج سے ہے، جن میں اکثریت انفنٹری سولجرز کی ہوگی۔

یہ کوئی نئی بات نہیں۔ 1982ء سے پاکستان، سعودی عرب میں ایک فوجی معاہدے کی رو سے اپنی فوج بھیج رہا ہے جس کا مشن تربیتی ہوتا ہے۔

سعودیوں کو یہ ٹریننگ پاکستان میں بھی دی جا سکتی ہے، لیکن ایک تو پاکستان کے پاس وہ جدید ترین بھاری ہتھیار نہیں جو سعودیوں کے پاس ہیں اور دوسرے پاکستانی فوجیوں کا وہاں جا کر تربیت دینا نہ صرف سعودی فوجیوں کے لئے فائدہ مند ہے، بلکہ پاکستانیوں کے لئے بھی نفع بخش ہے۔

مثلاً گولہ بارود کا خرچہ اور ہتھیاروں کی ویئر اینڈ ٹیئر (Wear and Tear) ٹرانسپورٹ کی بچت اور ان ہتھیاروں کا استعمال جو افواجِ پاکستان کے پاس نہیں اور اگر ہیں بھی تو ان کا ورشن جدید ترین نہیں۔ امریکیوں نے رقم بٹورنے اور تیل کا حساب کتاب برابر کرنے کے لئے اربوں ڈالر کا جدید دفاعی سازوسامان سعودیوں کو دے رکھا ہے۔یہ ساز و سامان سعودیوں کے لئے ویسا کارآمد نہیں جیسا پاکستانیوں سے تربیت حاصل کرنے کے بعد ہو جاتا ہے۔


عرصہ ء دراز سے سعودی اور پاکستانی فورسز کے مابین یہ انتظامات موجود ہیں جو اب ایک روایت بن چکے ہیں۔ ان میں رخنہ اس وقت دیکھنے میں آیا جب سعودیوں نے پاکستان سے یہ مطالبہ کیا کہ پاک فوج کے افسروں اور جوانوں کو یمن بھیجنے کی اجازت ہونی چاہیے۔

یہ ایک نیا مطالبہ تھا۔ پاکستان اب تک سعودی سرزمین پر کسی بیرونی قوت کے حملے کی صورت میں اس کے دفاع میں شریک ہونے کا ذمہ دار رہا ہے۔

سعودی عرب سے باہر جا کر پاکستانی فوجیوں کا لڑنا گویا کرائے کے سپاہیوں کا سا جاب ہو گا جو پاکستان کو منظور نہ تھا، چنانچہ اپریل 2015ء میں پاکستانی پارلیمنٹ نے فیصلہ کیا کہ کوئی پاکستانی بوٹ یمن میں نہیں بھیجا جائے گا۔

اس پر دونوں ملکوں میں شکر رنجی بھی پیدا ہوئی جس کا کافی دنوں تک چرچا رہا۔ پھر آہستہ آہستہ برف پگھلنا شروع ہوئی اور سعودیوں کو باور کرنا پڑا کہ پاکستان کا موقف درست تھا۔

سعودی عرب آج بھی یمن کے ان حوثیوں سے نبردآزما ہے جن کو ایران کی مدد حاصل ہے۔ سعودی کولیشن کی فضائیہ یمن پر بمباری کرتی رہی ہے اور اب بھی یہ سلسلہ رکا نہیں، لیکن دوسری طرف حوثی بھی براہ راست ریاض پر میزائل حملے کرتے رہے ہیں جن کو امریکہ کی طرف سے فراہم کردہ طیارہ شکن نظام کی مدد سے بے اثر بنایا جاتا رہا ہے، لیکن جوں جوں ایران، میزائل سازی کی صنعت میں ترقی کرتا جا رہا ہے، سعودیوں کو خدشہ ہے کہ ان کی سرزمین ایرانی امداد یافتہ حوثی ٹروپس کی زد میں آنے والی ہے۔

یہی وہ بڑی وجہ ہے جو سعودیوں کو ایک بار پھر پاکستانیوں کے قریب جانے کا سبب بنی ہے۔ سعودی عرب کی ائر ڈیفنس فورسز جدید ترین سازوسامان سے مسلح ہیں اور ان کو ٹریننگ دینے کے لئے پاک فوج کا انتخاب موزوں ترین سمجھا گیا ہے۔

سعودیوں اور ایرانیوں کی رقابت اب تقریباً کھلی دشمنی میں تبدیل ہو چکی ہے۔ امریکہ اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات کے باب میں بھی بہت سا پانی اس موضوع کے پُل کے نیچے سے گزر چکا ہے۔

امریکی صدر ٹرمپ کا دورۂ ریاض ایک سنگ میل تھا جو سعودی، امریکی تعلقات کی تجدید میں بڑا معاون ثابت ہوا۔ ہم فی الحال اس موضوع پر بحث نہیں کریں گے کہ روس، ایرانیوں کی مدد کیوں کر رہا ہے اور امریکہ، سعودیوں کی پشت پر کیوں کھڑا ہے۔

یہ ان ممالک کی اپنی پالیسی ہے،اپنی مصلحتیں ہیں اور اپنے مفادات ہیں۔ ہم نے تو پاکستان کا مفاد دیکھنا ہے۔ چنانچہ پاکستان کا یہ فیصلہ کہ ریاض میں پاکستانی ٹروپس بھیجے جا رہے ہیں اسی مقصد کو پیش نظر رکھ کر کیا گیا ہے۔

ہمارے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے سعودی عرب کے دورے، جنرل (ر) راحیل شریف کی پسِ پردہ کاوشیں اور وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی منظوری اس بات کا ثبوت ہے کہ (کم از کم) اس معاملے میں سول، ملٹری تعلقات ایک ہی صفحے پر ہیں!


آج بھی جیسا کہ آپ نے میڈیا پر پڑھا اور سنا ہوگا، سعودی عرب میں پاکستان کے 1379 ٹروپس موجود ہیں جن کا مشن محض تربیتی اور مشاورتی ہے۔

ان میں اکثریت آرمی کی ہے لیکن فضائیہ اور بحریہ کے اہلکار بھی ان میں شامل ہیں۔ اگرچہ ریاض میں بھیجے جانے والے ٹروپس کی اصل تعداد نہیں بتائی گئی لیکن اتنا کہا گیا ہے کہ یہ ایک ہزار سے زیادہ ہے۔


اس خبر کا میڈیا پر آنا تھا کہ افواہوں کا بازار گرم ہو گیا۔ جمہوریت کے چیمپئن میدان میں آ گئے اور طرح طرح کی چہ میگوئیاں شروع ہو گئیں۔ کہا جا رہا ہے کہ پاکستانی بوٹ یمن میں بھیجے جائیں گے تو ایران کے ساتھ ہماری کشیدگی اور بڑھ جائے گی۔۔۔ ایران پاکستان تعلقات کلبھوشن کی گرفتاری سے لے کر اب تک برابر ’’آگے‘‘ بڑھتے جا رہے ہیں۔

اس موضوع پر ایک الگ کالم کی ضرورت ہوگی، لیکن پاکستان اور خلیج فارس کے ممالک کے درمیان عسکری تعلقات کی نوعیت کوئی نئی بات نہیں۔

آج بھی قطر میں 627پاکستانی سولجر موجود ہیں جن میں 165آرمی سے تعلق رکھتے ہیں اور 462ایئر فورس اور نیوی سے۔بلکہ تازہ ترین خبروں کے مطابق 300مزید ٹروپس بھی قطر جانے کے لئے تیار ہیں۔ بحرین میں پاکستان کے 653سولجر (ایک بٹالین) 2013ء تک موجود رہے۔


اسی طرح پاکستان اور ایران کے مابین بھی، باوجود اس کے کہ بعض موضوعات پر اختلافات ہیں، ایرانی ٹروپس کی موجودگی پائی جاتی ہے۔ آج بھی ایرانی فضائیہ کے 10پائلٹ پاکستانی ائر اکیڈیمی میں زیر تربیت ہیں۔

کہا جا رہا ہے کہ اپریل 2018ء میں پانچ مزید ایرانی پائلٹ ٹریننگ کے لئے پاکستان بھیجے جائیں گے۔ پاکستان کوشش کررہا ہے کہ اپنے اس ہمسائے کے ساتھ، سعودی عرب کے تناظر میں ایک متوازن پالیسی اپنائے۔ آپ کو یاد ہوگا گزشتہ برس نومبر میں آرمی چیف نے تہران کا دورہ کیا تھا اور وہاں اعلیٰ ترین سویلین اور فوجی لیڈروں سے بات چیت کی تھی جن میں صدر حسن روحانی بھی شامل تھے۔


دیکھا جائے تو پاکستان کی مسلح افواج ایرانی اور سعودی افواج کے ساتھ برابری کے تعلقات قائم کرنے میں کوشاں رہی ہیں، لیکن ایرانیوں اور سعودیوں میں ماضی قریب میں جس شدت کی کشیدگی پائی گئی اس کے پیش نظر پاکستان کو ان دونوں اسلامی ممالک کے ساتھ یکساں تعلقات برقرار رکھنے میں دشواریوں کا سامنا رہا ہے اور ہے۔

یہ عسکری اشتراکِ عمل نہ صرف دو طرفہ ہے بلکہ اس خطے میں جن جن ممالک کے مفادات ہیں ان کے ساتھ مل کر بھی پاکستان کی مسلح افواج مشقوں میں حصہ لیتی رہی ہیں۔ ابھی حال ہی میں سعودی عرب اور پاکستان کی بحریاؤں (Navies) نے کئی ہفتوں تک بحری مشقوں میں حصہ لیا ہے۔

کراچی کے ساحل کے آس پاس ہونے والی ان بحری مشقوں کو ’’افاہ الساحل‘‘ کا نام دیا گیا تھا اور یہ کوئی نئی مشق نہیں، بلکہ گزشتہ سات آٹھ برسوں سے مسلسل ہر سال عمل میں لائی جاتی ہے۔ اس کا مقصد بحری قزاقی اور دہشت گردی کی روک تھام ہے۔

اسی طرح اگلے ماہ (مارچ2018ء میں) دنیا کے 21ممالک، ایک فوجی مشق میں حصہ لے رہے ہیں، جن میں پاکستان اور برطانیہ بھی شامل ہوں گے اور یہ ایکسر سائز سعودی عرب میں ہوگی جس کا کوڈ نام ’’گلف شیلڈ‘‘ ہوگا۔ پاکستان اور سعودی عسکری تعاون کا ثبوت یہ بھی ہے کہ آج پاکستان کی تینوں عسکری درسگاہوں (آرمی، ائر فورس اور نیوی) میں 200سے زائد سعودی فوجی تربیت حاصل کررہے ہیں۔

جیسا کہ سطورِ بالا میں کہا گیا سعودی عرب میں ٹروپس بھیجنے کی یہ منظوری وزیر اعظم نے دی ہے پھر بھی ایوانِ بالا کے چیئرمین جناب رضا ربانی نے وزیر دفاع جناب خرم دستگیر کو طلب کرلیا ہے کہ وہ سینیٹ میں پیش ہو کر بتائیں کہ ان کی منظوری حاصل کئے بغیر پاکستانی فوجیوں کو سعودی عرب میں کیوں بھیجا جارہا ہے؟۔۔۔ آئی ایس پی آر کے ترجمان نے واشگاف الفاظ میں یہ بتایا کہ ان ٹروپس کو سعودی عرب سے باہر کسی دوسرے ملک میں نہیں بھیجا جائے گا۔

یہ صرف حرمین الشریفین کی حفاظت کے لئے بھیجے گئے ہیں اور دوسرے باہر سے اگر کسی ملک نے سعودی عرب پر حملہ کیا تو ایک سابق معاہدے کے تحت یہ پاکستانی ٹروپس اپنا دفاعی رول ادا کریں گے، لیکن چونکہ ترجمان نے ٹروپس کی قطعی تعداد نہیں بتائی اس لئے وزیر دفاع کو طلب کرکے پوچھا جائے گا کہ وہ اس فیصلے پر اپنا پالیسی بیان دیں۔


وزیر دفاع کی اس طلبی کے احکامات اس وقت دیئے گئے جب پی پی پی کے سینیٹر جناب فرحت اللہ بابر نے یہ سوال اٹھایا کہ پاکستان سے پاک فوج کے ٹروپس کہیں اور بھیجنا عوامی اہمیت کا معاملہ ہے، اس لئے وہ تحریک التوا پیش کررہے ہیں۔ فرحت اللہ بابر نے یہ انکشاف بھی کیا کہ گزشتہ دنوں ہمارے آرمی چیف نے ’’چپکے چپکے‘‘ اسلام آباد میں سعودی سفیر سے ملاقات کی۔

اس ملاقات سے پہلے آرمی چیف نے ’’چپکے چپکے‘‘ تین دن کا سعودی عرب کا دورہ کیا۔ یہ دورہ گزشتہ دو ماہ میں ان کا دوسرا دورہ تھا۔ اس دورے میں آرمی چیف نے ’’چپکے چپکے‘‘ ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان اور سعودی ملٹری کمانڈروں سے بھی ملاقاتیں کیں۔ یہ بھی فرمایا گیا کہ آئی ایس پی آر کی طرف سے کہا جارہا ہے کہ سعودی عرب میں پاکستانی ٹروپس کی نفری ایک ڈویژن سے کم ہوگی۔

اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ کم از کم ایک ڈویژن کے برابر نفری سعودی عرب بھیجی جارہی ہے۔ جناب بابر نے ایک اورنکتہ بھی اٹھایا کہ ہم پاکستانی یمن کے جھگڑے میں کیوں کود رہے ہیں؟ سعودی عرب یہ جنگ ہار رہا ہے اور حوثی جیت رہے ہیں۔ ایسے میں کون ہے جو پارلیمان سے بالا بالا فیصلے کرکے وہاں ہمارے فوجی بھیج رہا ہے؟


پارلیمنٹ میں اس موضوع پر بہت کھل کر اور بڑی تفصیل سے باتیں ہوئیں، اپوزیشن اراکین نے دل کی بھڑاس نکالی، لیکن کسی نے بھی اُس ڈویلپ منٹ کی طرف اشارہ نہ کیا جو ہماری آنکھوں کے سامنے ہورہی ہے۔۔۔ اس کی کچھ جھلکیاں اِن شا اللہ کل کے کالم میں!

مزید :

رائے -کالم -