فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر365

فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر365
فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر365

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

پرویز ملک صاحب وحید مراد کے پرانے دوست اور ابتدائی زمانے کے رفیق تھے۔ دونوں نے ایک ساتھ ہی کام شروع کیا تھا۔ ’’ہیرا اور پتّھر‘‘ اور ’’ارمان‘‘ کی کامیابیوں میں پرویز ملک کا بھی نمایاں حصّہ اور ہاتھ رہا تھا مگر جب وحید مراد کامیاب فلم ساز ہوئے تو کاروباری معاملات میں بالکل ’’فلم ساز‘‘ بن گئے۔ ارمان نے بے انتہا کامیابی حاصل کی تھی۔ کارکنوں کو وحید مراد کے سامنے لب کشائی کی ہمت نہ تھی ۔اس لیے انہوں نے پرویز ملک صاحب سے کہا کہ فلم کی کامیابی پر رواج کے مطابق کارکنوں کو بھی بونس دینا چاہیے۔ بونس کے حق دار ان کارکنوں کی تعداد ایک درجن بھی نہ تھی۔
پرویز ملک گئے اور فلم ساز کے کمرے میں وحید مراد سے ملاقات کی۔ وحید کے پرانے اور بے تکلف دوست ہونے کی بنا پر انہوں نے کسی تمہید کے بغیر یہ مسئلہ وحید مراد کے سامنے پیش کردیا اور کہا کہ ان لوگوں کے تعاون سے جو کامیابی حاصل ہوئی ہے اس میں انہیں بھی شریک کرنا چاہیے۔
پرویز صاحب نے چند ناموں کی ایک مختصر فہرست بھی وحید مراد کے سامنے رکھ دی تھی جس میں خود ان کا نام شامل نہیں تھا۔

فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر364 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
وحید مراد نے کسی تامّل کے بغیر وہ کاغذ پھاڑ کر ردّی کی ٹوکری میں ڈال دیا اور کہا ’’پرویز! اگر ان لوگوں نے کام کیا ہے تو میں نے اس کا معاوضہ بھی ادا کیا ہے۔ اگر میری فلم فلاپ ہوجاتی تو کیا یہ کارکن میرا نقصان پورا کردیتے؟‘‘
پرویز ملک اس خلافِ توقّع طرز عمل پر حیران رہ گئے۔
وحید مراد نے ان کی معلومات میں مزید اضافہ کرنے کے لیے کہا ’’پرویز! یاد رکھو، یہ بزنس ہے اس میں کسی کا لحاظ نہیں کیاجاتا۔‘‘
جب وحید مراد کی زبان سے ہم نے فلم والوں کی بے رُخی اور بدلحاظی کا شکوہ سنا تو خاموش رہنا ہی مناسب سمجھا۔
اس روز وحید مراد ہمیں بہتر موڈ میں نظر آئے۔ ان کا خیال تھا کہ اگر اچھّا کردار ملے تو وہ اب بھی گزشتہ کامیابیوں کی یادیں تازہ کرسکتے ہیں۔
ہم نے کہا ’’آپ خود فلم کیوں نہیں بناتے ہیں۔ اپنے لیے کوئی اچھّا کردار لکھوائیں اور کسی اچھّے ڈائریکٹر کی خدمات حاصل کرکے بہت اچھّی فلم بنائیں جیسا کہ ’’ارمان‘‘ میں کیا تھا۔‘‘
وحید نے ہماری تجویز کا پہلا حصّہ تو نظرانداز کردیا مگر آخری حصّے کے بارے میں تبصرہ کرنا مناسب جانا۔ بولے ’’آفاقی صاحب! پرویز میرا پرانا دوست ہے۔ اس نے بھی مجھے کاسٹ کرنا ضروری نہیں سمجھا۔‘‘
وحید مراد کا یہ شکوہ بھی درست نہ تھا اس لیے کہ پرویز ملک نے کافی عرصے پہلے وحید مراد کے بجائے ندیم اور دوسرے اداکاروں کے ساتھ فلمیں بنانے کا سلسلہ شروع کردیا تھا۔ اس روز وحید مراد قدرے خوشگوار موڈ میں تھے اس لیے ہم نے تلخی پیدا کرنے والی گفتگو سے گریز کیا۔ چائے پی کر چلے آئے۔
چند روز بعد وحید مراد نے ایک ٹی وی پروگرام میں حصّہ لیا تو ان کے پرستار اپنے پسندیدہ اداکار کو دیکھ کر حیران رہ گئے۔ ان کی صحت بگڑ چکی تھی۔ چہرے پر وہ تازگی اور دلکشی نہیں تھی جو وحید مراد کی پہچان تھی۔ وحید اگر غور کرتے تو وہ بھی اس نتیجے پر پہنچتے کہ ان کا ٹی وی کیمرے کے سامنے نہ آنا بہتر تھا۔ جس نے بھی انہیں اس پروگرام میں دیکھا غم زدہ ہوگیا۔ وہ اپنے ماضی کے دنوں کا سایہ نظر آرہے تھے۔ سچ تو یہ ہے کہ وحید مراد کو کامیابیاں بہت آسانی سے اور فراواں مل گئی تھیں۔ وہ ان کے اتنے عادی ہو چکے تھے کہ ناکامی برداشت کرنا ان کے بس میں نہ تھا۔ وہ ماضی میں رہنا چاہتے تھے۔ اُس زمانے میں سانس لینا چاہتے تھے جب وہ پاکستان کے سب سے مقبول‘ منفرد اور اکیلے ہیرو تھے۔ وہ یہ بھول گئے تھے کہ وقت بڑا بے رحم ہے۔ اس کی زد سے کون بچا ہے۔ نشیب و فراز‘ عروج و زوال‘ بلندی اور پستی ہم خاکی انسانوں کا مقدر ہیں۔ کاش وہ ٹھنڈے دل سے غور کرتے تو انہیں احساس ہو جاتا کہ قدرت نے انہیں صرف ایک ہی سہولت سے محروم کیا ہے۔ وہ صرف اداکار کے طور پر غیرمقبول ہوئے تھے جو کہ اکثر اداکاروں کا نصیب ہوتا ہے۔ دوسری تمام نعمتیں انہیں حاصل تھیں مگر وہ صرف ایک محرومی کو دل سے لگا کر بیٹھ گئے۔ دوسری ڈھیر ساری نوازشوں کو فراموش کر بیٹھے۔
وحید مراد نے کراچی میں آنکھ کھولی تھی۔ زندگی کا بیش تر وقت وہیں گزارا تھا مگر لاہور میں گلبرگ کے قبرستان میں دفن ہوئے۔ ان کے والد بھی اسی قبرستان میں محو خواب ہیں۔ یہ بھی قدرت کی ستم ظریفی ہے کہ انہیں لاہور کی مٹّی نصیب ہوئی۔ حالانکہ لاہور میں اب ان کا نہ گھر ہے‘ نہ کوئی پہچان۔ ان کی بیگم اور بچّے بھی اس شہر کو چھوڑ گئے ہیں مگر وہ اسی مٹّی میں دائمی گھر بنا چکے ہیں۔ اللہ انہیں اور ان کے والدین کی روحوں کی مغفرت کرے۔
وحید مراد کے ساتھ اس آخری ملاقات کا نقشہ ہماری آنکھوں کے سامنے گھوم رہا تھا جب ہم ان کی کوٹھی کے لان میں سوچتے رہے کہ سلمیٰ مراد کی اس سردمہری کا کیا سبب تھا؟ شاید وہ ماضی کے تمام رشتے ختم کرنا چاہتی تھیں۔۔۔! پرانی یادوں کو بھلا دینا چاہتی تھیں۔
وحید مراد کے علاوہ کراچی کے کئی فن کاروں نے فلمی دنیا میں بہت دھومیں مچائیں۔ شمیم آرا۔ نیّر سلطانہ۔ رانی۔ محمد علی۔ زیبا۔ لہری۔ نرالا۔ مصطفےٰ قریشی۔ احمد رُشدی۔ مسعود رانا۔ مسرور انور۔ پرویز ملک۔ سہیل رعنا۔ حمایت علی شاعر۔ سروربارہ بنکوی۔ نثار بزمی۔ رخسانہ۔ اقبال یوسف۔ اقبال شہزاد کوئی ایک نام ہوتو گنوائیں۔ یہ سب پاکستان کی فلمی صنعت کے ماتھے کا جھومرہیں۔ اگر پاکستانی فلمی صنعت اس کے لیے کراچی کی شُکرگزار نہ ہو تو یہ احسان فراموشی ہو گی۔(جاری ہے )

فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر366 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں